• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کے بعد جنرل اشفاق کیانی آرمی چیف بنے تو مشرف اپنے منصب پر طویل عرصہ گزار کر ناپسندیدہ ہوچکے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم یہ دعویٰ کرتے رہیں کہ آئین اور قانون کی بحالی کے لئے تحریک اور پاکستانیوں کی جمہوریت کے لئے ابھرنے والی شدید خواہش تھی جس نے مشرف کو چلتا کیا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ مقتدر ادارے کے اندر بھی یہ سوچ پیدا ہوچکی تھی کہ مشرف کا اتنی دیر تک ٹھہرنا ایک بوجھ بن چکا ہے، چنانچہ اب اُن کا جانا ہی بہتر۔
ہوسکتا ہے بہت سے افراد بھول چکے ہوں کہ جب جنرل کیانی نے منصب سنبھالا تو ہم نے کس وارفتگی سے اُنہیں خوش آمدید کہا۔ مت بھولیں، 2009-10 میں وہ بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک، ایک دیومالائی کردار تصور ہوتے تھے ۔ اُنھوں نے فوج کی کمان اُس وقت سنبھالی تھی جب مقتدر ادارے کی عوامی مقبولیت جنرل ضیا کے دور کے بعدسے سب سے کم درجے پر تھی۔ ملک مشرف کے طویل دور سے اکتا چکا تھا۔ جنرل کیانی نے کمان سنبھالتے ہی ایسے عمدہ فیصلے کیے جن سے فوج کے غیر سیاسی ہونے کا عمل شروع ہوگیا۔ 2008 کے انتخابات میں جنرل کیانی کا کردار منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھا۔ اُنھوں نے سویلین عہدوںسے فوجی افسران کو واپس بلایااور فوج کی ترجیحات کا رخ خالصتاً عسکری امور کی موڑ دیا۔اس دوران ہم نے اپنی فطرت ِ ثانیہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُنہیں غیر معمولی القاب سے نوازناشروع کردیا۔ ہم نے اُنہیں’جنرلوں کا جنرل‘اور ’فہم و فراست رکھنے والا جنرل‘قرار دیا۔ کہا گیا کہ وہ بے داغ کردار کے مالک، ہر کام درست طریقے سے کرنے والے ، مطالعہ کے بے حد شائق، بہت کم سونے اور رات کو گہرے تفکر میں ڈوب کر حالات پر غور کرنے والے انسان ہیں۔ بے شک یہ جنرل کیانی ہی تھے جنہوں نے مشرف دور میں فوج کے گرتے ہوئے مورال کو سہار ا دیا، عوامی حمایت حاصل کی ، فاٹا میں فوجیوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر عید مناکر قوم کو خوش کردیا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف’ آپریشن راہ نجات‘ میں کامیابی حاصل کی ۔
اور پھر آن پہنچا نومبر 2010، جب جنرل کیانی نے شیڈول کے مطابق آرمی چیف کے عہدے کوخیر باد کہنا تھا، لیکن اُنھوں نے توسیع کا آپشن قبول کیا۔ اُ س وقت تک اُن سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی۔ فوج اُن سے محبت کرتی تھی، اور اُنھوں نے آئین کا احترام کرتے ہوئے معذول جج صاحبا ن کو بحال کرانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ اس دوران اپنے کسی سیاسی عزائم کا اظہار نہ کیا۔ ان خوبیوں کی بنا پرسویلین بھی اُنہیں پسند کرتے تھے ۔اُنھوں نے نیشنل سیکورٹی کو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے روک دیا، اور اُن کے ساتھ دودوہاتھ کرنے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بنا پر امریکی بھی اُنہیں پسند کرتے تھے ۔
تاہم نومبر 2010 میں اُنھوں نے جیسے ہی شجر ِ ممنوعہ چکھا(مدت ِ ملازمت میں توسیع) تو یہ تمام منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔اگر وہ توسیع لئے بغیر رخصت ہوجاتے تو اُن کی کتنی سنہری یادیں باقی رہتیں۔ 2010 تک ابھی بن لادن ایبٹ آباد سے برآمد نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی سلالہ چیک پوسٹ پر 24 پاکستانی فوجی ہلا ک ہوئے تھے۔ کسی کو پراپرٹی کاروبار میں ملوث اُن کے بھائیوں کا علم تک نہ تھا۔ پہلے دور میں ایسا لگتا تھا کہ اُن کے ہاتھ میں پارس کا پتھر ہے ، جو جس چیز کو ہاتھ لگاتے ، سنہری ہوجاتی ، جو قدم بڑھاتے کامیابی ملتی، لیکن دوسرے دور میں یوں لگا جیسے قسمت کی دیوی روٹھ گئی ہو۔ پہلی مدت میں اُنہیں جی بھرکر پذیرائی ملی لیکن دوسرے دور میں وہ مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دئیے ۔ وہ وضاحت کرنا چاہتے ہیںکہ اُنھوں نے ملازمت میں توسیع کیوں قبول کی تھی، حالانکہ وہ کہہ چکے تھے کہ اُن کے ہیرو جنرل کاکڑ ہیں جو خاموشی سےگھر چلے گئےتھے ۔وضاحت کا بوجھ شانوں پر اٹھائے اُن سے عسکری امور پر فیصلہ سازی میں ہچکچاہٹ دکھائی دینے لگی۔ چنانچہ اُنھوں نے فاٹا میں تحریک ِطالبان پاکستان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے یاشمالی وزیرستان میں آپرپشن کرنے سے گریز کیا۔ اس گریز کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس کا پورے پاکستان میں رد ِعمل اتنا شدید ہوگا کہ سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ اُن کے دل میں یہ سوچ بھی جاگزیں تھی کہ آپریشن کی صورت میں قوم یہ سمجھے گی کہ وہ امریکی دبائو ’’ڈومور‘‘ کے تحت ایسا کررہے ہیں۔
آج ایک تاثر ہے کہ فوج جنرل مشرف کو تو پسند کرتی ہے لیکن جنرل کیانی کو نہیں، حالانکہ جنرل مشرف نے پاکستان کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا، پاکستان کو امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں جھونک دیا، پاکستان کے بیس امریکیوں کے حوالے کیے ، قانونی عمل مکمل کیے بغیر پاکستانی شہریوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر، اُنھوں نے انڈیا کو کشمیر پر ایک غیر روایتی حل کی پیش کش کی، ایسا حل جس کا موجودہ فوج نام بھی سننا پسند نہیں کرتی۔ اس کے باوجود فوج اُنہیں پسند کرتی ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ بات یہ ہے کہ اگرچہ پرویز مشرف نے سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا لیکن اُنھوں نے سویلینز کی طرف سے پیش کردہ توسیع قبول نہیں کی۔ لہذا فوج کی نگاہ میں وہ ایک قابل ِ احترام سپاہی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج نے اُنہیں غداری کے مقدمے سے بچانے کی پوری کوشش کی ۔ تاہم آپ کسی فوجی کے منہ سے جنرل کیانی کے بارے میں کوئی ستائشی لفظ نہیں سنیں گے۔ اُن پر دو داغ ہیں، جن سے وہ پیچھا نہیں چھڑاسکتے۔ ایک یہ کہ جب اُنھوں نے توسیع قبول کی تو اُن کی پیشہ ور اتھارٹی کو دھچکا پہنچا ، اور دوسرے ، بھائیوں پر لگنے والے الزامات نے اُن کی اخلاقی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
جنرل راحیل شریف کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ اُن کی پاکستان پر حملہ آور دہشت گردوں کے حوالے سے واضح سوچ اور دوٹوک حکمت ِعملی ہے ( اس وقت ’’تھنک یو راحیل شریف‘‘ مہم ظاہر کرتی ہے کہ اُنہیں کسی طور ریٹائر نہیں ہونا چاہئے )۔ اس مہم کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ہیروز کو دیوتا بنا کر پوجتا ہے لیکن کچھ دیر بعد اپنے ہاتھوںتراشے ہوئے معبد کا خود ہی بت شکن بن جاتا ہے ۔ اس کی ایک اور وضاحت ہمارے ہاں راسخ ہوجانے والا خوشامد ی کلچر بھی ہے۔ ہر کوئی خود کو دوسروںسے بڑھ کر شاہ کا وفادار ثابت کرنا چاہتا ہے ۔ خیر آج تو عوام کو شاید یہ یاد دلانا بھی گناہ ِ کبیر ہ کے زمرے میں آتا ہے کہ جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے تو ایک سوچ پائی جاتی تھی کہ اُن کے کچھ سینئر اس عہدے کے زیادہ حقدار تھے ، نیز وہ اس ادارے کو زیادہ بہتر انداز میں چلانے کے اہل تھے ، اور پھر اُن کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار بھی بہت اہم تھا۔ اگر عوام کا حافظہ ساتھ دے تو یاد دلاتا چلوں کہ 2013 ء میں جنرل راحیل شریف کو نواز شریف حکومت کی ایک ’’محفوظ چوائس ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ آج رائے عامہ یہ ہے کہ اُن سے بہتر آرمی جنرل نے نیلے آسمان تلے آنکھ ہی نہیں کھولی، نیز یہ کہ کوئی اور جنرل پاکستان کو تباہی کی اُس گھاٹی میں گرنے سے نہیں بچاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’’ناگزیر ‘‘ ہیں۔
ناگزیر تو پہلے بھی بہت سے افراد کو قرار دیا گیا ۔ یہاں جنرل راحیل شریف کی حاصل کردہ کامیابیوں سے انکار مقصود نہیں ، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ جو کچھ اُنھوں نے بطور آرمی چیف کیا، وہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی۔ اُن کی سب سے اہم کامیابی یہ سیکورٹی ڈاکٹرائن ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج پر بہت زیادہ سوچ بچار اور تجزیے کرنے کی ضرورت نہیں۔ مزید یہ کہ دہشت گردوںسے پاکستانی ریاست کی عملداری واپس لینے پر کسی طور پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ان سے لڑیں گے ، جو بھی نتائج نکلیں، ہم اُن کا سامنا کریں گے ۔ اُن کی سب سے بڑی طاقت یہی واضح سوچ ہے ۔ اُنھوں نے کسی’’ تقریب ِ رونمائی‘‘ کے بغیرآپریشن ضرب ِ عضب شروع کردیا۔ اے پی ایس حملے کے بعد اُنھوں نے پورے ملک میں ہر قسم کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا خود پر فرض کرلیا۔ اس دوران اُنھوں نے مبینہ رد عمل کی کسی تھیوری کو دماغ میں جگہ نہ دی۔ اُنھوں نے بہت دانائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بہتر فیصلہ کیا کہ اُنہیں کہاں ہونا ہے اور کیا کہنا ہے ۔ یہ سب کچھ فوجی دستوں اور قوم کے مورال کو بلند کرنے کے لئے ضروری تھا، اور اسی نے اُن کا امیج بلندکیا۔ قوم نے مسرت آمیز حیرت کے ساتھ جنرل راحیل شریف کو فوجی افسروں کا احتساب بھی کرتے دیکھا۔
مختصر یہ کہ جنرل راحیل شریف نے بطور ایک پیشہ ور سپاہی تمام امور بہترین انداز میں سرانجام دئیے ۔ یہاں پھر دہراتا ہوں کہ یہ کوئی افسانوی بات نہیں تھی، آرمی چیف کا منصب اسی کارکردگی کا متقاضی ہوتا ہے ۔ ہم اُن کے شکرگزار ہیں کہ اُنھوں نے بہترین طریقے سے ملک کی خدمت کی ، لیکن اس دوران ہم اس شک میں کیوں مبتلا ہوگئے ہیں کہ آنے والے نئے آرمی چیف ان خدمات کی انجام دہی کے اہل نہ ہوںگے؟تمام سینئر افسران کی تربیت ان میں یہی خواص پیدا کرتی ہے ، جبھی تو وہ کمان سنبھالتے ہیں۔ اگراس تمام معاملے میں شریف حکومت کے لئے کچھ سبق ہے تو یہ کہ چاہے توکتنی ہی ’’احتیاط‘‘ سے نئے آرمی چیف کا انتخاب کرتی ہے، وہ فوج کے مقابلے پر کسی اور ادارے یا فرد کے ساتھ وابستگی نہیں رکھے گا۔



.
تازہ ترین