• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا کر دل لگی سے ہم بھی باز نہیں آتے، کہ چلیں اور کچھ نہیں تو مولانا ہی خوش رہیں۔ اس سے بڑھ کر ہمارے پاس کوئی کشمیر پالیسی نہیں ، کم از کم ایسی کوئی پالیسی نہیں جس سے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو کوئی فائدہ پہنچے۔ اس وقت تک کشمیر کے باشندے دنیا کو دوٹوک انداز میں بتا چکے ہیں کہ بھارتی تسلط اُن کے لئے کس قدر سوہا ن ِروح ہے ۔ کشمیری بھارت کا حصہ نہیں بننا چاہتے، انہیں بھارتی جمہوریت میں اپنے لئے کچھ دکھائی نہیں دیتا، نیز اس وقت کشمیر میں جو نظام جاری ہے ، اُسے کسی طور پر جمہوریت نہیں کہا جاسکتا ۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیریوں کی قوم پرستی ، جس نے سب سے پہلے ڈوگرہ راج کے سامنے سراٹھایا، نے مسلم لیگ کی بجائے کانگریس کی حمایت کی تھی۔ تاہم یہ کشمیر میں بھارت کی ناکامی کا منہ بولتا اظہار ہے کہ کبھی وہاں بھارت نواز سوچ تھی لیکن اب وہاں اس کے لئے نفرت انگیز جذبات پائے جاتے ہیں۔
اس صورت میں پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ؟جب بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات خراب ہوتے ہیں، جو کہ اکثر ہوتے رہتے ہیں، تو ہم وہ روایتی ، گھسا پٹاموقف اپنا لیتے ہیں جس کا بھارت پر مطلق اثر نہیں ہوتا۔ جب طوفان تھم جاتا ہے تو ہم بھی اپنے بینر لپیٹ کر رکھ لیتے ہیں۔ اگلی مرتبہ جب پھر مقبوضہ وادی متلاطم ہوتی ہے، ہم پھر پرچم اورآستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ کشمیر میں 1989 کی شورش کے بعد انتہا پسندوں کو آزمایا گیا جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ناک میں دم کردیا۔ جماعت الدعوۃ، جیش ِ محمد ، حزب المجاہدین، وغیرہ بھارتی فورسز کو پریشان رکھتی تھیں، لیکن ان کی کارروائیوں نے بھارتی فورسز کو شہریوں پر بدترین ظلم و جبر ڈھانے کا جواز فراہم کردیا۔ اُنھوں نے کشمیری مسلمانوں کا قتل، خواتین کی آبروریزی اور قیدو بند کومعمول بنالیا۔ اس کے علاوہ اُن جہادی تنظیموں کی کاررروائی کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کشمیر آج بھی آزادی سے اتناہی دور ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔ یادرہے ، یہ جہادی تنظیمیں کبھی بھی ویت کانگ نہیں تھیں اور نہ ہی پاکستان ہوشی من تھا۔ اگر ہم 1989 کی شورش کا تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا جب پاکستان نے اسے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، اس تحریک کا ناکام ہونا ٹھہر گیاتھا۔ جب بھی ہماری ایجنسیوں نے ایسی کلاکاری دکھانے کی کوشش، چاہے کہ کشمیر میں ہو یا افغانستان میں، ناکامی کو اپنا منتظر پایا۔
کشمیر میں تشدد کی موجودہ لہر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ابھری، اس مرتبہ کوئی بیرونی عوامل کارفرما نہیں۔ بھارت کے لئے اسے دبانا مشکل ہورہا ہے ۔ تاہم اگر ہم نے باہر سے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو پھر اسے ناکامی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ انقلابیوں اور جہادیوں کو بہتر ہے کہ اُن کے حال پرچھوڑ دیا جائے ۔ کشمیریوں کے حوالے سے ہم پر اخلاقی ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے ۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات چاہے اچھے ہوں یا برے، ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے ۔ تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پرانے طریقے لاحاصل ہیں، اب کسی نئے خیال کو جگہ دینی چاہئے۔یہ درست ہے کہ کشمیر کے باشندے بھارت سے نفرت کرتے ہیں لیکن وہ پاکستان کے بھی عاشق نہیں ہیں۔ وہ پاکستان کی کسی افتادہ پالیسی کی خاطر بھارتی گولیوں کا سامنا نہیں کررہے ہیں،وہ اپنی قسمت کی ڈور اپنے ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اقوام ِ متحدہ نے استصواب ِ رائے کے لئے ایک قرارداد ضرور منظور کی تھی تاکہ یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یاانڈیا کے ساتھ۔ تاہم آج کشمیریوں کے جذبات ان قراردادوںسے کہیں آگے بڑھ چکے ۔ کیا پاکستان، اس کی اسٹیبلشمنٹ،اس حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہے ؟کیا ہم کشمیریوں کے جذبات کالحاظ کرتے ہیں ، یا پھر ہمارے جنرل او ر سفارت کار ماضی کے تصورات سے رہائی نہیں چاہتے؟ کیا اُن کے ذہن تازہ سوچ سے الرجک تو نہیں؟ جب ہمارے رہنما کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا تو ہم ایک حوالے سے کشمیریوں کی رائے کی توہین کررہے ہوتے ہیں کیونکہ کشمیری نوجوان پاکستان کے ساتھ ملنے کے لئے بھارتی فورسز کے سامنے سربکف نہیں ہیں۔
اس وقت پاکستان کے رہنمائوں، جو خود بھی مشکلات میں گھرے بمشکل ہی اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے قابل ہیں، کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کہ پاکستان کشمیر پر اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرتا ہے، چنانچہ اگر کشمیری اپنی راہیں دونوں ممالک سے الگ کرنا چاہیں تو پاکستان اُن کے فیصلے کا احترام کرے گا، چاہے اس کا مطلب آزاد کشمیر سے دستبردار ہونا ہی کیوں نہ ہو۔ذرا تصور کریں کہ اس اعلان کا کیا اثر ہوگا؟ کشمیریوں کی جدوجہد میں والہانہ جوش پیدا ہوجائے گا۔ اُن کے جسم و جان میں نئی روح پھونکی ہوئی محسوس ہوگی۔ انڈیا اُس جذبے کا سامنا نہیں کرپائے گا۔ یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اگر بھارتی جمہوریت کا جادو اور سیکولرازم کی کشش گزشتہ چھ عشروں سے اُن کے دل نہیں جیت پائی تو وہ اب بھی نہیں جیت پائی گی۔ انڈیا نے کشمیر پر زبردستی حکومت کی ۔ اس کے پاس صرف ایک ہی آپشن تھا کہ وہ کشمیریوں کو تنہائی سے دوچار کردیتا ، سو اس نے کرکے دیکھ لیا۔ یہ بحیرہ ہند میں مزید جنگی جہاز بھیج سکتا ہے، خلا میں مصنوعی سیارے روانہ کرسکتا ہے ،اس کے سائنسدان اپنی برتری کا دعویٰ کرسکتے ہیں، لیکن اس سے کشمیر کی صورت ِحال تبدیل نہیں ہوگی، یہ آتش فشاں سلگتا رہے گا۔ اس وقت صرف بھارتی جمہوریت ہی نہیں، انڈین تہذیب بھی کشمیر میں ایک بندگلی میں داخل ہوچکی ہے ۔ طاقت سے کشمیریوں کے ارادوں کو شکست نہیں دی جاسکی ، اور وہ جبر کے سامنے ہتھیارڈالنے سے انکار کرچکے ۔
لوک داستانوں اور افسانوں میں کشمیریوں کو کمزوراور کم ہمت افراد کہا جاتا تھا لیکن اُن کے جلتے جذبوں نے نیم جاں پہاڑوں کو بھی فروزاں کردیا ہے ۔ اس وقت سب کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی۔ اس نئے دور میں پرانے انداز بدلے جاچکے ، سیاست گری خوار ہوچکی، ہمالہ کے چشمے ابلنے کا وقت قریب آگیا۔ اس دوران کرنے کے اہم کام اپنی جگہ موجود ہیں۔ ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ پاکستان خرابیوں کی آماجگاہ بنا رہے اور کشمیری باشندے اسے دیکھ کر اپنا جوش و جذبہ جوان رکھیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنا گھر درست کرنا ہوگا۔ ہمارے رہنما، چاہے وہ سویلین یا فوجی، اپنے جانشینوں کو آتے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں اُنہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر پر ہمارا موقف اُس وقت تقویت پائے گا جب ہم آزاد کشمیر کو حقیقی آزادی دیںگے ۔ ہم کشمیر کی آزادی کی بات کس طرح کرسکتے ہیں جب آزاد کشمیر پاکستان کی ڈور سے بندھا ہوا ہو؟ کیا آزاد کشمیر کے امور کشمیریوں کو اپنی مرضی سے چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے؟کیا ضروری ہے کہ ہم اُن پر کشمیر کونسل یا وزیر برائے امور کشمیر مسلط رکھیں؟آزاد کشمیر کے لئے بنیادی قانون ابھی تک وہی ’’عارضی قانون‘‘ ہے جو 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ کشمیر کونسل اور دیگر حماقتیں اسی قانون سے جلا پاتی ہیں۔ کیا آزاد کشمیر کو مستقل آئین نہیں ملنا چاہئے ۔
ہمیں کشمیرکے دونوں حصوں کی آئینی پوزیشن کا بھی احترام کرنا چاہئے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر اُس کے آئین میں ’’خصوصی درجہ‘‘ رکھتا ہے۔ دوسری طرف آزاد کشمیر آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں، الگ ریاست ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ افسانوی بات لگے لیکن پاکستان اور کشمیری عوام کے مفاد میں یہی ہے کہ آزاد کشمیر کو ترقی کا ایک نادر نمونہ بنا دیا جائے ۔ اسے مری میں بیٹھے سرکاری افسران کے ذریعے کنٹرول کرنے سے گریز کیا جائے ۔ پاکستان کو آزاد کشمیر کے شہریوں پر اعتماد کرنا سیکھنا چاہئے ۔ حالیہ انتخابات میں ایک تجربہ کار اور آزمودہ رہنما، راجہ فاروق حیدر سامنے آئے ہیں۔ یہ ترقی کا ایک نیا دور شروع کرنے اور آزاد کشمیر اسمبلی کو تقویت دینے کا ایک اچھا موقع ہے ۔ دنیا کو کشمیری عوام کی طرف سے مخاطب ہونے کا حق آزاد کشمیر کے وزیر ِاعظم کا ہونا چاہئے ۔ یقینا دنیا اُن کی بات زیادہ توجہ سے سنے گی۔


.
تازہ ترین