• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ا ٓرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کی ہرصورت میں تکمیل کے عزم کا اعادہ جہاں قوم کی اجتماعی خواہش کا آئینہ دار ہے وہاں ان علاقائی قوتوں کیلئےایک انتباہ بھی ہے جو پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور اس خطے کے بہتر مستقبل کیلئے بروئے کار لائے جانے والے اس منصوبے کی بلا جواز مخالفت کر رہی ہیں۔ جمعرات کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے 89ویں یوم تاسیس کے موقع پر اسلام آباد میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کے عوام سمیت خطے کے تمام لوگوں کے حالات زندگی بدلنے کیلئے ایک گیم چینجر ہے جس کی حفاظت ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ اسے بروقت مکمل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اس منصوبے کے ذریعے پاک چین شراکت داری کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ ہر آزمائش میں پوری اترنے والی پاک چین دوستی کی علامت ہے۔ اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے انہوں نے چینی فوج کو دنیا کی بہترین عسکری قوت قرار دیا اور کہاکہ پاکستان اورچین کی مسلح افواج کے تعلقات کثیرالطرفہ دوستی کا سنگ میل ہیں انہوں نے چین کے ساتھ مل کر امن و ترقی کیلئے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا اور کہاکہ پاکستان اور چین کی منزل ایک ہے۔ دونوں مل کر خطے میں امن و استحکام کیلئے کام کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب جاری رکھنے کا اعلان کرتے انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردوں، مجرموں اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑ دیں گے، آرمی چیف نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ پاکستان کے عوام کی سوچ کے عین مطابق ہیں۔ 46ارب ڈالر سے زائد رقم کی لاگت سے زیر تکمیل اس منصوبے پر عملدرآمد کا مطلب گوادر سے چینی صوبے سنکیانگ تک ہائی ویز اور ریلوے ٹریک سمیت وسیع انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور اپ گریڈیشن ہو گا جس سے پاکستان کے طول و عرض میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھانے میں مدد ملے گی تقریباً سات لاکھ لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی کے اضافے سے توانائی کے بحران پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح میں ڈھائی فیصد تک اضافہ ہوگا۔ سی پیک کے منصوبے کو 2014 میں وزیراعظم نواز شریف اور چینی وزیراعظم لی چیانگ کی ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اب اس کے مختلف روٹس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے، یہ منصوبہ چینی سرحد سے بحیرہ عرب میں پاکستان کے گہرے سمندرتک تجارتی رسائی کا ذریعہ بنے گا جس سے وسط ایشیا کے ملکوں سمیت خطے کے تمام ممالک فائدہ اٹھا سکیں گے ان میں بھارت بھی شامل ہے مگر علاقے پر بالادستی کے جنون میں پاکستان اور چین کے سٹرٹیجک تعلقات سے خوفزدہ ہو کر وہ سی پیک منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے اور درپردہ اسے امریکہ کی بھی آشیرباد حاصل ہے۔ اس لئے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آگے چل کر سبوتاژ کی کارروائیوں کے ذریعے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اسی لئے آرمی چیف نے اس کی حفاظت کو قومی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ مسلح افواج تو پہلے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں اور وہ سی پیک منصوبے کے تحفظ کے عزم پر قائم ہیں لیکن قوم کو بھی اس معاملے میں ہوشیار اور چوکس رہنا ہوگا اس منصوبے کے ثمرات پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام تک پہنچنے والے ہیں اس کے مختلف روٹس پر صنعتی زونز قائم ہوں گے سرمایہ کاری بڑھے گی تعمیر و ترقی کے نئے باب کھلیں گے۔ لوگوں کو روزگار ملے گا اور ملک میں خوشحالی آئے گی جو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو پسند نہیں۔ وہ ضرور رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہو یا فوج، سیاستدان ہوں یا عوام، سب مل کر سی پیک کی کامیابی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور آنے والے اقتصادی انقلاب کا راستہ روکنے کی ہر سازش مل کر ناکام بنادیں۔
تازہ ترین