• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم کا دورہ بھارت کامیاب رہا یا ناکام؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ بھارت سے دوستی کی خواہش اچھی ہے مگر وزیراعظم کو جانے سے پہلے پورا ہوم ورک کرناچاہئے تھا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے عجلت میں دورہ بھارت کا فیصلہ کیا وہ بھارت جانے سے قبل سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے لیتے تو زیادہ بہتر طور پر اس دورے کے ثمرات حاصل کئے جاسکتے تھے۔ پاک، بھارت تعلقات کے حوالے سے ماضی کا تجربہ یہی بتاتاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر ہے جس کے حل ہوئے بغیر بھارت سے دوستی اور باہمی تجارت پھلتی پھولتی نظر نہیں آتی۔بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے دوران ممبئی حملوں کے حوالے سے ٹرائل پر عدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ممبئی ٹرائل کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں تجارتی تعلقات اور جامع مذاکرات کی بحالی سمیت مختلف امور زیر بحث آئے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نریندرمودی سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نوازشریف کو بھارتی میڈیا کو برملا بتانا چاہئے تھا کہ ان کی بھارتی وزیراعظم سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر، سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر ایشوز پر بات ہوئی ہے۔ دورے کے ایک روز بعد مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دفتر خارجہ میں میڈیا کو بریفنگ میں یہ راز کھولا کہ وزیراعظم نے کشمیر، سمجھوتہ ایکسپریس، انسداد دہشت گردی سمیت کئی معاملات پر بات چیت کی ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے بعد اٹل بہاری واجپائی سے ملنے اور تاریخی جامع مسجد دیکھنے تو چلے گئے مگر انہوں نے حریت لیڈروں سے ملاقات نہیں کی۔ تحریک کشمیر کے حریت قائدین نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کو اپنے بھارتی دورے میں جب نریندر مودی نے انہیں ممبئی حملوں سمیت الزامات کی چارج شیٹ پکڑائی انہیں بھی جواباً مسئلہ کشمیر، سمجھوتا ایکسپریس اور بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار پر کھل کر بھارتی وزیر اعظم سے بات کرنی چاہئے تھی اور بھارتی میڈیاکے سامنے بھی اسے بھرپور اندازمیں پیش کرنا چاہئے تھا مگر نہ جانے وہ کون سی حکمت تھی کہ انہوں نے ان بنیادی مسائل کو انڈین میڈیا کے سامنے نہیں رکھا۔ اگرچہ یہ ایک تقریب حلف برداری تھی جس کی دعوت نریندرمودی کی طرف سے دی گئی تھی۔ کامیاب سفارت کاری اور حکومتی آداب کا تقاضا ہے کہ جب دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے وفود اور ون ٹوون ملاقات کی ہے تو پھر اچھے تعلقات کے آغاز کیلئے دونوں ہمسایہ ممالک کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے حقائق کوسامنے رکھنا چاہئے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت تو ممبئی حملوں کی رٹ لگائے رکھتا ہے اور کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا لیکن ہم ہیں کہ بھارت سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو فی الفور حل کرے اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند کرے۔ اسی طرح سمجھوتا ایکسپریس میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے حکومت پاکستان کو صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے۔ بھارت پاکستان کو بنجر بنانے کی سازش کر رہا ہے۔ وہ چھوٹے بڑے 62سے زائد ڈیم ہمارے حصے کے دریائوں پر بنا چکا ہے۔ بھارت کی ’’آبی جارحیت‘‘ کا نوٹس لینا اشد ضروری ہے۔ بھارتی حکومت اور عالمی برادری کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کیخلاف بھارت کے مذموم عزائم کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ ہماری سلامتی اور خودمختاری کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔ وزیراعظم نوازشریف کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر بھی بات کرنی چاہئے تھی۔ ہندوستانی حکومت کو یہ باور کراناپڑے گا کہ اگر اس نے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی خفیہ سرگرمیوں اور مداخلت کو نہ روکا تو بھارت،پاکستان تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے۔ ملک کے سنجیدہ قومی وسیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ حکمراں محض ’’فوٹوسیشن‘‘ کیلئے بھارت گئے اور انہوں نے پاکستان کا ’’کمزور‘‘ مقدمہ پیش کیا جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے اپنی ملاقات میں بلوچستان، قبائلی علاقوں اور کراچی میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت انہیں پیش کئے تھے اور بھارتی وزیر اعظم کو توجہ دلائی تھی کہ وہ انڈین ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور تخریب کاری کو روکیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اجلاس کے موقع پر امریکہ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات ہوئی تھی۔من موہن سنگھ نے بھی روایتی انداز میں ممبئی حملوں اور دہشت گردی کے بارے میں اپنے موقف کا اظہارکیا تھا۔ گزشتہ 66سالوں کاسبق یہی ہے کہ بھارت نے پاکستان کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ اس نے چالبازی اور مکاری سے کام لیکر دیرینہ مسئلہ کشمیر پرٹال مٹول اور ’’وقت گزاری‘‘ سے کام لیا۔ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق جموں و کشمیر کو پاکستان کاحصہ بنناتھا مگرقیام پاکستان کے فوری بعد بھارت نے تمام اخلاقی وقانونی اقدار کو اپنے پائوں تلے روند کر جموں و کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ اقوام متحدہ میں بھی بھارت خود گیا اس نے وہاں وعدہ کیاتھا کہ وہ جموں و کشمیر سے اپنے غاصبانہ قبضے کو ختم کریگا اور یواین او کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کوحق خودارادیت دے گا۔بھارت آج تک اقوام عالم سے کئے گئے اپنے وعدے سے انکاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں اب تک ایک لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔بھارتی ظلم و ستم کے نتیجے میں ہزاروں نوجوان انٹروگیشن سینٹرز میں اذیت ناک مظالم سہہ رہے ہیں۔ان گنت کشمیری خواتین کی عصمت دری گئی ہے۔ بھارتی فوج کے سفاکانہ مظالم کے باوجود عالمی ضمیر خاموش ہے؟امریکہ اور یورپ اس پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی پر ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ یہ امریکہ اور یورپی ممالک کی منافقت اور دو رنگی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی سوچ اور رویے مختلف ہیں۔ ان کے یہ تضادات اب ابھر کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ انڈونیشیا میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان پر مشتمل عیسائی ریاستیں تو وجود میں آجاتی ہیں مگر مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ مسائل ہنوز حل طلب ہیں؟یہ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے کیسے دہرے معیارات ہیں؟ انہی تلخ رویوں نے مسلم دنیا کو یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ اور یورپی ممالک کے مفادات کی آلہ کار بن چکی ہے۔ اب اس سے کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ مسلم دنیا کے اگر اپنے معاملات کوحل کرناہے تو انہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنناہوگا۔اپنی قوت اور وسائل کو مجتمع کرنا ہو گا۔ اتحادویگانت کامظاہرہ کرنا ہوگا ۔او آئی سی (O.I.C) کا ادارہ جو کہ غیرفعال بناچکاہے اسے فعال کرناہوگا۔عالم اسلام کامتحدہونا ہی تمام ترمسائل کاحل ہے۔
تازہ ترین