• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کی ناکام فوجی مشق کا تذکرہ ہماری سیاسی اشرافیہ خوب کررہی ہے۔ دوسری طرف حکمران ترکی کی قیادت کو بھائی چارے اور مزید دوستی کی نوید بھی دے رہےہیں۔ ترکی میں جو کچھ ہوا وہ اگرچہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ جمہور کا ردعمل جو ترکی کے چند علاقوں میں نظر آیا، وہ حیران کن ضرور ہے۔ ترک افواج کے چند لوگ ایسا کیوں کررہے تھے؟اس سوال کا جواب فریقین میں سے کوئی بھی دینے کو تیار نہیں۔ ترکی اور پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا ردعمل ایک سا ہی نظر آتا ہے۔ دونوں ملکوں میں جمہوریت کا پرچار کرنے والے لوگ جمہوری اقدار پر قدغن لگانے میں کسی قدر پیش پیش نظر آتے ہیں۔
ترک حکمرانوں کا خیال ہے کہ باغی ا فراد کی جستجو ختم نہیں ہوئی۔ تبدیلی اور انقلاب کی گنجائش نظر آتی ہے۔ ترکی کے اس حالیہ بحران میں سب سے زیادہ متاثر وہاں کے تعلیمی ادارے نظر آرہے ہیں۔بظاہر تو ان پر ایک ہی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے جمہوری اقدار کی نفی کی، جس ملک کی98فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہو اور آزادی رائے کا حق ان پر جرم بن جائے تو یہ جمہوریت کی ناکامی ہی کہلائے گی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ہاں بھی نظر آرہا ہے۔
ہمارے ہاں عوام کرپشن ، لوٹ مار، وی آئی پی کلچر کے حوالہ سے تبدیلی اور انقلاب کے خواہش مند نظر آتے ہیں مگر صاحبان اختیار عوام کی اس سوچ پر توجہ تک دینے کو تیار نہیں۔ایک طرف سرکار ہے جو اس و قت کسی قانون اور اصول کو اہمیت دیتی نظر نہیں آتی۔ ان کی خوش قسمتی اور مؤثر منصوبہ بندی کی وجہ سے اسمبلی میں ان کو مکمل اختیار حاصل ہے۔ حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ کو بھی ان کی نیاز مندی حاصل ہے۔ ان کی پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول زرداری پاناما لیکس کے حوالہ سے میاں نواز شریف کے خاندان کو بخشنے پر تیار نہیں۔ دوسری طرف ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری اپنے مشیر خاص سینیٹر رحمان ملک کے ذریعے سرکار وقت سے سندھ کی سیاست کے بارے میں سودے بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کا وجود صرف صوبہ سندھ میں نظر آتا ہے۔ سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم بیک وقت مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے حالت جنگ میں ہے۔ ان کی پارٹی میں اندرون خانہ بھی جنگی کیفیت ہے۔ ان کی لیڈر شپ پیپلز پارٹی کی طرح ملک سے باہر ہے اور وہ وہاں ہی سے حکمت عملی طے کرتی ہے۔ اب ان کو کراچی میں ایک اہم متبادل شخصیت مل گئی ہے جن کی ممبر شپ بحالی کے بعد وہ سیاسی بیان دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کا پہلا ہی حملہ سندھ کے گورنر عشرت العباد پر تھا۔ وہ کیسے ایم کیو ایم کے پردھان بنتے ہیں؟ آج کل موصوف اس معمہ کو حل کرنے کے لئے کراچی میں خاصے سرگرم عمل ہیں۔ ایک طرف میڈیا کی اہمیت حاصل ہے، ایک فلم بنارہے ہیں۔ عسکری حلقوں سے ہمدردی میں اپنا ایک گانا بھی بنا کر رمضان شریف میں پیش کرچکے ہیں اور ان کی نظر ایم کیو ایم کی قیادت کے بعد کراچی کےمیئرشپ پر بھی ہے۔ ان کی اس بے باک خواہش کے بعد یہ تو کہا جاسکتا ہے؎
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی!
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف سے نظر آتا ہے اور وہ سیاسی طور پر سب سے کم عمر ہے اور ان کی لیڈر شپ کرپشن، لوٹ مار اور اشرافیہ کی دھاندلی پر مسلسل آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ تحریک انصاف اور کپتان عمران خان کے پاس جیتنے کو تو سارا ملک ہے مگر ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ سابقہ حکومتوں نے اشرافیہ کے قرضے جس طریقہ سے معاف کروائے اس کے بارے میں تو مسلم لیگ نواز کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں، اگر صرف ان قرضوں کے حوالہ سے کارروائی شروع ہوجائے تو بھی ملک میں تبدیلی کا سوچا جاسکتا ہے، پھر آئے دن ملک کی بڑی عدالت عوام کے مفاد میں رائے دیتی نظر آرہی ہے، مگر حکومت وقت اور ان کی نوکر شاہی کو اعلیٰ عدالت کے فیصلے باکل پسند نہیں آرہے اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے بھی اس کی کوئی نیت بھی نظر نہیں آتی، اگر عوام یا کوئی عوامی سوچ رکھنے والا عسکری اداروں کی طرف دیکھے یا ان کو بے بسی میں دعوت دے تو اس کا بھی ناطقہ بند کردیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کا وہ چہرہ ہے جس سے لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کو آسانی دینے کی بجائے ان کے صبر کو آزمانا کون سی سیاست اور عبادت ہے ۔بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حریت کی لہر کو جمہوری ماننے کو تیار نہیں۔ صرف مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو کہنا پڑا کہ کشمیری عوام کی آواز اور اخلاص کو اب نظر انداز کرنا مناسب نہیں مگر ہمارے ہاں ان کے لئے کوئی جذبہ ابھرتا نظر نہیں آتا پھر ہمارے عوام اپنی زندگی بڑی لاچاری اور بے بسی سے گزار رہے ہیں۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ اور نوکر شاہی عوام کی عزت نفس کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ایسے میں قانون بھی جمہوریت اور خواص کے سامنے بے بس سا ہوجاتا ہے۔ کیا آزاد کشمیر میں انتخابات کے بعد کوئی سوشل ویلفیئر نظام لاگو ہوگا۔ ان کے پاس تو صوبوں کی طرح سے داخلی خود مختاری بھی نہیں ہے۔ ان انتخابات کے بعد جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں اپنی حیثیت منوانا چاہتی ہے مگر اس کے لئے ان کو مسلم لیگ نواز کی بات سننا ہوگی۔ ایک طرف جماعت ا سلامی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مالا جپتی ہے، دوسری طرف آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کی حمایتی ہے۔ایسے میں دو کشتیوں میں سوار جماعت اسلامی اپنا تشخص مجروح کرتی آرہی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کو اندازہ نہیں کہ وہ جمہوریت پر یقین نہ رکھنے کے باوجود اس نظام سے کیا حاصل کرسکتے ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی ترکی میں ناکام عسکری مہم سے جس کے بعد وہاں پر میڈیا، تعلیم اور فوج میں انقلاب کے ہمدردوں پر جنگی جرائم کا اطلاق کیا جارہا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں بھی جاری ہے۔ ایک طرف ترکی، امریکی اور یورپی عسکری تنظیم نیٹو کا سرگرم رکن ہے۔ امریکی ترکی کی سرزمین کو آزادی سے استعمال کرتے ہیں، پھر ترکی کا امریکہ پر الزام ہے کہ حالیہ ناکام انقلاب میں امریکی ادارے ملوث ہیں۔ امریکی اپنی صفائی پیش نہیں کررہے، اس کی وجہ وہاں کے انتخابات میں کوئی بھی انتخابی امیدوار ترکی کے معاملہ پر بات نہیں کررہا۔ حالیہ دنوں میں یہ ضرور ہوا ہے کہ صدارتی امیدوار مسز کلنٹن کے بارے میں رائے عامہ زیادہ ہے۔ مسز کلنٹن گزشتہ کئی برسوں میں عالمی سیاست میں بہت اہم رہی ہیں۔ ان کو اندازہ ہے کہ اب ا مریکہ بیرون ملک جنگوں کا زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ چین جس طریقہ سے ایشیاء میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اب امریکہ کو اس کے لئے کچھ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ افغانستان میں اب چین بھی خاموش حصہ دار ہے۔ بھارت اس کو پسند نہیں کرتا، مگر سب سے زیادہ مشکل پاکستان کو ہے جو امریکی مفادات کے لئے فرنٹ مین رہا ہے اور چین سے دوستی کا دعویدار بھی۔اس وقت چین اور ترکی پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کاروبار کرتے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ چین کے دورے پر رہتے ہیں۔ ایک زمانہ میں یہ کام سابق صدر آصف زرداری کیا کرتے تھے ۔ چین کی قیادت کو علم ہے کہ پاکستان میں کس سے کام لیا جاسکتا ہے ۔ لگتا ہے کہ شاید چین شاہراہ ریشم سے ہوتا ہوا پنجاب کے راستے بھارت کے ساتھ تجارتی معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر اس نے لاہور میں اپنا سفارتی دفتر بنایا ہے اور ہمارے حکمران بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات کے خواہش مند بھی ہیں۔ چین پاکستان کے سیاسی معاملات پر بھی نظر رکھ رہا ہے۔ پرامن ماحول ہی اچھی تجارت کو فروغ دے سکتاہے۔ بھارتی امریکی دوستوں کے لئے خطہ میں خارجہ تعلقات پر نظر ثانی کرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں امن ہی اس علاقہ کو محفوظ بناسکتا ہے۔ پاکستان کی افواج قیام امن کے لئے اپنا کردار ادا کررہی ہیں مگر اندرون ملک سیاسی خلفشار ملکی ترقی کو متاثر کرتا ہے ،پھر کرپشن، لوٹ مار، دھونس دھاندلی اور پاناما لیکس جیسے مسائل پر تمام سیاسی فریقوں کی توجہ ضروری ہے۔ کپتان عمران خان کی جماعت صرف راستہ دیکھا سکتی ہے۔ ہماری اشرفیہ کو اپنا کردار بدلنا ہوگا، ورنہ ملک کی تقدیر بدلنا ممکن نہیں۔ اس وقت جمہوریت کا کام سرکار کی بدعملی اور تکبر پر پردہ ڈالنا ہے مگر اب یہ بات پردے میں رہنے والی نہیں۔


.
تازہ ترین