• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوتوں کی پائیداری، خوبصورتی اور کمفرٹ کی بات چلے تو تان اٹالین شوز پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ جو واقعی ہم جنسوں میں ممیز و معتبر ہیں۔ اسی لئے تو دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ پھٹی پرانی جین اور ٹی شرٹ میں ملبوس، الجھے بالوں والا ہونق سا شخص نیو یارک کے معروف شو اسٹور میں داخل ہوا تو اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا گیا۔ گویا کہ 10/20 ڈالر کے جوتے کی تلاش میں غلطی سے دکان کی سیڑھیاں چڑھ آیا ہے۔ ذرا فراغت ہوئی تو ایک سیلز گرل اتمام حجت کے طور پر اس کی طرف متوجہ ہوئی اور صدمہ سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچی کیونکہ نو وارد نے لائٹ برائون رنگ میں اپنے سائز کے فراری شوز طلب کئے تھے، جن کی کم سے کم قیمت بھی ساڑھے پانچ ہزار ڈالر سے اوپر تھی۔ موصوف کیلئے 6400 ڈالر کا مطلوبہ جوتا پیک کرتے ہوئے سیلز گرل کا تمام تر تجسس اس سوال میں ڈھل گیا کہ بظاہر تو وہ اتنے صاحب ثروت دکھائی نہیں دیتے۔ ’’میں ہوں بھی نہیں‘‘ گاہک بولا۔ مگر اچھا جوتا میرا شوق ہے۔ جس کیلئے باقاعدہ بچت کرتا ہوں۔ وہ اس لئے بھی کہ کپڑے اچھے تو سب ہی پہنتے ہیں، اچھا جوتا کوئی کوئی۔ حالانکہ پائوں کا ہم پر کہیں زیادہ حق ہے کہ جسم کا سارا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اس غریب امریکی نے تو جوتوں پر خاصی رقم لٹا دی، مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو مفت میں بھی مل جاتے ہیں۔
بغداد میں 14 دسمبر 2008ء کو ہونے والی پریس کانفرنس میں مقامی صحافی منتظر زیدی نے صدر بش پر اپنے دونوں جوتے باری باری دے مارے تھے۔ پہلا پھینکتے ہوئے وہ چلایا کہ یہ آپ کیلئے عراقی عوام کی جانب سے الوداعی بوسہ ہے اور دوسرے پر اس نے کہا تھا کہ یہ عراقی بیوائوں، یتیموں اور شہیدوں کی طرف سے تحفہ ہے۔ صدر بش نے کمال پھرتی دکھائی اور دونوں بار بچ گئے۔ زیدی کو سیکورٹی والے پکڑ کر لے گئے اور عراقی حکام امریکی صدر سے معافی تلافی میں مصروف ہو گئے جس پر موصوف نے خوشدلی سے کہا تھا کہ مجھے تو ذرا بھی برا نہیں لگا۔ البتہ یہ افسوس ہے کہ جوتے گھسے ہوئے بہت تھے اور میرے برینڈ کے تھے اور نہ ہی میرے سائز کے۔ اس واقعہ سے صدر بش کو تو شاید ہی کچھ ملا، ترکی کی جوتا ساز کمپنی کے وارے نیارے ضرور ہو گئے اور ایک ہفتہ میں تین لاکھ جوڑے ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔ بش کو جوتا کیا پڑا، گویا کہ یار لوگوں نے اسے مذاق ہی بنا ڈالا۔ کوئی بھی توجہ کا طالب ہوتا یا خبروں میں آنا چاہتا، تو کسی معزز عالمی شخصیت پر جوتا اچھال دیتا۔ اگلا نشانہ چین کے وزیراعظم وین جیا بائو بن گئے۔ موصوف دورہ برطانیہ کے دوران 2 فروری 2009ء کو کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچر کیلئے مدعو تھے۔ لیکچر ختم ہونے کو تھا کہ ایک جرمن طالب علم یکایک نشست سے اٹھا۔ منہ میں دو انگلیاں رکھ کر زور دار سیٹی بجائی اور چند ایک خرافات بکنے کے بعد پائوں سے جوتا اتارا اور نشانہ باندھ کر معزز مہمان پر دے مارا۔ گو نشانہ چوک گیا، مگر کیمبرج والوں پر تو گویا گھڑوں پانی پڑ گیا۔ وائس چانسلر بوکھلائے پھر رہے تھے کہ یہ تو ان کی جامعہ کی روایت نہ تھی۔ ایک احمق طالب علم نے صدیوں کی محنت اور ریاضت غارت کر دی۔ معزز مہمان نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ طالب علم کے ساتھ نرمی برتی جائے۔ یونیورسٹی سے تو ہر گز نہ نکالا جائے کیونکہ اس کے مرض کا علاج محض اور محض تعلیم ہے۔ اور اطمینان رکھیے ایک بیمار ذہن کی یہ حرکت چین۔ برطانیہ تعلقات میں رخنہ نہیں ڈال سکتی۔ 2009ء کے عام انتخابات کے دوران یہ حادثہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ موصوف 26 اپریل کو احمد آباد میں انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے کہ اگلی صف میں بیٹھے ایک 23 سالہ شخص نے یکایک اپنا جوتا وزیراعظم کی طرف اچھال دیا تھا، جو ان سے کچھ فاصلہ پر گرا۔ ملزم کو پولیس نے قابو کر لیا تھا، مگر موصوف نے یہ کہہ کر چھڑوا دیا کہ احمقوں کے ساتھ احمق نہیں بنتے۔ اس واقعہ کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی تھا کہ اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس فضول حرکت کی مذمت کی تھی اور واضح کیا تھا کہ جب جمہوری نظام میں احتجاج کے شریفانہ طریقے موجود ہیں، تو اس بھونڈی حرکت کی کیا ضرورت تھی؟ اس انوکھے احتجاج کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہو چکا۔ جہاں 15 اگست 2010ء کو بھارت کی آزادی کی 64 ویں سالگرہ کے موقعہ پر پاپوش کا نشانہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بنے تھے۔ موصوف خطاب کیلئے اٹھے ہی تھے کہ ایک پولیس اہلکار عبدالاحد جان نے برائون رنگ کا سرکاری بوٹ دے مارا۔ پھر سیاہ جھنڈا لہراتے ہوئے کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگانے لگا اور ریاستی اور یونین سرکار کو چتائونی دی تھی کہ قابض فوجوں کو وادی سے نکل جانا چاہیے کیونکہ وہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ ایسے میں بھارتی تسلط کا کوئی جواز نہیں بنتا۔پاپوش زنی کے اس کھیل کی روداد کی ابتدا ہم نے امریکہ، چین اور انڈیا سے کی ہے کیونکہ عالمی طور پر جانے پہچانے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ شیطانی فعل ہماری سرزمین پر ان سے کہیں پہلے اپریل 2008ء میں سرزد ہو چکا تھا۔ سندھ کے ایک سابق وزیراعلیٰ ارباب رحیم صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف برداری کیلئے آئے تو ان کا استقبال جوتے سے کیا گیا تھا۔ اس سمے پیپلز پارٹی کا وہ جیالا قیادت کا پسندیدہ نعرہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ غالباً فراموش کر چکا تھا۔ پھر دو پاکستانی صدور بھی اس ناخوشگوار تجربہ سے گزرے۔ 7 اگست 2010ء کو صدر آصف زرداری برمنگھم کے انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے مخاطب تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس ادھیڑ عمر کا شمیم خان نامی شخص پہلی صف میں آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ پھر یکایک نہ جانے کیا سوجھی کہ دونوں پائوں سے جوتے اتارے اور ’’تم قاتل ہو‘ کے نعرئہ مستانہ کے ساتھ صدر پاکستان کی جانب اچھال دیئے۔ زرداری صاحب محفوظ رہے اور بدتمیزی کا نوٹس لئے بغیر تقریر جاری رکھی۔ سیکورٹی والے ایکشن میں ضرور آئے مگر معاملہ تحقیق و تفتیش سے آگے نہیں بڑھا۔
پرویز مشرف کو بھی یہ اعزاز حاصل ہو چکا۔ مگر اقتدار سے علیحدگی کے بعد۔ 6 فروری 2011ء کو برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے لندن میں خطاب کر رہے تھے کہ سامعین میں سے کسی نے جوتا ان کی طرف پھینک دیا۔ اس حرکت کے مرتکب شخص کو دکھ تھا کہ موصوف کے ایماء پر امریکہ نے بے گناہ پاکستانیوں کو قید کر رکھا ہے۔ جناب شہباز شریف اس انوکھے کلب میں شامل ہونے والے چوتھے پاکستانی سیاستدان ہیں۔ موصوف 23 اپریل 2014ء کو لاہور میں سائوتھ ایشیا لیبر کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آئے تھے کہ ایک بیمار ذہن وہی حرکت کر بیٹھا۔ پولیس اٹھا کر تھانے لے جانے ہی والی تھی کہ وزیراعلیٰ نے معافی تلافی کر دی۔ مستقبل میں اس قسم کی حرکت کا سوچنے والوں پر واضح ہو کہ یہ شعبدہ پرانا ہو چکا اور ہے بھی بہت بھونڈا۔ عراقی صحافی منتظر زیدی کے فعل میں تھرل تھی، جو مسلسل نقالی اور اکثریت استعمال کے سبب ختم ہو چکی۔ نمایاں ہونا آپ کا حق ہے، مگر طریقہ مثبت ہونا چاہیے۔ اس برطانوی میجر والی حرکت نہ کیجئے گا، دوسری عالمی جنگ میں جس کی پوسٹنگ کسی دور افتادہ ویرانے میں تھی، جو بہت کچھ کرنا چاہتا تھا، مگر وہاں کارکردگی کی گنجائش ہی نہ تھی کہ علاقہ محاذ سے ہٹ کر تھا اور جنگ وہاں تک پہنچ ہی نہ پائی تھی، سو جنگ ختم ہو گئی تو اس نے یونٹ کا ساز و سامان جمع کیا اور پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ کورٹ مارشل والوں نے وجہ پوچھی تو بولا، کم از کم خبروں میں تو آ گیا ہوں۔
تازہ ترین