• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو عبرت کے ان مٹ ہزاروں نشاں موجود ہیں۔ بے شمار تمثیلات اور انگنت مثالیں ماضی کے دریچوں سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق گردانیں تو پتہ چلتا ہے کہ قومیں اور تہذیبیں بالکل انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ابن خلدون اور شپنگلر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں،یہ جنم لیتی ہیں ،پروان چڑھ کر جوان ہوتی ہیں پھر زوال کا شکار ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔رومن ،یونانی اور مصر کی تہذیبوں کا مطالعہ یہی بتاتا ہے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد ہمیشہ نظام، چند اصولوں ،ضابطوں اور اخلاقی قدروں پر ہوتی ہے۔ ان کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب یہ نظام اور اخلاقی قدریں کمزور پڑ جاتی ہیں ۔آزادی اظہار پر پابندی ہو یا لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کا معاملہ۔جب بھی ان پر وار کیا جاتا ہے۔نظام ڈگمگا جاتا ہے۔ لگ بھگ 65 برس پہلے جب ہم نے یہ وطن حاصل کیا تو مذہب کے نام پر دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آیا۔1947ء سے لے کر آج تک وطن عزیز میں ہم نت نئے تجربات کرچکے ہیں مگر بالآخر نتیجہ یہی اخذ کیا گیا کہ جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے لیکن آج اس بہترین نظام حکومت میں بھی اخلاقی قدریں کمزور پڑتی ہوئی معلوم ہورہی ہیں۔اخبارات لے جانے والی گاڑی کو جلانے کا معاملہ ہو یا ایک مخصوص چینل کی بندش۔ حکومت ہر طرف بے بس کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ ہمیشہ جمہوریت کو خطرات تب ہی لاحق ہوتے ہیں جب حکمرانوں کی اخلاقی قدریں کمزور پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔جو نظام کو نیست و نابود کر دیتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے لئے اصولوں اور ضابطوں کو روند دیا جاتا ہے مگر ان سب حقیقتوں کے باوجود 2014ء کا پاکستان اپنے تعمیری و تخریبی عمل سے گزرنے کے بعد ایک مستحکم راستے پر گامزن ہے۔جہاں آج ملک کی اکثریت متفق ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی میں ہی وطن کی بہتری ہے مگر اقتدار کی کرسی پر براجمان حکمرانوں کو اپنی اخلاقی قدروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
جن حالات میں میاں نوازشریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا ۔مانا کہ ملک مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا معلوم ہوتا تھا۔آج ایک سال گزرنے کے بعد بلاشبہ یہ کہنا بھی حق بجانب ہوگا کہ حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں مگر میاں صاحب کے دور اقتدار میں آزادی اظہار پر پہرے کیوں بٹھائے جارہے ہیں۔ کون ہے جو 18کروڑ عوام سے آزادی کا حق چھیننا چاہتا ہے۔
طالبان سے مذاکرات کا معاملہ ہو یا سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی پیروی ۔حکومت اور فوج میں شدید تناؤ بھی دیکھنے کو ملا۔جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے افراد یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ ایک مرتبہ پھر غیر آئینی و غیر قانونی طریقے سے نظام کی بساط لپٹ جائے گی مگر پاک فوج اور اس کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف ستائش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نظام کو کمزور کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے۔ نام نہاد سیاسی قوتیں حکومت کو مسائل میں دیکھ کر اپنی دکان چمکانے کی آس میں جمہوری نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ عمران خان،چوہدری برادران اور کینیڈا پلٹ علامہ کی شدید خواہش ہے کہ کسی بھی طریقے سے اس نظام کا بوریا بستر گول کرکے چور دروازے سے راستہ بنایا جائے مگر سابق صدر آصف علی زرداری کا اب تک کردار قابل تعریف ہے۔ بین الاقوامی تعلقات و پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ہونے کے ناتے میکاولی،ارسطو ،سقراط جیسے گوہر نایاب فلسفیوں کو پڑھنے کو موقع ملا تو یہی بات سامنے آئی کہ تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے نہیں سیکھتا اور تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر آج محسوس ہوتا ہے کہ فلسفیوں کی صدیوں پرانی رائے شاید غلط ثابت ہو رہی ہے۔گزشتہ شب جنرل صاحب سے معاملے کا تذکرہ کیا تو جنرل صاحب فرمانے لگے کہ زرداری تاریخ سے سیکھ رہے ہیں ۔ماضی کے پانچ سالوں میں جو کچھ انہوں نے برداشت کیا وہی انہیں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کررہا ہے۔آصف علی زرداری سے زیادہ کون بہتر جانتا ہے کہ شاہراہ دستور پر واقع دو بڑے (صدر و وزیر اعظم ہاؤس) ایوانوں کے باسی کس قدر بے بس ہوجاتے ہیں ۔ عوام جمہوری قوتوں سے آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں مگر نظام کی باگ ڈور کہیں اور سے چلائی جارہی ہوتی ہے۔ججز بحالی کا معاملہ ہو یا میمو کیس۔زرداری صاحب بخوبی واقف ہیں کہ اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ آج کے آصف زرداری ایک بدلے ہوئے شخص ہیں۔جو تاریخ سے سیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو مت دہرائے۔ جن کی ترجیحات ہیں کہ جمہوریت کو مستحکم کیا جائے اور ملک کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے تمام اہم فیصلوں کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہی ہونا چاہئے۔ زرداری صاحب کے حالیہ کردار پر رتی برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔پیپلز پارٹی کے روح رواں کا حالیہ دنوں میں جمہوریت کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم اور کسی بھی غیر آئینی اقدام کی مخالفت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔آصف زرداری نے خود کو تاریخ میں سرخرو کیا ہے۔ وگرنہ اب حالات ایسے نہیں ہیں کہ ایک شخص نے فیصلہ کیا اور پورا نظام گول ہو گیا۔ چاہے ملک کے اندرونی حالات ہوں یا خطے کا بدلتا ہوا سیاسی منظر نامہ۔ ان حالات میں صرف جمہوریت ہی ملک کو بہتر ڈگر پر ڈال سکتی ہے۔
جو لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ میاں نوازشریف اپنے حق سے دستبردار ہوکر دوستوں کو من مانیاں کرنے دیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طالبان کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیاں فوجی آپریشن کا آغاز نہیں ہے۔حکومت طالبان سے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا آغاز کرے گی کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق ملاعمر کی مداخلت کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان ایک مرتبہ پھر متحد ہو رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے متحد ہونے کی صورت میں حکومت مذاکرات کو ہی ترجیح دے گی اور اسی طریقے سے یہ سلسلہ آئندہ پانچ سال تک جاری رہے گا جبکہ جہاں تک رہا مشرف کا معاملہ تو میاں نوازشریف کسی بھی صورت مشرف کو خفیہ راستہ فراہم نہیں کریں گے۔ اس معاملے میں ان کا واضح موقف ہے کہ پاکستان کی آزاد عدلیہ سابق آرمی چیف کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی بلکہ اگر خصوصی عدالت نے مشرف کے حق میں فیصلہ دیا تو بطور مدعی وفاقی حکومت اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی جبکہ آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی کوشش کرنے والے افراد آج جو جنگ ،جیو گروپ کے ساتھ کررہے ہیں یہ شرپسندی کی بدترین مثال ہے۔ادارے کو ڈیڑھ ارب سے زیادہ کا مالی نقصان اور حکومت وقت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔حکومت اب تک نہ ہی سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کراتے ہوئے پیمرا کے ذریعے جیو نیوز کی نشریات بحال کرانے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی جنگ گروپ کے خلاف شدت پسند کارروائیوں کا پتہ چلا سکی ہے۔
آج پاکستان کا سب سے بڑامیڈیا گروپ جن نامساعد حالات سے دو چار ہے اسی پر شاعر نے کہا تھا کہ
طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
تازہ ترین