• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی صحافی برکھادت نے نواز مودی ملاقات کے بعد ٹویٹ کیا ’’پہلی بار پاک بھارت وزراء اعظم ملاقات میں کشمیر کا ذکر ہوا نہ پاکستانی وزیر اعظم کشمیری علیحدگی پسند قیادت سے ملا اور نہ میاں نواز شریف کی زبان پر "k"کا لفظ آیا جبکہ بھارتی سیاست اور میڈیا میں آئین کا آرٹیکل 370ختم کر کے کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ قرار دینے کی بحث زوروں پر ہے‘‘ مجھے پڑھ کر شرمندگی ہوئی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی نیک نیتی پر کسی کو شک نہیں، اُن کی امن پسندی قابل داد ہے اگرچہ اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے وہ عقابوں کی رائے پر چلتے ہیں۔ میاں صاحب پاک بھارت تنازعات کا حل چاہتے ہیں اور خیر سگالی پر مبنی تعلقات ،مگر وہ شدت جذبات میں یہ بنیادی حقیقت اکثر بھول جاتے ہیں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور بین المملکتی تعلقات میں نیت سے زیادہ عزائم اور منصوبوں کو دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں موافق مخالف کسی کو یہ توقع ہرگز نہ تھی کہ میاں صاحب نریندر مودی سے مل کر واپس آئیں گے تو جموں و کشمیر ان کی جیب میں اور جہلم و چناب کا سارا پانی اُن کے چُلّو میں ہو گا اور فاٹا و بلوچستان سے بھارتی تخریب کار ٹیمیں، جموں و کشمیر سے فوجیں واپس چلی جائیں گی تاہم یہ خواہش ہر ایک کی تھی کہ اگر نریندر مودی نے ملاقات میں کسی بداخلاقی اور ناشائستگی کا مظاہرہ کیا، کوئی ناروا مطالبہ دہرایا تو اٹھارہ کروڑ عوام کا منتخب نمائندہ ترکی بہ ترکی جواب ضرور دے گا مگر بھارتی سیکرٹری خارجہ کی غیردوستانہ پریس بریفنگ اور نریندر مودی کی طرف سے پاکستان پر عائد کی گئی فرد جرم کے جواب میں میاں صاحب نے میڈیا کے سامنے کسی مجہول منشی کا لکھا بے ربط، بے وزن اور کسی واضح تاثر سے یکسر محروم بیان پڑھا اور سوالات کا جواب دیئے بغیر چلے گئے تو ہر ایک کو مایوسی ہوئی۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ برکھادت کے بقول میاں صاحب کے منہ سے ’’کاف‘‘ تک نہ نکلا۔
ملاقات کے بعد میاں صاحب کے چہرے اور باڈی لینگوئج سے ایک کی جارحانہ گفتگو اور دوسرے کی معصومانہ خاموشی کا تاثر نمایاں تھا۔ ؎ تیری صبح کہہ رہی ہےتیری رات کا فسانہ۔ سیکرٹری خارجہ نے جو فرد جرم سنائی اور مور اوور کے طور پر کرزئی کے بیان کا حوالہ بھی دیا وہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ 2011ء سے یہی باتیں سنتے سنتے پاکستانی اور عالمی رائے عامہ کے کان پک گئے ہیں مگر میاں صاحب نے دو اڑھائی گھنٹے تاخیر سے میڈیا کے سامنے آ کر بھی دوٹوک اظہار خیال سے کیوں گریز کیا؟ یہ پریشان کن بات ہے جواب آں غزل کے طور پر کہنے کو کچھ نہ تھا یا تجارت، مشترکہ ورثے اور کھانے پینے، رہنے سہنے کے حوالے سے دونوں قوموں میں یکسانیت کا جو آموختہ انہیں ازبر تھا وہ مودی کی جلی کٹی سن کر یاد نہ رہا۔ سرتاج عزیز یا طارق فاطمی میں سے کوئی روشنی ڈال سکتا ہے۔
حریت کانفرنس کے کسی لیڈر سے نہ مل کر پانی اور کشمیر کا ایشو نہ چھیڑ کر اور نریندر مودی کی مسلم و پاکستان دشمنی کا ذکر نہ کر کے میاں صاحب نے تو اچھے اور نفیس مہمان ہونے کا ثبوت دیا مگر فرد جرم سن کر جواب نہ دینے اور بھارتی میڈیا کو اپنے موقف سے آگاہ نہ کرنے کی کوئی وجہ اس کے سوا نظر نہیں آتی کہ میاں صاحب نریندر مودی کے دلائل سے متاثر ہوئے اور جس طرح اوبامہ سے ملاقات کے بعد انہوں نے اپنا گھر ٹھیک کرنے پر زور دیا تھا اب بھی اپنی منجی تلے ڈانگ پھرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
سیکرٹری خارجہ سطح پر مذاکرات کی بحالی کوئی بریک تھرو نہیں، سابقہ دور میں وزراء خارجہ سطح پر مذاکرات ہو چکے ہیں اور حسب ِ دستور ناکام۔ حنا ربانی کھر کا دورئہ بھارت کوئی پرانی بات نہیں مودی کی طرح من موہن سنگھ نےبھی یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کی طرف سے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کی تھی نوبت کبھی نہ آئی کہ بھارت پہلے حافظ سعید، دائود ابراہیم اور ذکی الرحمٰن لکھوی سمیت ممبئی دھماکوں کے ذمہ داروں کی حوالگی چاہتا ہے اور آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کا تابع فرمان ادارہ بنانے کی یقین دہانی۔
بھارتی حکمران کوئی کانگریسی ہو، مہا سبھائی، کشمیری یا گجراتی ہٹ دھرمی، انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ میاں صاحب شرمو شرمی یا جذبہ خیر سگالی میں نریندر مودی سے وہ باتیں شاید نہ کر سکے جو شرم الشیخ میں یوسف رضا گیلانی اور آگرہ میں پرویز مشرف نے کھل کر کیں۔ دونوں خالی ہاتھ لوٹے مگر دل کی بھڑاس نکالی اور بھارتی عوام کو سوچنے پر مجبور، کشمیر ی عوام کو مسرور اور پاکستانی قوم کو مسحور کر آئے۔
میاں نواز شریف کی خواہشات کے جواب میں نریندر مودی کے مطالبات سے ان لوگوں کو مایوسی ہوئی جو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ایک تجربہ کار اور پنجابی وزیر اعظم نو منتخب بھارتی سربراہ حکومت کے درمیان پہلی ملاقات میں تجربہ، ناتجربہ کاری پر غالب رہے گا اور میاں صاحب حیدرآباد ہائوس سے یہ شعر گنگناتے نکلیں گے ؎
راہ پہ اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں
مگر بنیا زیادہ ہوشیار اور تجربہ کار نکلا، ممبئی سے ہرات تک ہر دہشت گردی کا ذمہ داری پاکستان کو قرار دے کر دبائو بڑھانے میں کامیاب رہا۔
ہندو قیادت فیاض، کشادہ قلب اور دیالو کبھی نہ تھی۔ قائد اعظمؒ ہندو قیادت کے مزاج کو سمجھے اور اس کی ہٹ دھرمی، تنگ نظری ، مفادات کی پوجا پر مبنی پالیسی کا جواب دو قومی نظریہ پر ثابت قدمی کی صورت میں دیا۔ کشمیر کو شہ رگ قرار دینا اسی پالیسی کا حصہ تھا مگر ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف اور میاں نواز شریف تک ہمارے سادہ لوح سول و فوجی حکمران علاقائی ترقی و استحکام، دوطرفہ تجارت اور معاشی فوائد کا لالچ دے کر اس بنیے کا دل لبھاتے رہے جو معیشت اور تجارت کے معاملات کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔
قیام دہلی کے دوران کسی مشیر، ساتھی یا حسین نواز نے میاں صاحب کو معلوم نہیں کچھ بتایا یا ان کے اشارئہ ابرو کے منتظر رہے مگر ان دنوں بھارت میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو ختم کر کے یونین میں ضم کرنے کے حوالے سے پیش رفت جاری ہے۔ اودے ٹھاکر شیوسینا کی خواہش کے مطابق پاکستان کو صحفۂ ہستی سے مٹانے اور مسائل کی جڑ کو ختم کرنے کے لئے دبائو بڑھا رہے ہیں اور گجرات میں ہندو مسلم فسادات کی ریہرسل جاری ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ کی آمد کے بعد بھارت افغانستان تعلقات کی نئی جہتیں طے ہوں گی۔
اس صورت میں برابری کی بنیاد پر تعلقات کی بحالی اور برہمنی عزائم کے سدباب کی واحد صورت ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک میں حکومت، فوج اور مذہبی و سیاسی قوتوں کا ایک ہی صفحہ پر ہونا اور اختلافات و انتشار کا خاتمہ ہے۔ بھارت سے تجارت اور تعلقات کے راستے پر پھونک پھونک کر قدم رکھنا اور دفاعی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز ہے۔ قوم کو یہ یقین دہانی کہ کور ایشوز بیک برنر پر رکھ کر بھارت سے تجارت ہو گی نہ دوستی کی خواہش کمزوری میں تبدیل ہو گی۔ دوستی کے لئے کوئی شرط قبول ہے نہ تصادم کو تعاون میں بدلنے کے لئے کشمیر، پانی اور بھارتی مسلمانوں کے مفادات پر سمجھوتہ۔
اور ہاں میاں صاحب 1999ء سے نکل کر 2014ء میں داخل ہوں۔ مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ وہ آغاز 1999ء سے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم بھی 1999 کی طرح معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تیار ہیں۔ مومن کبھی ایک سوراخ سے دو بارہ نہیں ڈسا جاتا اور دانا کبھی اپنے ناکام تجربے کو نہیں دہراتا۔ آخر میں دی ٹائمز آف انڈیا کی شہ سرخی
MOODI TALKS TOUGH ON 26/11 TRIAL TERRORISM WITH NAWAZ
تازہ ترین