• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بارکا واقعہ سنئے۔ کسی نے پوچھا’’میڈیا میں کیا کیا چیزیں آتی ہیں؟‘‘جواب ملا کہ ریڈیو، ٹی وی اور اخبار سے لے کر دیوار پر لکھی ہوئی عبارتوں تک ہر چیز میڈیا ہے۔پوچھنے والے نے پھر پوچھا’’ اور تانگے پر لگا ہوا لاؤڈاسپیکر؟‘‘یہ واقعہ کافی پرانا ہے۔ اس وقت تک تازہ ایجادات میں لاؤڈاسپیکر ہی شامل تھاچاہے وہ سوزوکی پر لگا ہو، چاہے مسجد کے مینار پر۔ اصل میں جو بات کہی جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ ہر وہ چیز جو رائے عامّہ پر اثر انداز ہو وہ ہے میڈیا یعنی بات آگے بڑھانے کا وسیلہ۔ اس کا ایک عجوبہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا، اُس کا احوال آخر میں سناؤں گا۔ تو لاؤڈاسپکر کے بعد ایجادات کی دنیا میں جو بھونچال آیا اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ رائے عامّہ کو جو چیزیں ہلا کر رکھ دیں، تصور کیجئے وہ کیا ہیں۔ وہ ہے میرے ہاتھ میں موجود موبائل ٹیلی فون اور میرے کمرے کی میز پر رکھا ہوا کمپیوٹر۔ یہ ڈیڑھ بالشت برابر ایک کھڑکی ہے جس میں نہ صرف یہ کہ میں ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہوں بلکہ ساری دنیا مجھے دیکھ سکتی ہے اور چاہے تو مجھے اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش بھی کر سکتی ہے۔ میں بھی اس کے جواب میں اپنی دلیلوں کا دفتر کھول سکتا ہوں اور باقی دنیا کی رائے پر اثر انداز ہونے کے نئے نئے ڈھنگ اختیار کر سکتا ہوں۔یہ ایجاد اتنی نئی ہے کہ ابھی ہم پوری طرح طے بھی نہیں کر پائے ہیں کہ نسل ِانسانی کی خاموش جھیل میں یہ کس نے کیسا پتھر پھینکا ہے۔ کمپیوٹر سستا ہوتا جا رہا ہے۔ لڑکوں لڑکیوں کو حکومت مفت لیپ ٹاپ دے رہی ہے۔ بچّوں نے ماں باپ سے کمپیوٹر کی فرمائش پر اصرار شروع کر دیا ہے۔ طالب علم محسوس کررہے ہیں کہ اس کے بغیر کام چلنا مشکل ہے اور والدین یعنی بڑے بھی ای میل کے لئے اس کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں کیونکہ خط لکھنے کا چلن اٹھتا جارہا ہے۔ بچّوں کی تصویریں آرہی ہیں، جوانی کے دنوں کی تصویروں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی ترغیبات ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں دنیا کی یہ کھڑکی کھل رہی ہے۔ اس میں یہ جو معمولی سی کشش ہے یہی آگے چل کر ایسا وسیلہ بنے گی کہ چھوٹے موٹے پیغامات کے بعد بڑے بڑے احساسات اور خیالات کا تبادلہ ہونے لگے گا۔ ایک اتنا بڑا مکالمہ چل نکلے گا جس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ ایک عالمگیر گفتگو ہونے لگے گی۔ کون حق پر ہے کون نہیں، یہ فیصلے مذاکرات کی کسی میز پر نہیں، میری میز پر رکھے ہوئے انٹرنیٹ پر ہوں گے۔ میرے ایک ذرا سے فقرے کی بنیاد پر ایک بحث چل نکلے گی، آپ کی معمولی سی رائے کے نتیجے میں رائے عامّہ کی ایسی لینڈ سلائیڈنگ شروع ہو گی جسے روکنا دوبھر ہو جائے گا۔ کیسے کیسے معاملوں کے لئے میدان ہموار ہوں گے۔کیسے چلتے چلاتے کاموں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونے لگیں گی۔ کیسے کیسے راز فاش ہوں گے، کیسی کیسی سازشیں بے نقاب ہوں گی۔ کبھی یہ ہوگا کہ اچانک دنیا ساکت ہو جائے گی، کبھی ایسا طوفان اٹھے گا کہ دنیا کہے گی’ خدا کی پناہ‘۔ سو باتوں کی ایک بات، دنیا میں ذہنوں کا جو انقلاب آنے والا ہے اب اس کی راہ روکنا مشکل ہے۔وہ نہ جغرافیائی سرحدیں دیکھے گا نہ سیاسی حد بندیاں۔ نہ اس پر پہرے بٹھائے جا سکیں گے اور نہ نا منظوریاں۔ اس کے ساتھ ہی علم کا سیلاب آئے گا، شعور اور ادراک کا انقلاب آئے گا اور وہ دن تو آنا طے ہے جب نئی نسل پرانی نسل کی بات تو سنے گی لیکن سوال بھی کرے گی، تفصیل مانگے گی،دلیل دے گی اور دلیل طلب کرے گی۔ بس اور دو ایک نسلوں کی بات ہے۔ جو اس کے لئے خود کو تیار نہیں کرے گا اس کا ٹھکانا حیرت کا موجیں مارتا ہوا سمندر ہوگا۔
ہماری زندگی میں داخل ہونے والی نئی اصطلاح اب ہر روز کی گفتگو میں سنی جانے لگی ہے اور وہ ہے سوشل میڈیا۔ انٹرنیٹ، فیس بُک، یوٹیوب، ٹوئٹر اور اس قماش کے درجنوں راستوں سے خیالات ہمارے دل و دماغ میں پنجے گاڑکر بیٹھ رہیں گے۔ہم بعض چیزوں سے نہ چاہتے ہوئے نفرت کرنے لگیں گے۔ کچھ باتوں کے ہم خاموشی سے طرف دار ہو جائیں گے۔ تشدّد کے منظر آئے دن نظر آنے لگے ہیں اور انہیں جی کڑا کر کے دیکھنا معمول بن گیا ہے۔ قتل عام کے منظر دیکھ کر پہلے پہل قے آتی تھی، اب نہیں آتی۔ اب قاتلوں کے بارے میں رائے شدید تر ہوتی جاتی ہے۔اس کے نتیجے میں کہیں کسی گوشے میں لاوا پک رہا ہے اور جس روز وہ لاوا پھٹ پڑے گا وہ سارے دھماکوں سے زیادہ قیامت خیز ہوگا۔یہی رائے عامّہ کا نقطۂ عروج ہوگا۔
بعض لوگ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی نے ٹوئٹر کو مجبور کیا ہے کہ وہ ہمارے عقیدے کے خلاف لکھی جانے والی باتوں کو ڈھانپ دے۔ کسی نے یوٹیوب کا گلا دبا دیا ہے اور اس بچے کی طرح خوش گمانی میں مبتلا ہے جو اپنی آنکھیں میچ کر سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کو نظر آنا بند ہو گیا ہے۔ یہ سب محض چونچلے ہیں۔ دنیا قلانچیں بھرتی کہیں کی کہیں نکلی چلی جارہی ہے اور سرکاری دفتروں میں فائلیں گھمانے والے افسر لوگ اپنی تیزیوں پر ناز کر رہے ہیں اور اپنی طرّاریوں پر اترا رہے ہیں۔ہم نے اسلامی ملکوں میں جاری حالیہ فساد میں دیکھا،لوگ اپنے موبائل فون سے دنیا بھر کے اخباروں اور ٹیلی وژن اسٹیشنوں کو حالات کی تازہ ترین اور متحرک تصویریں بھیجتے رہے۔ ایسے منظر ہم نے پہلے کب دیکھے تھے۔ اسی طرح ایک اور اصطلاح سٹیزن رپورٹنگ کی ہے۔ جہاں نامہ نگاروں کی پہنچ نہیں وہاں عام شہریوں سے ٹیلی فون پر تازہ صورت حال معلوم کی جاتی ہے۔سوات کی طالبہ ملالہ یوسف زئی اس کی تازہ مثال ہے۔
اب میں سناتا ہوں عوام کی رائے پر اثر انداز ہونے کی ایک نرالی تدبیر، جس کا ذکر میری کتاب ’ریل کہانی‘ میں بھی ہے۔ ہوا یہ کہ میں برصغیر میں بچھے ہوئے ریلوے کے نظام پر تحقیق کر رہا تھا۔ پتہ چلا کہ اُس سرزمین پر پہلا اسٹیم انجن اٹھارہ سو اکیاون میں اسی شہر روڑکی میں چلا تھا جہاں میں پیدا ہو ا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹامسن نام کے اس انجن کا بوائلرروڑکی کی مشہور انجینئرنگ یونیورسٹی کے عجائب گھر میں رکھا ہے۔ میں نے اپنا سفری تھیلا اٹھایا اور روڑکی جا پہنچا اور یونیورسٹی کی راہ داریوں میں ملنے والے لوگوں سے عجائب گھر کا پتہ پوچھا۔ ہر ایک نے حیرت سے کہا کہ یہاں تو کوئی عجائب گھر نہیں ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو عجائب گھر کی تلاش کیوں ہے۔ میں نے سبب بتایا تو کہنے لگے کہ آپ یوں کیجئے، آپ ورک شاپ کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر گپتا کے پاس چلے جائیے، انہیں ضرور معلوم ہوگا۔ میں ان کے دفتر پہنچ گیا وہ سامنے ہی بیٹھے تھے۔ ان کی سامنے فائلوں کا انبار لگا تھا اور ایک گھریلو ساخت کا ریڈیو جیسا آلہ رکھا تھا جس میں اونچا سا ایریل نکلا ہوا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے ٹامسن نام کے اسٹیم انجن کا بوائلر یہیں کہیں یونیورسٹی میں رکھا ہے۔ میں اسی کو دیکھنے آیا ہوں۔ میری بات سن کروہ بہت محظوظ ہوئے اور بولے کہ بالکل یہی بات پوچھتے ہوئے کتنے ہی گورے اور رنگ دار لوگ یہاں آچکے ہیں۔بات یہ ہے کہ وہ تاریخی انجن کہیں گُم ہوگیا ہے۔ میں مایوس ہو کر اپنی کرسی میں دھنس گیا۔ گپتا جی شاید اس منظر کا عادی تھا۔ انہوں نے ایک اور کہانی چھیڑ دی۔ کہنے لگے کہ ویسے تو میں انجینئر ہوں لیکن روحانیت پر بھی میرا ایمان ہے۔ میں لوگوں کے لاشعور میں اپنا روحانی پیغام اتار سکتا ہوں، ایسے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ کہنے لگے کہ میری میز پر چھوٹا سا نشریاتی آلہ رکھا ہے۔ میں اس کے ذریعے علاقے کے تمام ووٹروں کو یہ روحانی پیغام بھیج رہا ہوں کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دیں۔ ووٹر یہ پیغام سن نہیں سکیں گے لیکن پیغام ان کی روح میں اتر جائے گا پھر اگر اس علاقے میں بی جے پی کا امیدوار جیت گیا تو میں سمجھ جاؤں گا کہ میرا ٹرانسمیٹر اپنا کام کر رہا ہے۔یہ سب سن کر میں واپس چلا آیا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ بی جے پی کا امیدوار جیت گیا۔
سچ ہے، رائے عامّہ پر اثرانداز ہونے کے سو ڈھنگ ہیں اور سارے کے سارے نرالے۔
تازہ ترین