• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف جب جب بھی اقتدار میں آئے ہیں،انہوں نے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کی برف پگھلانے کی مخلصانہ کوششیں ضرورکی ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے بھارت کی تاریخ کے سب سے انتہاپسند لیکن شاطر نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کے منتخب ہونے سے بھی کئی دن قبل بلکہ اپنے پاکستان کے وزیر اعظم کے انتخاب کے دوران ہی بھارت کی طرف تعلقات میں ہمیشہ پہل دکھائی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کی نظر ٹی وی اور میڈیا کیمروں اور مستقبل کے مورخ کے قلم پر ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے ایسے اقدامات اگرچہ ان کی اپنی اصلی تے وڈی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے قابل جوکھم یا رسک ہیں مگر خطہ برصغیر کے امن پسند اور صلح جو لوگوں کی نظر میں از حد قابل ستائش ہیں۔ اس دفعہ پھر وہ ان کی اپنی بطور پاکستان کے وزیراعظم رسم حلف کے موقع پرسابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو شرکت کی دعوت دینا ہو کہ گزشتہ ستمبر میں دونوں ممالک کے بیچ ان کو ترکے میں ملے خراب تعلقات کے باوجود نیویارک میں ملاقات ہو۔
بھارت کی طرف سے بھی نواز شریف کی شاخ زیتون و دوستی کے بازو پھیلانے پر جواب مثبت ہی آیا ہے اور یہی دونوں جانب نمائندہ حکومتوں کی بڑی بات ہے۔ بڑی بات دونوں اطراف سے ایٹمی دھماکے نہیں جن کو میں نادار قوموں کی طرف سے خودکش دھماکے کہتا ہوں۔
نوازشریف ایک بڑے صوبے کے پنجابی بولنے والے وزیر اعظم ہیں، خود تاجر ہیں یا ان کے پرکھوں کی قبریں بھی جاتی امرا یا بھارت کی مٹی میں ہیں وجہ کوئی بھی ہے لیکن دونوں ممالک کے بیچ بات سے بات چل ہی نکلتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ پچھلی بار نواز شریف کو سزا ہی کارگل سے فوجیں واپس بلانے پر ملی تھی یا کارگل کا قضیہ رکوانے پر۔ شاید اب بھی وہی بھگتيں۔ وہی بات کہ سندھی وزیر اعظم نے بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑنے کی بات کی تھی پنجابی وزیر اعظم نے بارود کے ڈھیر پر امن کا بوٹا لگانے کی کوشش کی ہے۔ وہ صحیح کہتے ہیں کہ بات لاہور واجپائی بس والے دن سے شروع کرنی چاہئے۔اسی طرح سندھی وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھارت سے تعلقات کے حوالے سے بدقسمتی سے سکیورٹی رسک ہی سمجھی گئيں۔ میرے سندھی دوست بس ایل کے ایڈوانی سے سندھی میں بات چیت کے دو چار جملے بولنے کو ہی ان کی کامیابی سمجھتے ہیں جہاں وہ راجیو گاندھی کے تعزیت پر گئی تھیں اور اپنے ساتھ مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو بھی لیکر گئی تھیں ۔ دشمن انہیں ان کی حکومت کے دوران مبینہ طور پر بھارت کے مقتول وزیر اعظم راجیو گاندھی کو سکھوں کی فہرستیں فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ کہتے ہیں کہ اٹک سازش کی پہلی اطلاع سابق فوجی آمر جنرل ضیاء کو بھارتی جاسوس ایجنسی را نے ہی فراہم کی تھی۔کم از کم اس اٹک سازش کیس کے دو مبینہ کرداروں غلام مصطفیٰ کھر کو پھر وزیر اور غلام مصطفیٰ جتوئی کو پھر وزیراعظم کے حلف بھی اٹھوائے گئے اور اس کے دو اور کردار آمر مشرف کے زمانے میں پبلک پراسیکیوٹر بھی بنائے گئے۔ آج ہمارا موضوع نہ اٹک سازش کیس ہے نہ اٹک کا قلعہ جہاں وزیر اعظم نواز شریف کو رکھے جانے کی سزا کی ایک اہم اور بڑی وجہ ان کی کارگل سے فوجیں واپس بلوانا تھی اور یہ صرف نواز شریف جیسے ہی وزیر اعظم کر سکتے تھے۔ ضیاء الحق کے دنوں میں آرمی ہائوس کی چھت سے بلیاں صرف شتروگھن سنہا کے بچے ہی پکڑ سکتے تھے اور امیتابھ بچن کو پاکستان آنے کی دعوت صرف چوہدری شجاعت ہی بھیج سکتے ہیں۔ شاید اسی لئے ہی تو ان دنوں میں آمر ضیاء الحق کے مخالف سیاسی رہنما نے کہا تھا کہ ہمارے بھی بچوں کو آرمی ہائوس کی چھت سے بلیاں پکڑنے کی اجازت دی جائے،خیر۔ لیکن یہاں اس بات کا زبردست کریڈٹ جنرل پرویز مشرف کو ضرور دینا چاہئے کہ ان کی حکومت کے آخری سالوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت کئی تکرار بذریعہ بیک ڈور ڈپلومیسی یا جسے وہ شٹل یا ہوٹل ڈپلومیسی کہتے تھے، حل ہوا ہی چاہتے تھے بلکہ امن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ آمر نے چیف جسٹس والا اڑتا تیر اپنی طرف لے لیا۔ پھر نہ جانے کیوں نہ من موہن سنگھ اور نہ ہی بیرونی طاقتور فریقین نے بھی یہ ضروری سمجھا کہ جو دیگ پرویز مشرف اور من موہن سنگھ نے چڑھائی تھی اس کا ڈھکنا مشرف کے بعد آنے والے پاکستانی حکمرانوں یعنی زرداری اینڈ کو کے ہاتھوں اتروایا جائے ۔
جیساکہ زرداری نواز شریف نہیں تھا تو انہوں نے اگر بھارت کے ساتھ دوستی کی پالیسی کی محض بات بھی کرنے کی کوشش کی تو انہیں ان کا جواب بقول امریکی صحافی اسٹیو کول چھبیس نومبر کو ممبئی دہشت گردی کی صورت دیا گیا۔
جہاں تک پاک بھارت دوستی کے حوالوں کا تعلق ہے تو زرداری نے اپنی حکومت کے باقی دن درگاہ ڈپلومیسی یا سفارت کاری یعنی اجمیر کے خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ کی زیارت اور نذرانے نذر کرنے میں گزاری۔ زرداری کے پیر زور تھے کہ وہ اسلام آباد کے کوفے سے باعزت و عافیت اپنے دن گزار کر واپس آئے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے دن نہ عافیت سے کٹے نہ عزت سے۔ سندھ کو موہن جو دڑو میں بدلنے کا شکریہ،جئے بھٹو۔ اور نہ ہی پاکستان کے لوگ اب کوئی سکھ کا سانس لے پائے ہیں۔
نواز شریف حکومت نے جو نریندر مودی کی پارٹی کے بھارت میں بڑی اکثریت سے جیتنے اور ان کی بطور بھارت کے وزیر اعظم حلف کی تقریب میں نئی دہلی جانے کے بہرحال ایک جرأت مندانہ فیصلے کے ساتھ جو فیصلہ سب سے مخلصانہ کیا وہ بھارت کے ان ایک سو اکاون ماہی گيروں کو خیر سگالی کی علامت کے طور پر رہا کرنے کا فیصلہ ہے جو کئی دنوں مہینوں برسوں سے پاکستان کی جیلوں میں بند تھے:
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
یہ بچارے ماہی گیر دونوں طرف کے بین الاقوامی پانیوں میں روزی روٹی کی تلاش میں راستہ بھول کر یا غلطی سے ممنوع پانیوں کو پار کرنے پر قید کئے جانے والے ہندوستانی پاکستانی مچھیرے۔ بہت سوں کے خاندان والوں کو تو گمشدہ شہریوں کے اعزہ و اقارب کی طرح یہ یقین بھی نہیں تھا کہ ان کے پیارے جو ان کے لئے روزی روٹی کی تلاش میں جال و کشتیاں لیکر نکلے تھے وہ زندہ ہیں کہ مگرمچھوں کی نظر ہوگئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مسئلہ پاک بھارت تعلقات میں سیکرٹری سطح کے مذاکرات میں بھی شاذ و نادر ہی آتا ہے۔ اسی طرح بھارت کو بھی ایسے بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی مچھیرے خیر سگالی کے طور پرفوری رہا کردینے چاہئيں۔ان بیچارے بھارت میں قید پاکستانی مچھیروں کے پیچھے ان کے گھر والوں پر جو گزر رہی ہے اس کا مشاہدہ کراچی کے رہڑی میان، ابراہیم حیدری کے گوٹھوں اور بدین اور ٹھٹھہ ضلع کی مچھیروں کی بستیوں میں کچے گھروں پر جاکر کیا جا سکتا۔ شاہ لطیف بھٹائی نے انہی کیلئے کہا تھا ’’گھاتو گھر نہ آئيا‘‘ (گھات کو جانے والے لوگ واپس گھر نہ لوٹے)۔اسی طرح نہ فقط مچھیرے بلکہ فلم رامچند پاکستانی کی طرح دونوں ملکوں کے کئی چرواہے ، سرحدی دیہات کے وہ لوگ بھی ’’جاسوسی‘‘ کے الزامات میں برسوں سے دونوں ملکوں کی جیلوں میں سڑ رہے ہیں جو کبھی غلطی سے اپنی بکری یا ڈھور ڈنگر واپس لانے کو دوسری طرف جانور کے پیچھے چلے گئے اور قید ہو گئے۔ ان کے کیسوں پر شدید نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ان میں بیگناہ لوگ دونوں طرف فوری طور پر رہائی کے مستحق ہیں۔ خطہ برصغیر کے لوگ ایک نئے امن کے ابواب کھولے جانے کے مستحق ہیں۔ کتنی عظیم بدقسمتی ہے اکیسویں صدی کے پہلے ڈیڑھ عشروں تک بھی دونوں ممالک کے عوام بے مقصد سرد پا بے سرد جنگوں میں مبتلا رہیں۔ اب یہ بچوں والی لڑائی ختم ہوجانا چاہئے۔ دہلی کے لال قعلے پر سبز یا کالا پرچم لہرانے یا دوپہر کی چائے لاہور کے جم خانے میں توپوں کی گھن گرج میں پینے کی جنونی خواہش ختم ہونی چاہئے۔ مانا کہ دونوں طرف کے باز کبوتر نہیں بن سکتے مگر پھر بھی:
سپاہی ہے جو سرحد پر
اسے ایک پھول دینا تم
اور کہنا تم
تمہیں بھی کوئی یاد کرتا ہے
اب ختم یہ کھیل کرلو تم
(حسن مجتبیٰ)
پھر بھی نواز شریف صحیح ،کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں اتنی چیزیں اور رہن سہن قدرے مشترک نہیں جتنا پاکستان اور بھارت کے لوگوں کے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں دکھ سکھ بھی دنوں ملکوں کے لوگوں کے ساجھے ہیں، نصیب بھی ساجھے، شاید یورپ کے مختلف ملکوں کے لوگوں کی طرح۔
تازہ ترین