• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
31 مئی کو دنیا بھر میں ’’یوم عالمی مخالف تمباکو‘‘ منایا جائے گا اسی دن کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ ایک ریٹائرڈ جج نے ایک انٹرویو کے دوران سگریٹ نوشی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی سے متعلق اسلامی تعلیمات خاموش ہیں اور کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ فاضل جج کے بیان پر غور کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقہی اعتبار سے تمباکو نوشی کس زمرے میں آتی ہے؟ کیا تمباکو بھی ’’منشیات‘‘ کے زمرے میں آتا ہے؟ اور کیا سگریٹ نوشی کے لئے بھی دوسرے عصری مسائل ہی کی طرح اجتہاد کی گنجائش ہے؟ ہم یہ بحث علماء پر چھوڑتے ہیں اور آج سگریٹ نوشی کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں۔
’’تمباکو‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چار ہزار سے زائد مختلف مرکبات کا مجموعہ ہے، یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میڈیکل تجرباتی لیبارٹری میں جب مینڈک کو زندہ لایا جاتا ہے تو اس کو چیر پھاڑ کرنے سے پہلے بے ہوشی کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس کے لئے مینڈک کے منہ میں سگریٹ کا تمباکو بھرا جاتا ہے اس سے وہ بے ہوش ہو جاتا ہے اور پھر تجربات کرنے والے سرجن بآسانی چیر پھاڑ کر کے اس کے اندرونی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مینڈک اور حضرت انسان کا نظام ہضم یکساں ہے لیکن غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ہضم کرنے کی صلاحیت انسانوں میں مینڈکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی مثال میں یوں دوں گا کہ جب آپ سگریٹ کا ایک کش لیتے ہیں تو دس سیکنڈ کے اندر یہ چار ہزار سے زائد کیمیائی مرکبات آپ کے دماغ، دل، معدہ اور دوسرے اعضائے رئیسہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان مرکبات میں نکوٹین ایک ایسا جان لیوا مادہ ہے جو آپ کے پھیپھڑوں کے ذریعے بڑی آسانی سے آپ کے جسم کے ایک ایک رگ و ریشے میں پہنچ جاتا ہے اور پھر جسم میں خون کی گردش یعنی خون کو لانے اور لے جانے والی رگوں، شریانوں اور نالیوں کے اندرونی رستے کو تنگ کر دیتا ہے جس سے آپ کے جسم میں خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے جسے بلڈ پریشر ہائی بھی کہتے ہیں اور پھر دل کو زور سے خون پہنچانے پر مجبور کر کے اسے نقصان پہنچاتا ہے۔ دوسرا کیمیائی مادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، یہ گیس جو تمباکو کا ایک خاص جزو یا حصہ ہے دل اور دماغ تک آکسیجن ، جیسی حیات بخش گیس کی پہنچنے میں رکاوٹ ڈالتی ہے بالخصوص دماغ تک پہنچنے والی آکسیجن گیس کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ دشمنوں سے بھی برا سلوک کرتی ہے جب کہ یہی آکسیجن خون کو جسم کے مختلف اعضاء تک پمپ کرنے کے عمل میں ایک ایندھن کا کام دیتی ہے۔ جیسے جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس آپ کے جسم میں سرایت کرتی جاتی ہے ویسے ویسے آپ کے پھیپھڑوں کو ملنے والی حیات بخش آکسیجن کی مقدار گھٹتی جاتی ہے۔ایک حالیہ سروے کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ دو بلین (2؍ارب) ہے، جن میں سے 45 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تمباکو کے استعمال کے نتیجہ میں 1.5 ملین خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں جب کہ آئندہ بیس سال کے عرصہ میں ان کی تعداد دگنی ہو جائے گی۔ ادھر ہمارے ہاں 51 فی صد خواتین سگریٹ نوشی کی لت میں گرفتار ہیں جب کہ غریب اور متوسط طبقے کی 80 فیصد خواتین چرس پیتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی چونکانے والی ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال نشہ کرنے والوں کی تعداد میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے یہ سروے رپورٹ ورکنگ ویمن آرگنائزیشن پاکستان کی جانب سے حال ہی میں تیار کی گئی ہے۔ ادھر بھارت میں لگ بھگ 19 سے 20 کروڑ افراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جس میں تقریباً دس کروڑ افراد سگریٹ نوشی اور باقی افراد دیگر طریقوں سے تمباکو استعمال کرتے ہیں جب کہ لگ بھگ 10 لاکھ افراد ہر سال تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں کھانسی، سی او پی ڈی، سانس و پھیپھڑوں کی بیماریاں اور منہ کا کینسر بھی شامل ہے۔ بھارت ہی میں لگ بھگ دس ہزار کروڑ روپے تمباکو اور اس کی مختلف شکلوں میں بنا کر اڑا دیئے جاتے ہیں۔ہماری اس چھوٹی سی دنیا میں ہر روز تقریباً 13 ہزار افراد تمباکو نوشی کے سبب موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر تمباکو ہے کیا جس سے لوگ خوشی خوشی موت خریدتے ہیں؟ اس کا آغاز کب، کہاں اور کیسے ہوا؟ میں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں۔ تمباکو کے پتوں کی باقاعدہ دریافت پہلی بار کولمبس نے کیوبا کے سفر کے دوران کی تھی، (یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ امریکہ نے کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسترو کو تین بار اس کے پسندیدہ سگار سے ہلاک کرنے کی کوشش کی ہے)۔
جب کولمبس نے کیوبا کے ساحل پر پڑائو ڈالا تو وہاں کے باشندوں کواس نے ان پتوں کو سونگھتے ، چباتے اور پیتے دیکھا پھر اس کے ردعمل پرغور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے استعمال کرنے والوں پر ان پتوں کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ 1560ء میں فرانس کے سفیر برائے پرتگال نے قیدی جہاز رانوں سے یہ پتیاں حاصل کیں کہ اسے بتایا گیا تھا کہ ان پتیوں کے لگانے سے زخم مندمل ہو جاتے ہیں اور اس سے السر کا علاج بھی کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کو وبائی امراض جیسے طاعون وغیرہ سے بچنے کے لئے بھی موثر خیال کیا جاتا ہے اس وقت کے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ نظام ہاضمہ کو درست کرتی ہے اور خون کی صفائی میں معاون ہے کیوبا میں جو اسپین سے جہاز اور ملاح آئے وہ اسپین لوٹتے ہوئے اپنے ساتھ تمباکو کے پتے بھی لے آئے اس کی وجہ سے اسپین، فرانس اور جرمنی میں سگار بننے شروع ہو گئے۔ یہ 1786ء کی بات ہے۔ ادھر امریکہ کی سرزمین پر سگار بنانے کا پہلا کارخانہ 1821ء میں قائم ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمباکو کی وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو چین میں استعمال ہوتا ہے اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے اور تیسرے نمبر پر بھارت ہے جہاں دس ہزار کروڑ روپے دھوئیں میں اڑا دیئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بیشتر اموات پسماندہ، کم اور اوسط آمدنی والے ممالک اور تھرڈ ورلڈ میں ہوتی ہیں۔ تمباکو نوشی سے نقصانات کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے اور ان میں سے بڑا کینسر کے موذی مرض کا ہے کہ اگر آپ سگریٹ پیئں گے تو سگریٹ آپ کو کھا جائے گا۔آخر یہ آپ کو اپنے شہر ایمسٹرڈیم لئے چلتا ہوں جہاں مقامی ریسٹورنٹ میں ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر تحریر ہے۔’’ہوٹل کے اندر سگریٹ پینا منع ہے، سگریٹ پینے والوں سے گزارش ہے کہ وہ باہر جا کر اپنی صحت خراب کریں‘‘۔
تازہ ترین