• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگاہوں سے گرایا یاس کو کم بخت اسی دل نے
اسی دل کی بدولت لوگ کیا کیا کام کرتے ہیں
یاس یگانہ کا یہ شعر آج کے سیاسی حالات میں کافی موزوں لگتا ہے۔ دل اور دماغ کی ہمیشہ جنگ لگی رہتی ہے۔ دماغ اور حالات کچھ اور کہتے ہیں اور دل ہے کہ مانتا ہی نہیں اسی لئے علامہ اقبال نے بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر لکھا۔
لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
مودی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی حلف لینے کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا اور دل بڑا کرکے دعوت نامہ پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی دے دیا۔ یہاں بھی وزیر اعظم بڑے دل کے مالک ہیں۔ انہوں نے دعوت نامہ خوشی سے قبول کیا اور حلف برداری کی تقریب اور اس کے بعد ہونے والی دعوتوں اور ملاقاتوں میں بھرپور شرکت کی۔ پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے دعوتوں اور ضیافتوں میں پیش کئے جانے والے پکوانوں کی فہرست شائع کی اور ٹی وی پر پکوان ڈشوں میں لگے ہوئے دکھائے۔ وزیراعظم اور ان کے ساتھ جانے والے احباب تقریب میں شرکت کے وقت نہ صرف انتہائی خوش دکھائی دئیے بلکہ لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی نظر آرہے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ من ہی من میں پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات، بھاری تجارت، کشمیر اور پانی کے مسئلے کا حل سوچ سوچ کر خوش ہورہے ہوں۔ انہیں نظر آرہا ہو کہ یاری دوستی میں کشمیر بھی مل جائے گا اور دریائوں کے پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ خیال یا خواب برا نہیں مگر ان خیال کی تکمیل اور اس خواب کی تعبیر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان نے کشمیر کے لئے تین جنگیں لڑی ہیں اور اس میں بہت سی شہادتیں ہمارے حصے میں آئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور بقول ساحر لدھیانوی جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے۔ مگر کیا کریں جب جنگ آپ پر تھوپ دی جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر بی جے پی کے رہنما واجپائی لاہور تشریف لائے تھے اور انہوں نے اپنی نظم بھی پڑھی تھی جوکہ جنگ کے خلاف تھی اور امن کا پیغام دیتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور وجود میں آچکا ہے۔ انہوں نے جاتے وقت میاں نواز شریف کو ہندوستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی جسے میاں صاحب نے قبول کیا تھا۔ میاں صاحب نے دو یا تین مرتبہ جانے کا ارادہ بھی بنایا مگر مصروفیات یا سیکورٹی کلیئرنس کی وجہ سے جا نہ سکے۔ اور اس دوران کارگل کا واقعہ ہوگیا۔ بہرحال میاں صاحب ہندوستان نہ جاسکے اور جیل چلے گئے۔ اس دفعہ موقع غنیمت تھا اور اسے کسی طرح بھی ضائع نہیں کرنا تھا۔ لہٰذا میاں صاحب نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور فوراً روانہ ہوگئے۔ وہاں ان کی کافی عزت افزائی کی گئی اور ہندوستان کے میڈیا نے بھرپور کوریج دیا۔ پاکستان میں بھی میاں صاحب کی شرکت کی وجہ سے مودی کی حلف برداری کی تقریب لائیو دکھائی گئی اور اس طرح دونوں ملکوں کے میڈیا نے مثبت رول ادا کیا۔ مجھے یاد ہے جب ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر ہندوستان گئی تھیں تو وہاں کے میڈیا نے ان کی شخصیت، لباس، زیورات اور ہینڈ بیگ پر قصیدے بیان کردئیے تھے اور پاکستانی وفد کی اتنی پذیرائی اس سے پہلے شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ آج بھی ہندوستانی میڈیا حنا ربانی کھر کو یاد کرتا ہے۔ اور ابھی میاں صاحب کے حالیہ دورے کے دوران اس پرانے دورے کی بازگشت میڈیا میں سنائی دی ہے۔ میاں صاحب کا ہندوستان جانے کا فیصلہ میرے خیال میں ان کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس میں پارلیمینٹ اور کابینہ سے شاید کوئی مشورہ نہیں کیا گیا نہ ہی وزارت خارجہ نے اس اچانک دورے کی پہلے سے کوئی پلاننگ کی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ایک دفعہ جب دونوں ملکوں کے حالات بہت سنگین تھے تو جنرل مرحوم ضیاء الحق نے بھی اچانک کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا اور ان کے جانے سے ایک جنگ ٹل گئی۔ ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب کے ذہن میں بھی کوئی ایسی ہی بات آئی ہو کیونکہ ضیاء الحق اور میاں صاحب کا مکتبہ فکر کافی ملتا جلتا ہے بلکہ میاں صاحب کو سیاست اور اقتدار میں لانے کا سہرا بھی جنرل ضیاء الحق کے سر پر بندھتا ہے۔ ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو پہلی مرتبہ ضیاء الحق کے مارشل لا میں پنجاب کی صوبائی حکومت کا وزیر خزانہ بنایا پھر چیف منسٹر بنے اور پھر بنتے ہی چلے گئے۔ اب خیر سے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے پہلے شخص ہیں۔ کچھ اخبارات نے میاں صاحب کے دورے پر تنقید کی ہے اور ان کا یہ خیال ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کے وہاں جانے سے ہمارے قومی وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ بہرحال یہ وزارت خارجہ اور قومی پالیسی پر موقوف ہے۔ ہم اپنی کم علمی کی بناء پر اس معاملے پر تجزیہ پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ مسائل تصوف ہیں۔ انہیں انہی لوگوں پر چھوڑتے ہیں جن کا یہ کام ہے یا ذمہ داری ہے۔ ہم تو صرف دل پشوری کرنے والے لوگ ہیں ہماری بلا سے۔
کل کے اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’ق‘‘ لیگ اور تحریک انصاف کے رہنما لندن میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقاتوں کے سلسلے زیادہ صحیح نہیں ہیں۔ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ کسی سیاسی تحریک کی تیاری ہے اور بھرپور طریقے پر کی جارہی ہے جس میں بین الاقوامی طاقتوں کی اشیرباد کی بو آرہی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہوتو میثاق جمہوریت بھی اسی طرح لندن میں تیار ہوا تھا۔ پھر این آر او آگیا۔ پھر بے نظیر صاحبہ اور میاں صاحبان پاکستان آگئے۔ پھر بی بی کی شہادت ہوگئی اور انتخابات ہوگئے۔ پیپلزپارٹی پاکستان اور سندھ میں جبکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ پنجاب میں اقتدار میں آگئی۔ باریاں بٹ گئیں۔ پانچ سال آصف زرداری صاحب کے پورے ہوگئے اور مسلم لیگ ن کے شروع ہوگئے۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، آنے والے دنوں میں بڑی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ خدا کرے کہ ملک اور عوام کی بہتری کے لئے ہو۔ خوشحالی اور امن کا دور دورہ ہو۔ اقرباء پروری اور کرپشن سے نجات ملے۔ ملک میں انصاف قائم ہو۔ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ نہیں چل سکتا۔ آخر میں ناصر کاظمی کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آئو کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
تازہ ترین