• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حامد میر نے پاکستان سے محبت اور صحافت سے وابستگی کی اپنے لہو سے دلیل دی ہے۔ ایسی مسکت دلیل کو برہان قاطع کہتے ہیں۔ اس سے ان نیاز مندوں کے لئے بڑی مشکل پیدا ہو گئی ہے جنہوں نے حامد میر کے نقطۂ نظر سے تو ہمیشہ اختلاف کیا لیکن اس کے حق اختلاف سے کبھی انکار نہیں کیا۔ میر صاحب نے حالیہ کالم میں پاک بھارت تعلقات پر اظہار خیال کیا ہے۔ وضعداری کا تقاضا ہے کہ اختلاف کی روایت کو زندہ رکھا جائے۔حامدمیر نے وزیراعظم نواز شریف کو بھارت کے ساتھ تعلقات میں آہستہ روی کا مشورہ دیتے ہوئے تاریخ سے کچھ حوالے دئیے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا ہے کہ فروری 1999ء میں وزیراعظم نواز شریف نے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی کوشش کی تھی تاہم اٹل بہاری واجپائی کےدورہ لاہور کے موقع پر بعض مذہبی تنظیموںنے وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ اعلان لاہورکی مٹی خراب ہو گئی۔ چند ماہ بعدکارگل میں ایسی مہم جوئی کی گئی کہ مسئلہ کشمیر کہیں پیچھے رہ گیا اور نواز شریف اٹک قلعے کے راستے جدہ پہنچ گئے۔ پانچ برس بعد واجپائی صاحب اسلام آباد آئے اور پھر دونوں حکومتوں میں ایسی افہام و تفہیم ہوئی کہ کشمیر کا محاذ اب تک ٹھنڈا چلا آتا ہے۔ 2004ء میں پرویز مشرف حکومت میں تھے مگر بعض مذہبی تنظیموں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ حامد میر نے سنجے بارو کی کتاب ’حادثاتی وزیراعظم‘ کے حوالے سے بتایا ہےکہ 2006ء میں پرویز مشرف اور منموہن سنگھ پائیدار امن کی کچھ صورتوں پر قریب قریب متفق ہو گئے تھے اور 2007ء میں سمجھوتے کا باضابطہ اعلان ہونا تھا ۔ تاہم مارچ 2007ء میں عدلیہ کے بحران نے ایسی دھول اڑائی کہ آں قدح بشکست وآںساقی نماند۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ابھی اڑنے نہ پائی تھی کہ آصف زرداری صاحب کے دو بیانات کی لپیٹ میں آگئی۔ممبئی دھماکے آصف زرداری کے لئے کارگل ثابت ہوئے۔ تجارت اور راہداری کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔حامد میر ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت میں تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کوئی آمر کرے تو اسے نجات دہندہ قرار دیا جائے گا اور اگر کوئی سیاسی رہنما ایسی جرأت کرے تو اسے غدار کہا جائے گا۔ اس تجزئیے سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ دیکھئے 1999 ء اور پھر 2004 ء اور پھر 2007ء میں پرویز مشرف تو تصویر میں موجود تھے اور بظاہر فیصلہ کن اختیار کے مالک تھے۔ ان تینوں مواقع پر نتائج مختلف کیوں رہے؟ یہ تو طے ہے کہ بعض مذہبی قوتوں کا ہیئت مقتدرہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کم و بیش چالیس برس پر محیط ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سیل بے اماں کی سمت کون متعین کرتا ہے؟ میاں نواز شریف کے دورہ بھارت کی منطق سے کھلا اختلاف مشکل ہے سو زاویہ نگاری کی صورت یہ نکالی گئی کہ میاں صاحب نے رفتار کچھ زیادہ رکھی ہے۔ رفتار کی اچھی کہی۔ گویا 19 کروڑ کا منتخب رہنما موٹر وے پر گاڑی چلا رہا ہے اور ہمارے معزز تجزیہ نگار اسپیڈ گن لئے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف ہوں یا کوئی اور سیاسی رہنما، ملک کی بھلائی غیر مقبول فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔ افراد ہوں یا ادارے، اگر تاریخ کے بہائو میں رکاوٹ بننے کا فیصلہ کرلیں تو تاریخ انہیں چھوڑ کر آگے نکل جاتی ہے۔ دنیا بھر میں دایاں بازو معیشت کی زبان بولتا ہے، ہماری گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہمارے ہاں دائیں بازو کے ایک حصے نے عسکریت پسندی کا دامن پکڑ رکھاہے۔عسکری سوچ قوم کا تحفظ کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ قوموں کو آگے لے جانے کے لئے تمدنی سوچ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں کہیں نہ کہیں تمدنی سوچ کی مزاحمت موجود ہے۔ مگر کہاں؟ اس مقام پر تجزیہ نگار سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ توسن خیال کو لگام دے۔
تخلیق میں حکایت کا درجہ بہت بلند ہے۔حکیم لقمان نے حکایت بیان کی۔گوتم بدھ نے جاتک کی راہ سے تعلیم دی۔ حضرت عیسیٰ نے تمثیل کی صورت میں ہدایت دی۔ مولانا روم نے مثنوی لکھی تو شیخ سعدی نے حکایات۔ حکایت کی روایت میں بچوں کے کردار کو بہت دخل رہا۔ شاید اس لئے کہ بچوں کی سادہ زبان میں معانی کے رنگ نکھر آتے ہیں۔ کبھی بچہ پکار اٹھتا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے تو کبھی ڈیوڈ کوپر فیلڈ کے روپ میں وکٹورین ریاکاری کی پرتیں کھولتا ہے ۔ 1809ء میں پادری ویمز نے امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کی سوانح لکھی تو اس میں ایک حکایت بیان کی۔ جارج کے ابا نے تلقین کی تھی کہ اسے ہمیشہ سچ بولنا چاہئے خواہ اس کی کتنی ہی بڑی سزا کیوں نہ ہو۔ چھ برس کے جارج کے پاس ایک کلہاڑی تھی ۔ اسے باغ میں پودوں پر کلہاڑی چلا کر بہت خوشی ملتی تھی۔ ایک روز ابا گھر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کسی نے ان کا پسندیدہ چیری کا درخت کاٹ دیا ہے ۔ ابا نے ناراض ہو کر سب گھر والوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ چیری کا پیڑ کس نے کاٹا ہے؟ سب نے انکار کیا۔ ابا نے جارج کی طرف دیکھا۔ جارج نے کھڑے ہو کر کہا، ابا میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ چیری کا درخت میں نے کاٹا ہے اور پھر سزا کے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔ ابا نے اسے گلے لگا لیا اور کہا کہ بیٹا تو نے سچ بول کر مجھے جو خوشی دی ہے وہ چیری کے درخت سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ بعد میں آنے والے محققین نے بتایا کہ مصنف نے قوم کی تشکیل کے جوش میں بہت سے من گھڑت قصے جارج واشنگٹن کے سر منڈھ دیے تھے۔ کوئی چالیس برس پہلے اردو کی تیسری کتاب میں یہی کہانی ہمیں بھی پڑھائی گئی۔ چیری کا درخت ہماری کتاب میں آم کا پیڑ بن گیا اور جارج کا نام بدل کر حامد رکھ دیا گیا تھا۔ حامد نے اپنے ابا کو بتایا ’’آم میں نے کاٹا تھا‘‘۔ مجھے یقین ہے کہ حامد میر نے بھی یہ کہانی پڑھی ہوگی اور اچھے بچوں کی طرح سچ بولنے کا ارادہ باندھا ہوگا۔ افسوس کہ بچوں اور بڑوں کی دنیا میں ایک فرق ہے۔ بچے جانتے ہیں کہ آم کس نے کاٹا ۔ بڑوں کو اوّل تو معلوم نہیں ہوتا کہ آم کس نے کاٹا ۔ اور اگر معلوم ہو تو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سچ بولنے کی بجائے خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے۔ اور خاموشی سے بھی زیادہ فائدہ اس میں ہےکہ دوسروں کی طرف انگلی اٹھا کر زور زور سے شور مچایا جائے ’آم حامد نے کاٹا تھا‘۔ جس کا آم کٹ جائے، اسے ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ آم کس نے کاٹا مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ حقیقت کی دنیا میں سچ بولنے پر سزا دی جاتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک حاملہ ماں کو اینٹیں مار کر ہلاک کردیا گیا ہے۔ قاتل اس نوجوان خاتون کے اپنے باپ اور بھائی تھے۔ غیرت کے رنگ نیارے ہیں ۔ ایک مظلوم بچی مدد کے لئے پکارتی رہی اور اہل لاہور دیکھتے رہے۔ کسی کی غیرت نہ جاگی۔ کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ آگے بڑھ کر دست قاتل کو جھٹک دے۔ امریکہ میں مقیم ایک نیک دل ڈاکٹر تین ہفتے کے لئے وطن واپس آیا تھا تا کہ اپنے نادار ہم وطنوں کی مفت خدمت کر سکے۔ ہم نے اس کے دل میں گولیاں اتار دیں۔ کیسے ظالم ہیں کہ جس دل میں انسان کی محبت موجزن دیکھتے ہیں، اسے نچوڑ لیتے ہیں۔ صحافی کا قلم چھین لیتے ہیں۔ وکیل کی دلیل روک دیتے ہیں۔ صاحب ہم تو بچوں کی حکایت لکھنے بیٹھے تھے لیکن اس میں بھی کچھ گمبھیر پہلو نکل آئے۔ ہمارے چاک داماں سے یہ کیا دھاگے نکل آئے۔ ایسا کرتے ہیں حمیدہ شاہین کی تازہ غزل پڑھتے ہیں۔ سوال یہاں بھی وہی ہے۔ آم کس نے کاٹا؟
بلا کی تمکنت سے اب سیاہی بولتی ہے
ہماری چْپ سے شہ پا کر تباہی بولتی ہے
نوائے دیدۂ بینا کو دل ترسے ہوئے ہیں
ہمارے منبروں سے کم نگاہی بولتی ہے
یقیں آتا نہیں ہے اپنے لہجے پر کبھی تو
یہ ہم کب ہیں ،ہماری عذر خواہی بولتی ہے
ہماری خاک پر الفاظ ہی واجب ہوئے ہیں
اسے ہے بولنا ، خواہی نخواہی بولتی ہے
تازہ ترین