• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی انتخابی کامیابی سے مہاشے’’بھوتر‘‘ گئے ہیں(پنجابی کے’’بھوتر‘‘ پر معذرت مگر متبادل اردو لفظ صورتحال کی درست عکاسی نہیں کرتا )،منگلور میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے راشڑیہ ہندواندولن اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے مظاہرہ کیا اور اذان فجر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کہ اس سے ہندو اکثریت کے آرام میں خلیل پڑتا اور صبح کی نیند خراب ہوتی ہے۔
بھارتی وزیر مملکت جتندر سنگھ نے وزیر اعظم ہائوس سے بیان جاری کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی وعدے کے مطابق جموں و کشمیر کے بارے میں آئین کا آرٹیکل 370ختم کرنے کے لئے قانونی کارروائی کا آغاز کردیاگیا ہے اور جموں و کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کردیا جائیگا۔
اذان فخر پر پابندی اور جموں و کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کرنے کے لئے بھارتی حکومت کی بے تابی ان سیکولر لبرل حضرات کی زمینی حقائق سے متصادم سوچ کی نفی ہے جو عرصہ دراز سے یہ پروپیگنڈہ کرکے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں مصروف رہے کہ سیکولرازم معاشرے میں عالیٰ ظرفی، فکری کشادہ نظری اور روشن خیالی و اعتدال پسندی کو پروان چڑھاتا اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
اذان ایک ایسا اسلامی شعار ہے جو دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں اللہ کی وحدانیت اور کبریائی کا صور پھونکتا اور مسلمانوں کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ اسی بنا پر ہر جگہ اس پر قدغن کے بارے میں سوچا جاتا ہے اور طرح طرح کے بہانے گھڑے جاتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ایسا ہی مطالبہ گوجرانوالہ کے سرداروں نے کیا تھا جس پر مقامی حکمران نے یہ فیصلہ سنایا کہ ہندو اور سکھوں کا آرام مقدم مگر مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ انہیں نما ز فجر کی اطلاع بروقت ملے اس لئے آئندہ یہ سکھوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ صبح صبح اٹھ کر ہر مسلمان کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور اسے اطلاع دیں کہ نماز فجر کا وقت ہوگیا ہے۔ سرداروں نے پھر اذان کو ہی غنیمت جانا۔
ہماری نوجوان نسل کو یاد نہیں، سیاستدانوں اور دانشوروں نے بھی یاد دہانی ضروری نہیں سمجھی کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک لیاقت نہرو پیکٹ موجود ہے جو 1950 میں تبادلہ آبادی، ہندو و مسلم فسادات اور دونوں اقوام کی مذہبی عبادت گاہوں اور فرائض و شعائر کے تحفظ کے لئے ایک ہفتے کے بحث مباحثے کے بعد طے پایا۔ اس پیکٹ کے تحت دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی ہندو، مسلم اقلیت کے جان و مال، تہذیب و ثقافت اور عزت و ناموس کے علاوہ مذہبی شعائر کے تحفظ کی پابند ہیں۔
ڈیڑھ دو سال قبل سندھ میں جب ہندو اقلیت کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ مقامی زمیندار اور وڈیرے ان کی عزت و آبرو اور مذہبی شعائر کے لئے خطرہ بن گئے ہیں تو بھارت نے باضابطہ طور پر احتجاج کیا اور حکومت پاکستان کو لیاقت نہرو پیکٹ کے تحت اپنی ذمہ داریاں یاد دلائیں۔ پاکستان میں تبدیلی مذہب کا معاملہ ہو یا حرمت ناموس رسول ﷺ کے منافی کسی ناروا حرکت پر مسلمانوں کا فطری ردعمل نئی دہلی سے نیویارک تک ہر جگہ ہاہاکار مچ جاتی ہے مگرمنگلور میں اذان فجر کی پابندی کے مطالبے اور گجرات وآسام میں حالیہ ہندو مسلم فسادات کو انسانی حقوق کے ادارے ،نام نہاد عالمی برادری اور پاکستان کا دفتر خارجہ سب شیر مادر کی طرح ہضم کرگئے۔
مقبوضہ کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کرنے کے لئے سرکاری اعلان پر نام نہاد عالمی برادری کی خاموشی تو قابل فہم ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کو خطے کی سیاسی، دفاعی اور معاشی قوت بنانے کی خواہش مند عالمی برادری کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے مگر حیرت کشمیری نسل کی پاکستانی وزیر اعظم کی سربراہی میں قائم مسلم لیگی حکومت پر ہے جو یوں منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھی ہے جیسے ان دونوں معاملات کا تعلق لیاقت نہر و پیکٹ سے ہے نہ تاشقند و شملہ معاہدوں اور اعلان لاہور سے اور نہ اس حوالے سے پاکستان کی کوئی اخلاقی، قانونی ،سفارتی ،مذہبی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے دیگر ساتھیوں کے بارے میں تو اس بدگمانی کا شکار نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے کسی نے بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور لیاقت نہرو پیکٹ پڑھنے پر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا ہوگا مگر سرتاج عزیز بھی جو اپنے آپ کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا فعال کارکن بتاتے ہیں اس سے لاعلم ہیں دل مانتا نہیں۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل370 کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر پر دفاع، خارجہ امور، خزانہ اور مواصلات کے سوا کوئی قانون اور آئینی شق لاگو نہیں، بھارتی حکومت حالت جنگ کے سوا ریاست میں ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے نہ انسانی حقوق معطل اور نہ کوئی بھارتی باشندہ ریاست میں شہریت کا حقدار اور جائیداد خریدنے کا مجاز۔ موجودہ بھارتی حکومت متنازعہ ریاست کو اپنا صوبہ بنانا چاہتی ہے۔
1965 میں جب بھارتی حکومت نے شیخ عبداللہ سے مل کر صدر ریاست اور وزیر اعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے منصب تخلیق کئے تو پاکستان نے سرکاری اور عوامی سطح پر احتجاج کیا۔1974 میں اندرا عبداللہ معاہدے پر بھٹو صاحب نے پاکستان میں ہڑتال کرائی اور ریاست میں اسے یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کا اعلان ہوا تو بھارت نے پاکستان کے علاوہ چین اور امریکہ سے باضابطہ احتجاج کیا اور عالمی مالیاتی اداروں کو اس ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈز نہ دینے کا مطالبہ ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی بنک سمیت کوئی مالیاتی ادارہ اس منصوبے کے لئے ایک پائی دینے پر آمادہ نہیں مگر ہم متنازعہ جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے پر خاموش ہیں جبکہ اس کے بعد پانی کا مسئلہ ایک بار پھر شدت سے کھڑا ہوگا کیونکہ یہ دریا بھارت کی ملکیت قرار پائیں گے اور وہ ان پر بند باندھ کر پانی روکنے میں آزاد ہوگا۔
پاکستانی اور کشمیری عوام حیران ہیں کہ حکومت پاکستان کی چشم پوشی، لاتعلقی اور سہل پسندی کا سبب کیا ہے؟ کیا کشمیر کو فراموش کئے بغیر لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا ممکن نہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے والے بیس پچیس کروڑ بھارتی مسلمانوں سے نظریں چرائے اور اذان فجر پر پابندی کے ہندو توا مطالبے کو اندرونی معاملہ سمجھے بغیر امر محال۔ دو طرفہ تجارت اور پائیدار دوستی کے لئے کشمیر ا ور بھارتی مسلمانوں کے جذبات کا بلیدان امن و تعاون کی شرط اول ہے شاید۔
مگر کوئی بات نہیں شدھی، سنگٹھن ،ہندوستانی قومیت پر بھوتری برہمنی قیادت نے دو قومی نظریے کو جنم دیا اور مسلمانوں کے الگ وطن کی راہ ہموار کی۔1940میں پاکستان دیوانے کی بڑتھا۔ 1947 میں زندہ و پائندہ حقیقت ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے
شاید ہندوتوا کا بار دگر ظہور اور نریندر مودی کی قیادت میں ا ٓر ایس ایس شیوسینا اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کا راج موجودہ بھارت میں ایک نئے پاکستان کی وجہ تخلیق ثابت ہو جس کی پیش گوئی بعض اہل نظر عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ انتہا پسندی اور تنگ نظری کوئی نہ کوئی گل تو کھلائے گی ۔سارے کشمیری اور بھارتی مسلمان ہمارے حکمرانوں اور دانشوروں کی طرح دھوتی پرشاد سے خوفزدہ اور تلک پر قربان تو نہیں؎
دیکھ مسجد میں شکست رشتہ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
تازہ ترین