• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر تاریخ میں تبدیلی نہ ہوئی تو اگلے ہفتے کے اختتام پر نیا بجٹ منظر عام پر آ کر تمام پیش گوئیوں، سیاسی گھڑدوڑوں کا خاتمہ کر کے حقیقت واضح کر دے گا لہٰذا اس وقت کسی اور موضوع پر بات کرنا زیادہ موزوں ہوگا۔ آج کل ایک اہم معاشرتی موضوع زیر بحث ہے اس سے میری مراد سندھ اسمبلی کا حالیہ منظورشدہ ’’سندھ چائلڈ میرجینر ریسٹرینٹ بل 2014 ہے‘‘۔ ویسے ایک پرانے قانون کے تحت بھی ملک میں 18 سال سے کم عمر والوں کی شادی کی اجازت نہیں مگر کھلے چھپے خصوصاً کم عمر بچیوں کی شادیاں عام ہیں اور ان میں وہ شادیاں بھی شامل ہیں جو کمسن بچیوں کی 75/70 سالہ بوڑھوں سے نقد رقم لے کر یا ان کی کم سن بیٹیاں لے کر دی جاتی ہے۔ اگر پولیس کو پتہ چل جاتا ہے تو بعض وقت وہ شادی رکوا دیتی ہے اور کبھی مک مکا کر کے معاملہ دبا دیتی ہے۔ پاکستانی شہروں میں کم مگر دیہاتوں میں ایسی ہزاروں شادیاں ملیں گی۔ میری آخری سرکاری ملازمت شماریات کے محکمے میں تھی اور میں فیلڈ سروسز ڈویژن کا سربراہ تھا جب ملک میں کوئی سروے ہوتا تو مجھے مشرقی اور مغربی پاکستان کے منتخب شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کا دورہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ میں کراچی سے حیدرآباد جیپ کے ذریعہ جا رہا تھا، راستے میں پیٹرول ختم ہوگیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا تم بس میں حیدرآباد جائو اور پیٹرول لے آئو میں جیپ میں بیٹھا ہوں، 25/20 منٹ کے بعد میں نے بسکٹ کا ڈبہ نکالا اور بسکٹ کھانے لگا کہ میری نظر کچھ فاصلے پر ایک جھگی پر پڑی جس کے سامنے ایک بوڑھا کسی کام میں مصروف تھا، میں بسکٹ کا ڈبہ لئے بوڑھے کے پاس آیا، سلام کیا اور پوچھا کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں، حالانکہ وہاں بیٹھنے کی کوئی چیز نہیں تھی، بوڑھے نے آواز دے کر کچھ کہا تو اندر ایک 12/11 سال کی لڑکی گھونگھٹ نکالے ایک جھلنگا سا مونڈھا لے کر آئی، جس پر میں بیٹھ گیا۔ میں نے بسکٹ کا ڈبہ لڑکی کی طرف بڑھایا اس نے سر ہلا کر لینے سے انکار کردیا۔ میں نے بڑے میاں سے کہا اپنی بیٹی سے کہو ڈبہ لے لے۔ بوڑھے نے کچھ کہا تو وہ ڈبہ لے کر جھگی میں چلی گئی۔ بوڑھے نے مجھے بتایا کہ یہ میری دھی نہیں گھر والی ہے۔ میں نے کہا تمہاری گھر والی بہت چھوٹی ہے، بوڑھا بولا میری دو گھر والیاں مر گئیں میں نے ساونی کے باپو کو تیس ہزار روپے دے دیئے، وہ تو پچاس ہزار مانگ رہا تھا، بڑی مشکل سے راضی ہوا، میں ساونی کا بڑا خیال رکھتا ہوں اس کو لکڑیاں لانے کے لئے جنگل نہیں جانے دیتا، گاڑی تک خود چھوڑتا ہوں کہ وہ گائوں والیوں کے ساتھ جا کر نہر سے پانی لے آئے۔ وہ دال بھاجی پکاتی ہے، رات کو روٹی میں خود بناتا ہوں۔ اب مجھ پر واضح ہوگیا کہ ہمارے ہاں حاملہ عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دوسرے ملکوں سے کیوں زیادہ ہے کہ 13/12 برس میں یہ بچیاں مائیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ 22/21 سال کی عمر تک یہ چار پانچ کمزور بچوں کی ماں بن کر خود بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتی ہیں۔ اطباء اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کم از کم 18 سال تک بچیوں کی ہڈیوں کی نشو و نما جاری رہتی ہے، جن بچیوں کی شادی کم عمری میں ہوتی ہے وہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں اگر تپ دق پر کسی حد تک قابو لیا گیا ہے تو کینسر جیسے مہلک امراض موجود ہیں، ایک نیا نام ’’فسٹولا‘‘ کا ہے، مرض تو یہ پرانا ہے مگر اب اس کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور پاکستان میں ہر سال 5 ہزار مریضائیں اسپتالوں میں آتی ہیں۔ اس مرض میں پیدائش کی نالی میں سوراخ ہو جاتا ہے اور پیشاب و فضلہ اس سے خارج ہوتا رہتا ہے، مریضہ اور اس سے زیادہ تیماردار پریشان رہتے ہیں، اس مرض میں بچہ ادھورا یا مردہ پیدا ہوتا ہے یا پیدائش کے ایک ہفتے کے اندر مر جاتا ہے اور ماں کو زندگی بھر کے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس کا بہترین علاج سرجیکل آپریشن ہے اور یہ ہر ڈاکٹر کا کام نہیں، اب متعلقہ ڈاکٹروں کو اس کی تربیت کا اہتمام کیا جانے والا ہے۔
اب اس پس منظر میں 22 مئی کے اخبار جنگ کی یہ خبر ملاحظہ ہو کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری کا نکاح تو جائز قرار دے دیا مگر رخصت (لڑکی) کے بالغ ہونے پر ہوگی۔ بالغ ہونے پر نکاح سے متفق نہ ہونے پر ’’خیارالبلوغ‘‘ کا اختیار متاثرہ شخص (یہ اخبار میں صحیح نہیں چھپا) استعمال کرسکتا ہے، یہ اختیار تو لڑکی کو دیا گیا ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی جو حیثیت ہے وہ سب پر ظاہر ہے یہاں مرد کو عورت پر تفوق حاصل ہے، عورت کو جوتی کی نوک سمجھا جاتا ہے، باپ بیٹی کو، بھائی بہن کو، بیٹا ماں کو شوہر، جیٹھ، دیور، بیوی یا بھاوج کو مال مفتوحہ سمجھتے ہیں اور اس سے چھٹکارے کے لئے بآسانی ’’کاری‘‘ کا الزام لگا کر قانون کی پناہ میں آ جاتے ہیں۔ کیا وہاں ’’جبری شادی‘‘ ہونے والی لڑکی خیارالبلوغ کا دعویٰ کر کے زندہ رہ سکتی ہے؟ دوسری طرف بلوغ کی شرط سے ناجائز استحصال کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس اجلاس میں متعدد قابل تحسین اقدامات منظور کئے ہیں جیسے ونّی یا وٹہ سٹہ کی شادی، سورہ کے ساتھ نکاح وغیرہ کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے اس قسم کی شادیوں کا اختیار باپ، دادا یا سرپرستوں کو بھی حاصل ہیں۔ راقم اسلامی نظریاتی کونسل سے بصد ادب گزارش کرے گا کہ وہ اپنی قرارداد پر ازسر نو غور کر کے لڑکے اور خصوصاً لڑکی کی شادی کی عمر 18 سال تسلیم کر لے اور اسمبلی کی قرارداد کو غیرآئینی اور جذباتی نہ کہے بلکہ سندھ کے علاوہ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی اسی قسم کے قانون کے نفاذ کی حمایت کرے اس طرح ملک میں حاملہ عورتوں بچوں کی شرح اموات میں کمی آ جائے گی اور ان کے بے جا علاج معالجے اور تجہیز و تکفین پر غریب اور متوسط طبقے کو جو ناگہانی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں وہ اس سے محفوظ ہو جائیں گے۔ یہ اہم معاشرتی مسئلہ ہے جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہئے۔
تازہ ترین