• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زبیدہ آپا، ایک مدت سے ہم سب کو ٹوٹکے سکھاتی رہیں مثلاً تھوڑی سی پی ٹی آئی میں جماعت اسلامی ملا لو تو کے پی کی حکومت بن سکتی ہے یا پھر سب کی بات سنو مگر سندھ کی گورنر شپ سے متحدہ کی منتخب شخصیت کو مت نکالو۔ بارہ مصالحے کی چاٹ تیار ہو سکتی ہے۔ پھر زبیدہ آپا کو ٹوٹکے سکھاتے ہوئے، طبیعت کنگ پڑ گئی چونکہ تعلق حیدرآباد دکن سے تھا، اس لئے شروع کیا بھگارے بیگن سے پھر تو رواں ہو گئیں ہر قسم کے کھانے پکانے میں۔ لوگ ان کی ساڑھیاں اور چوڑیاں دیکھتے تھے۔ وہ مزے مزے سے سالن بناتی تھیں۔ اب پھر ان کی سیلانی طبیعت نے ریسٹورنٹ بھی بند کرکے، جی چاہا کہ رنگ گورا کرنے والی کریم بنائی جائے، ہمارے ملک میں گورا ہونے کا خبط بہت ہے کیوں اس نفسیاتی بیماری کا علاج رنگ گورا کرنے والی کریم بنا کر، مال بنایا جائے، ویسے بھی ہر چند ماہرین جلد منع کرتے ہیں کہ اس طرح کی کریموں کے استعمال سے الٹا اثر ہوتا ہے مگر جوانی دیوانی ہوتی ہے کچھ نہ ہو تو کم از کم پچاس فی صد بچیاں تو اس دھوکے میں آہی جاتی ہیں۔ آپ شہر سے باہر نکلیں قدم قدم پر آپ کو کریموں کے نت نئے نام ملیں گے۔ اسی طرح بناسپتی گھی کے نام ملیں گے، یہ الگ بات ہے کہ اگرآپ ان کے بنانے کا کوئی طریقہ ٹی وی پر دیکھ لیں تو ساری عمر کے لئے ان چیزوں کے استعمال سے توبہ کر لیں گی مگر کچھ دن تو چار دن کی چاندنی ہو ہی جائے گی۔ مزہ بہت آرہا ہے کہ خاندان میں کریم بنانے والی بھی پیدا ہو گئیں کہ پہلے ڈریس ڈیزائننگ کرنے والی، شعر کہنے والی اور بھائی ڈرامے لکھنے والا تھا تو یہ ہنر بھی چل گیا۔ بجیا تو خیر اپنی ہیں۔ پڑھنے لکھنے کی بات آئی ہے تو میرے سامنے عابد میر کی کتاب ہے کمال بات یہ ہے کہ معروف زمانہ، ترقی پسند مدیر، ڈاکٹر اور سوشل ورکر ڈاکٹر شاہ محمد مری جو کہ کوئٹہ میں بطور پتیھالوجسٹ بھی کام کرتے ہیں نئی نسل کو گزشتہ 25 برس سے مارکسزم پر کتابیں پڑھنے، سید سبط حسن کی کتابوں پر غور و خوض کرنے اور علم دوسروں تک پہنچانے کے گرو بنے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری بولتے بھی ایسے ہیں کہ بلوچ زخمی دل، سب کچھ کہہ جاتا ہے لوگ بغلیں جھانکتے رہتے ہیں، دل ہی دل میں شرمندہ ہوتے ہیں مگر اس سچ کو جھٹلا نہیں سکتے ہیں جو ڈاکٹر مری کی زبان یا قلم سے نکلتا ہے۔ اس مرتب کتاب کا کمال یہ ہے کہ پاکستان کے ہر خطے کے دانشور کے خیالات بلوچ سماج اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کی خدمات کے معترف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ رسالہ سنگت بھی پندرہ سال سے باقاعدگی کے ساتھ نکال رہے ہیں سنگت میں بھی بلوچی زبان کے مضامین/ افسانے اور نظمیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ہر دفعہ کسی اردو زبان کے شاعر یا ادیب پر، خود ڈاکٹر صاحب کا مضمون بھی شامل ہوتا ہے۔
عمر میں مجھ سے کم چھوٹے ڈاکٹر خورشید رضوی بھی ہیں عربی میں وہ اتنے ماہر ہیں کہ چھٹی کلاس سے ماسٹرز تک اور پھر ڈاکٹریٹ بھی اسی زبان میں قبل از اسلام عربی ادب پر تحقیق کرکے حاصل کیا۔ پہلے وہ سرگودھا میں پڑھاتے رہے بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں سکہ جمایا۔ مجھے بہت شوق تھا امرائوالقیس کی شاعری پڑھنے کا۔ باقاعدہ تحقیق اور ترجمہ مکمل طور پر دستیاب نہیں تھا۔ جب ڈاکٹر رضوی کی ضخیم کتاب پڑھی تو خاص طور پر شاعری کے صفحے موڑتی چلی گئی۔ پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکھا۔ کتاب کو جب دوبارہ صرف شاعری ہی پڑھنے کے لئے دیکھا تو کم از کم ڈیڑھ سو صفحوں پر یہ شاعری رقم تھی۔ امرائوالقیس کا زمانہ ہجرت سے کوئی سو برس قبل کا ہے بقول ڈاکٹر خورشید رضوی امرائوالقیس کی شخصیت آوارہ مزاجی، آوارہ خرامی، لذائذ جسمانی اور لہو و لعب کے پہلو بہ پہلو مضبوط قوت ارادی سخت کوشی، سخت جانی، تحرک اور جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ اس کی زندگی کا نصف اول جس قدر رنگینیوں میں گزرا، نصف ثانی، اسی قدر سنگینیوں میں بسر ہوا۔ اس کی در بدری نے اس کے تجربے کی وسعت اور تخیل کی پنہائی میں اضافہ کیا۔ مثلاً ’’گویا کہ پرانی شراب/ اور بادلوں کا مقطر/ اور خرامی کی مہک/ اور عود کی خوشبو۔ صبح دم جب مرغ سحر خیز عالم سر خوشی میں نوا پیرا ہو۔ محبوبہ کے خنک لعاب دہن میں پے بہ پے گھل رہے ہوں۔ ایک اور جگہ لکھتا ہے۔
’’وادیٔ ہوا کے /خوش صغیر پرندے/ صبح سویرے/ یوں چہچہا رہے تھے/جیسے انہیں مرچ کی آمیزش والی/ تیز و تند صبوحی پلا دی گئی ہو‘‘۔
’’جب اس نے آواز نکالی/ تو میں نے اس سے کہا/ اگر تو فراخ دست نہ ہو سکا تو غم نہ کر/ تہی دستی میں ہم دونوں کا حال ایک ہی جیسا ہے‘‘۔
امرائوالقیس انقرہ ہی میں دفن ہوا۔ ایک روایت کے مطابق جب قیصر کو اس کی موت کا علم ہوا تو اس نے اس کا مجسمہ تراش کر، اس کی قبر پر نصب کرنے کا حکم دیا اور یہ مجسمہ مامون کے عہد تک موجود تھا۔
قبل از اسلام شاعری کی طرح، جاپان میں بھی پرانی شاعری ہائیکو کہلاتی تھی۔ جیسے جیسے جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد، تعلقات مغربی اور مشرقی ممالک سے بڑھانے شروع کئے ہائیکو ہر چند رہی تین مصرعوں کی نظم مگر اس میں موضوع کی ہمہ گیری آنی شروع ہوئی۔ ہمارے ملک کے مقتدر شاعر امین راحت چغتائی نے یہ تجربات اس بنا پر بھی کئے ہیں کہ انہوں نے جاپانی سفارت خانے کے آغاز سے لیکر ستائیں برس تک، جاپانیوں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی تہذیب و معاشرت کو سمجھا اور کہا:۔
ہر سو مہکے پھول
باغ کی پگڈنڈی پر ہیں
کچھ بچے بے چین
خوشبو بے بس ہے
بہکا بہکا پھرتا تھا
آہو جنگل میں
سین ریو نظمیں بھی چغتائی صاحب نے لکھی ہیں۔ یہ طرز بھی سترہویں صدی میں پروان چڑھی۔ یہ گویا مزاح کا عکس ہے وہ شاعر ہے، جس کو پڑھ کر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے:۔
اماں نے ڈانٹا
آنگن میں پھسلن بھی دیکھ
آنچل پھر ڈھلکا
تازہ ترین