• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نو منتخب بھارتی و زیر اعظم نر یندر مو دی کی دعوت پر وزیراعظم نواز شر یف نے نہ صر ف یہ کہ جنا ب مودی کی تقریب حلف برداری میں شر کت کی ہے بلکہ ون ٹو ون ملا قا ت کے بعد پا ک و ہند تعلقات بہتر بنا نے کے لیے اپنے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔یقینا یہ جنا ب نو از شر یف کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا ۔بحیثیت و زیر اعلیٰ گجرات نریندر مو دی کے متنا زعہ رویے کی بنا پر ایک طر ف ان تحفظات کا اظہار کیاجا رہا تھا کہ وہ ابھی تیل دیکھیں اور تیل کی دھار،علا وہ ا زیں اپنی انتخا بی مہم کے دو ران بی جے پی کے رہنما کا رویہ پا کستان اور نو از کے حو الے سے نہ صر ف یہ کہ قدرے درشت رہا تھا بلکہ من مو ہن سنگھ کو دیہا تی عورت کہنے کی مبینہ بنیا د پر انہوں نے اپنی پبلک تقا ریرمیں نو ازشریف کو آڑے ہا تھوں لیا تھا ۔پا کستان کے حوا لے سے آنے وا لے د نوں میں ہم اگر چہ بی جے پی کی پا لیسوں کو کا نگر س کی نسبت قدر ے تر ش اور دو ٹو ک دیکھتے ہیں لیکن نر یندر مو دی کی انتخا بی و سیا سی تقریر کو ہم محض انتخا بی و سیا سی تقاریرہی خیا ل کر تے ہیں بھارتی و زیر اعظم کی حیثیت سے اُن کا رو یہ و زیر اعظم واجپا ئی جیسا نہ بھی ہو،تو بھی کو ئی زیا دہ مختلف نہیں ہو گا۔جنو بی ایشیا میں امن بر ائے تر قی و خو شحالی کا نعرہ اب اتنی اہمیت و مقبو لیت حاصل کر چکا ہے کہ بی جے پی میں شا مل متشدد ہندو عنا صر یا پا کستان کے عسکریت پسند اسے بآسا نی غیر مقبو ل نہیں کرسکتے ۔ اس کا احساس و ادراک وزیراعظم مودی کو بھی لازما ہوگا جس کی ایک جھلک وزیر اعظم نوازشریف سے گرم جوشی پر مبنی مصافحہ میں ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ہم اپنے پر عزم و ز یر اعظم نو از شر یف کی امن اور خو شحا لی کے لیے تڑ پ اور سیا سی با لغ نظری کو خر اج تحسین پیش کر تے ہیں جنہوں نے تا ر یخ کے اس نا زک لمحے میں دانش مند ی سے کام لیتے ہوئے ذمہ دار قومی قا ئد ہو نے کا ثبو ت دیا ہے و رنہ اس اہم مو قع پر اگر وہ تذبذب کا شکار ہو جا تے تو اگلے چار سا ل تذ بذ ب میں ہی گزارتے۔ پو ری دنیا کے سامنے پا کستان کی نا قدری ہو تی کہ ہندوستان نے تو دعوت بھیج کر امن اور دو ستی کا ہا تھ بڑھا یا جبکہ پاکستان نے اُسے جھٹک یا ٹھکرا کر ہمسائیگی کے اچھے تعلقات قائم کر نے کا قیمتی مو قع گنوا دیا ۔
بھا رت سے نفر ت کی اگر پا کستان میں چندپا کٹس ہیں بھی تو ان کا مر کز ثقل پنجا ب میں تلا ش کیا جا سکتا ہے جن کا مداوا خود نو از شر یف ہیں البتہ کچھ حلقوں سے اُ ن پر ضر ور دبا ئوآسکتا ہے جسے وہ بچ بچا ئو فر است استقا مت اور عا لمی تعاون سے ریلیز کر سکتے ہیں ۔نو از شر یف و طن عزیز میں ترقی وخو شحا لی کاجو پر وگرام یا ایجنڈا رکھتے ہیں وہ جہا ں دو طر فہ منا فرت کے خا تمے کی بنیا دہے و ہیں پاک و ہند دوستی کا مظہر ہے۔اس و اضح حقیقت کے ادراک نے مسلم لیگ ن اور اس کی قیا دت کو سمجھا دیا ہے کہ و ہ پا ک ہند تعلقا ت بہتر بنا نے کا کو ئی مو قع ضائع نہ کر یں الیکشن جیتنے کے بعد نواز شریف نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ انہیں بھارت سے دشمنی نہیں دوستی کا مینڈیٹ ملا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران بھولے سے بھی ہندوستان دشمنی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ اس حوالے سے ان کے نظریات و و چار سب پر واضح رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب نریندر مودی کی کامیا بی کے انتخابی نتائج سامنے آتے ہی وہ پوری دنیا میں سب سے پہلے عالمی رہنما قرار پائے جنہوں نے ان کی کامیا بی پرانہیں مبارکباد کا پیغام بھجوایا ۔
بلاشبہ پاکستانی وزیر اعظم کے موجودہ دورئہ ہند سے نہ کوئی بریک تھرو ہوا اور نہ اس کی توقع تھی لیکن یہ دورہ اس راہ پر آگے بڑھنے کے لیے سنگ میل ضرور ثابت ہو گا ۔اگر سیکرٹری لیول کی ملا قاتیں طے ہو جاتی ہیں تو بہتر ورنہ ستمبر میں نیویارک کی مثبت ملاقات کا یہ اولین زینہ بن سکے گا سب سے بڑھ کر یہ کہ منافرت کے امنڈتے خدشات کے سامنے یہ ایک بڑی دیوار قرار پائے گا ۔
پاک بھارت تعلقات کے اتار چڑھائو میں اس وقت قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو انڈیا سے کیا شکایات ہیں اور اسی طرح انڈیا کو پاکستان پر کیا اعتراضات ہیں؟ پاکستانی نقطہ نظر سے جہا ں کشمیر کا دیرینہ مسئلہ ہے وہیں ڈیمز اور پانیوں کا نیا سلسلہ بھی شدت اختیار کر چکا ہے سیاچن اور سر کریک کے مسائل بھی ہنوز لا ینحل ہیں بلوچستان کے حوالے سے بھی پاکستان کے کچھ حلقوں کو شکایا ت ہیں ان سب کے علاوہ پو سٹ امریکہ افغانستان کے حو الے سے ، ہر دو ممالک میں یہ خواہش پا ئی جاتی ہے کہ وہ نئے افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اثر و نفوذ حاصل کریں یہ دوڑ مسابقت سے بڑھ کر مناقشت کو جنم دے رہی ہے جبکہ انڈین قیادت کو پاکستان اور اس کے مخصوص اداروں سے سب سے بڑی شکایت دہشت گردی کو بطور سیا سی و خارجی پالیسی کے ہتھیار و استعمال سے ہے انڈیا میں گراس روٹ لیول تک یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی عالمی پہچان ہے اگر پاکستانی قیادت نے اس سلسلے میں کماحقہ ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے تو ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں باہمی تعلقات بجائے سنورنے کے مزید بگڑ سکتے ہیں اس حوالے سے مودی کی قیادت میں بی جے پی گورنمنٹ قطعی نرمی دکھانے کی پو زیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی اہل وطن کو اس سلسلے میں کو ئی اشتباہ یا غلط فہمی ہونی چاہیے ۔ ہمیں عدم مداخلت کے اصول کو بطور پالیسی اپنانا ہو گا ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ تما م تر تعصبات سے نکلنا ہو گا اچھی ہمسائیگی سے اگر انڈین تجارت باآسانی سنٹرل ایشیا ء تک جا سکتی ہے تو پاکستانی معیشت کو بھی نیا خون اور نئی توانا زندگی مل سکتی ہے۔ ہر دو ممالک کو جہاں منفی مسائل پر بات چیت کی راہ اپنانی ہے وہیںیہ عہد کرنا ہے کہ اچھے تعلقات کو منفی مسائل یا تنازعات کا یر غمالی نہیں بنانا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی معیشت اسلحہ بندی میں انڈیا کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے ۔انڈیا کے سامنے پاکستان نہیں چین کا بہت بھاری چیلنج ہے جس کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اس کے سر حدی تنازعات موجود ہیں بلکہ ایک جنگ بھی لڑ ی جا چکی ہے اگرچہ ہر دو ممالک کی ذمہ دار قیادتیں ان اختلافات کی یر غمال نہیں ہو ئیں اور باہمی تجارت و روابط کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے ہیں مگر تلخ حقائق اپنی جگہ بہر صورت موجود ہیں جبکہ ہمارے تلخ مسائل بڑی حد تک قابو میں آچکے ہیں اور ہم باہم اس طرح مقابلے کی دوڑ میں بھی نہیں ہیں ۔بہتر ہو گا کہ جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنالی جائے ۔عصر حاضر کے بدلتے ہوئے تقاضوں کی معنویت کو ہم بھی سمجھ لیں ۔ نہ صرف انڈو پاک بلکہ تمام سارک ممالک پورپی یونین سے سبق سیکھیں جو اتنی شدید جنگیں لڑنے کے باوجود آج کس آئیڈیل مقام پر کھڑے ہیں ۔
تازہ ترین