• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’انسانی حرص لا محدود ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے (حریص) انسان کا پیٹ تو مٹی سے ہی بھرے گا ‘‘اور انسان کی یہی کمزوری ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا تاکہ عیش کی دنیا یونہی آباد رہے، ہاں وہ جو اس متاعِ غرور میں بھی خلق کے مقصد کو جانتے و مانتے ہیں وہ میزان پر تولتے ہیں، قرآنِ عظیم میزان، توازن ہی کا شاہکار پیامبر ہی تو ہے، کہتے ہیں کہ انسان جب تن، من، دھن یعنی خواہشات کے باغ میں سیر بے حساب ہوا تو وہ ایسی لذت کا رسیا ہوا کہ جس سے وہ رہائی نہیں چاہتا تھا، چنانچہ اسے حیاتِ جاودانی کا خیال ستانے لگا، ان خیال پرستوں کا آقا گلِ گمیش اٹھا، کہنے لگا ’’زندگی کے دن معین ہیں انسان خواہ جو کچھ کرے اس کی حقیقت ہو اسے زیادہ نہیں‘‘ وہ تلاش آبِ حیات کی خاطر جب بستی سے نکلنے لگا تو لوگوں نے سمجھایا ’’موت برحق ہے اپنا پیٹ بھر، اپنے بچے کو دیکھ جو تیری انگلی پکڑے ہوئے ہے، جا گھر اور اپنی بیوی کو آغوش میں لے اور پھر دنیا و مافیہا کو جام مے میں انڈیل دے‘‘ لیکن گلِ گمیش پر تو اس سرور کو امر بنانے کا خبط سوار تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ابِ حیات یعنی حیاتِ جاودانی کی بوٹی اس کے ہاتھ لگتی ہے، اس کو لے کر وہ واپس ہوتا ہے، راستے میں اسے ایک دریا ملتا ہے، وہ اس بوٹی کو کنارے پر رکھ کر اپنی تھکان دور کرنے کیلئے اس میں نہانے لگتا ہے، جب واپس کنارے پر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ایک سانپ اس بوٹی کو لے کر فرار ہو رہا ہے اور اس طرح سانپوں کو تو ’’حیات جاوداں‘‘ مل جاتی ہے لیکن انسان منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ انسان کو عقل و حکمت کا سبق یاد کرانے کیلئے افسانوی کرداروں کے ذریعے تعلیم کا یہ طریقہ اہلِ یونان نے اختیار کیا، افلاطون و دیگر حکماء اسی طرح تعلیم دیتے تھے اور اپنے دقیق فلسفے کو عام فہم بناتے تھے، یہ طریقہ آج بھی موجود ہے لیکن اب یہ شاید بے سود ہو چلا ہے اس کی ایک لیکن بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جنہیں سمجھانا مقصود ہے وہ نہ صرف سمجھے سمجھائے ہوئے ہیں بلکہ اہالیان مقننہ (پارلیمنٹ) ہیں، اس لئے عدلیہ براہ راست اللہ کے واسطوں پر اتر آئی ہے، مخاطب وہ با اختیار طبقات ہیں جن کے ہاتھ کروڑوں عوام کی روزی روٹی کا اختیار آگیا ہے۔ ان کی نفسیات تو قرآن عظیم نے بتلا ہی دی ہیں ’’اگر کائنات پر انسان کا مکمل تسلط ہو جائے تو وہ لوگوں کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا‘‘ (سورۃ النساء)
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ’’عام آدمی کو صرف تجاویز پر ٹرخایا جا رہا ہے آٹا و گندم ذخیرہ و اسمگل ہو رہا ہے لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور کسی کو پروا نہیں‘‘ یہ درخواست جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ صاحب نے دائر کی ہے اس پر معزز جسٹس صاحب نے کہا ’’جماعت اسلامی بھی اسمبلی میں موجود ہے وہ وہاں قانون سازی کیلئے کیوں آواز نہیں اٹھاتی!؟ مقام افسوس ہے کہ حکمران اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقات نے ایسے ملک میں غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ ہے کہ یہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ سرکار دو عالمﷺ کے پاس ایک مہمان آیا، آپ ﷺ نے ایک ایک کر کے تمام اُمہات المومنین کے پاس کھانے کیلئے پیغام بھیجا، اس وقت 9ازواج مطہرات موجود تھیں لیکن کسی ایک کے گھر میں بھی کھانا دستیاب نہیں تھا، فاقے ہی فاقے تھے..... اب جب ایسے عظیم نبی ﷺ کے عظیم دین کے مبارک نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت میں حکمران طبقات اختیار پاتے ہیں تو خود سیر اور عوام فقیر ہو جاتے ہیں، شاید اسلام کے موجودہ قلعے میں نبی کریم ﷺ کے فاقوں کا مطلب دوسروں کو فاقوں میں رکھنا لیا گیا ہے، جبھی تو حکمران اشرافیہ اور ان کے حلیف طبقات من و سلویٰ سے لبریز اور غریب بقول سپریم کورٹ بھوکوں مر رہے ہیں۔
ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، 21فیصد پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی 1.25ڈالر سے بھی کم تر ہے یعنی وہ محض سو ڈیڑھ سو روپے ہی کما پاتے ہیں، سری لنکا اور نیپال جیسے چھوٹے علاقائی ممالک کے عوام بھی ہم سے فی کس آمدنی میں آگے ہیں، جہاں تک ایک ارب سے زائد آبادی والے بھارت کا تعلق ہے تو نامور صحافی ایاز امیر صاحب اپنے 21مئی کے کالم میں تقابلی انداز میں دریا کو کوزے میں سمیٹتے ہیں’’ آج کل بھارتی ذہن پر پاکستان سے مسابقت کا خبط سوار نہیں بلکہ وہ ایسی کوئی مسابقت دیکھتے ہی نہیں، عرصہ گزرا وہ دور تمام ہوا‘‘ آگے فرماتے ہیں ’’ان دونوں ممالک میں بہت زیادہ فرق نمایاں ہو چکا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم انڈیا کے حریف نہیں رہے، ہمارے میزائل اور بم اس بڑھتے ہوئے فرق میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے، خدشہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق بڑھے گا اور انڈیا عالمی کھلاڑی بن کر سامنے آئے گا‘‘۔ اگلے روز پیپلز پارٹی کے رہنما صاحبِ علم و فن تاج حیدر صاحب کا ایک بیان اخبارات کی زینت بنا، جس میں انہوں نے کہا ہے ’’حکومت نے اشرافیہ کو خوش کرنے کیلئے 452ارب روپے کے ٹیکس کی چھوٹ دی ہے‘‘ کیا یہ بہتر انداز نہ ہوتا کہ تاج حیدر صاحب ’’ سابقہ عوامی حکومت‘‘ کی بھی اس حوالے سے کارکردگی سامنے لاتے !! خیر اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں، جو بھی حکومت برسراقتدار ہوتی ہے وہ بالادست طبقات ہی کے زیرِدست ہوتی ہے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچنے والے ہمیشہ ان لوگوں کو بھلا دیتے ہیں جنہوں نے انہیں اس مقام پر پہنچایا ہوتا ہے شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
کیسے عجیب لوگ بستے ہیں تیرے شہر میں محسن
شوقِ دوستی بھی رکھتے ہیں اور یاد بھی نہیں رکھتے
بلاشبہ وہ ہستیاں قابل ناز ہیں جنہوں نے تلوار کی نوک کو چوم کر اور تختہ دار پر جھوم کر آزادی کا نعرہ مستانہ لگایا،زندان جن کے مکان ٹھہرے اور بیڑیاں رقصِ آزادی کی پازیب، تو اس سے رسنے والا لہو لیلائے وطن کے عروس کی لالی قرار پایا۔ پاکستان بنتے وقت دھرتی کا سینہ اس قدر کشادہ تھاکہ لاکھوں مہاجرین ہم آغوش ہوتے ہی بے خوف، پر سکون گہری نیند سے مسرور ہو چلے۔ بزرگ بتاتے ہیں قلب و نظر تو دُھلے دھلائےتھے، سڑکیں بھی دُھلتی تھیں۔ پھر ’’کھوٹے سکّے‘‘ بروئے کار آئے، چنانچہ نقشہ امروز یوں مشہود ہے کہ امیروں کے پاس کھربوں ہیں اور غریبوں کے پاس رہنے کیلئے ڈربے بھی نہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قطار اندر قطار گندم سے بھرے ٹرک اسمگل ہو رہے ہیں اور غریب پاکستانیوں کیلئے گندم شجر ممنوعہ ہے، حضرت یہ آپ نے کیا کہہ دیا تھا!!
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
حضرت اقبال تو مملکت خداداد کو مساوات کے ارفع میزان پر فائز دیکھنا چاہتے تھے لیکن خائنوں نے اسے غریب کا مقتل بنا دیا، غدار وہ نہیں جو دہشت گردوں کی گولیوں سے سینوں پر تمغے سجاتے ہیں اور نہ ہی وہ ہیں جو حق سمجھتے ہیں وہ کہتے اور لکھتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جنہوں نے ملک کے باسیوں سے روٹی، عزت و وقار چھین لیا ہے یہی رہزن، لٹیرے ہی غدار ہیں.... یہ نازک دوراہا قلم کے مجاہدوں اور تلوار کے سپاہیوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اُس اصل دشمن کو پہچانیں جو ملک کو دیمک کی طرح چھاٹ رہے ہیں۔ یہاں پر ہر باشعور پاکستانی سے یہ سوال ہے کہ اُس نے ساتھ کس کا دینا ہے،اُن سفاک دولتیوں کا جنہوں نے غریب کے سینے پر عشرت کدے آباد کر رکھے ہیں یا اُن مفلوک الحال عوام کا جو کسی’’ اپنے‘‘ کی راہ دیکھتے دیکھتے بوڑھے ہو چلے ہیں۔ یہاں احمد فراز بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ساتھ کس کا دینا ہے۔
ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا
جو رقص سرِ بازار کریں
یا اُن ظالم قزاقوں کا
جو بھیس بدل کر وار کریں
تازہ ترین