کراچی (رفیق مانگٹ) پنٹاگون کے اعلیٰ حکام اسرائیل کے لیے امریکی فوجی امداد کے دائرہ کار پر منقسم ہیں، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے خارجہ پالیسی کو متاثر کرے گا۔ سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے اسرائیل کی حمایت اور دفاع کے لیے مزید وسائل مانگے ہیں، لیکن ان کی درخواستوں کو پالیسی کے انڈر سیکریٹری ایل بریج کولبی کی مزاحمت کا سامنا ہے، جو ایشیا سے مشرق وسطیٰ میں فوجی اثاثوں کی منتقلی کے خلاف ہیں۔تہران پر غیر متوقع حملے نے اس داخلی اختلاف کو مزید گہرا کر دیا، خاص طور پر جب ایران کے جوابی حملوں کے تناظر میں اسرائیل کی امداد کی ضرورت بڑھ سکتی ہے۔ فروری میں ’’ریسٹرینر‘‘ خارجہ پالیسی سے وابستہ نئے عہدیداروں نے جنوبی کوریا سے پیٹریاٹ میزائل بیٹری کی اپریل میں مشرق وسطیٰ منتقلی کی مخالفت کی تھی، کیونکہ کولبی کا خیال ہے کہ یہ اقدام چین یا شمالی کوریا کے ساتھ ممکنہ تنازع میں امریکی فوجی تیاری کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ٹرمپ، جو اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، بعض اوقات قریبی امریکی-اسرائیلی ہم آہنگی سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ سابق قومی سلامتی مشیر مائیک والٹز کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ "شدید ہم آہنگی" کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ کولبی کی ایشیا پر توجہ نے انہیں ٹرمپ کے وفاداروں سمیت دیگر خارجہ پالیسی ماہرین سے متصادم کر دیا ہے۔المانٹر کے مطابق، جنرل کوریلا نے مشرق وسطیٰ میں دوسرا ایئر کرافٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ بھیجنے کی درخواست کی ہے۔