• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے اکثر بڑے شہروں کی دیواروں پر نت نئے نقش نگاروں کا چلن بہت خوشگوار سا لگتا ہے جب بھی کوئی انوکھی خوبصورت رنگوں سے سجی تصویر یا نقش دیکھا، میں نے اس کو محفوظ کرکے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا ، پھر ہم خیال اور شوقین اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح فن اور فنکار کی پہچان ہوتی ہے مگر ایک تبصرہ ایک عام سے نقش پر دیار غیر سے میری دوست شانتی دیوی نے کیا۔ وہ میرے لئے حیران کن ہے اس نے لکھا ہے’’جناب من دیواروں پر اندھے لکھتے ہیں کیونکہ بینا پڑھ نہیں سکتے‘‘ یہ جملہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا، ہمارا نظام بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے اور چل رہا ہے۔
چند دن پہلے ایک ادبی محفل میں مدعو تھا۔ مجھے مقرر کا نام تو یاد نہیں مگر ان کی بات ذرا عجیب تھی۔ ان کا کہنا تھا’’میرا پہلا جملہ آپ کو بدمزہ کرسکتا ہے، میری بات بری ہوسکتی ہے مگر میں یہ بات کہہ کر گنہگار نہیں ، میں برا ہوں اور اس لئے میں بے غیرت ہوں‘‘شکر ہے سب نے اس فقرہ کو چہرے کے بدلتے تاثرات کے ساتھ قبول کرلیا۔ ان کا بیان جاری رہا۔ ان کی منطق نرالی نہ تھی۔ معافی مانگنا ، برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا، بے غیرتی نہیں اور جو بھی یہ وصف رکھتا ہے وہ بے غیرت نہیں ہوتا۔ اسی لئے غیرت کے دعویدار سوچتے اور سمجھتے نہیں۔ یہ ایک صحت مند طرز عمل تھا مجھے اس بحث میں لطف آیا مگر میرا من برائی اور گناہ کے معاملہ میں اٹک سا گیا یا پھر ہم سب میں عدم برداشت کا فقدان ہے۔
مجھے اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سدا بہار لیڈر آصف علی زرداری کا نہ جانے کیوں خیال آگیا۔ ایک زمانہ میں ان کے مرشد پیر اعجاز کا بڑا شہرہ تھا۔ وہ بھی صاحب کمال تھے۔ آصف زرداری کو بڑی ہمت اور حکمت سے صدارتی محل میں محفوظ رکھا اور ایسا زور دار چلہ کاٹا کہ زرداری صاحب ابھی تک زمانے اور دوستوں کے شر سے محفوظ ہیں۔ آج کل پیر اعجاز کا آستانہ کہاں ہے وہ تو معلوم نہیں، مگر شہر میں اور ملک میں پیروں، فقیروں اور بابوں کی بہت اہمیت اور حیثیت ہوگئی ہے۔ میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا تصوف اور آج کے صوفی، ہمارے سیاسی اور سماجی نیتا ان سے نامعلوم کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ ہمارے مہربان اور دوست قدیر سہگل کو ایسے بزرگوں اور بابوں کی بڑی تلاش لگی رہتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دو دفعہ ان کے زیر سایہ صاحب تصوف بزرگوں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ ان سے حضرت قدیر سہگل کا سوال بڑا دلچسپ تھا۔نہ انہوں نے اپنا مستقبل پوچھا اور نہ ہی کوئی خاص مسئلہ بیان کیا، ان کی تمنا اور آرزو ہے کہ مولا ان کو مزید مال و زر سے نواز دے۔ وہ بھی ایثار اور خدمت کے ذریعے لوگوں اور ضرورت مندوں کی سیوا کرسکیں کاش! ہمارے نیتا اور پردھان ایسی تمنا اپنے من چاہے بزرگوں اور بابوں سے کرسکیں تاکہ عوام کی قسمت اللہ کی حکمت سے بدل سکے۔ عوام کی حالت اور حیثیت اس وقت بدلے گی جب کوئی جماعت خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر ان کے سنگ چلے۔ چند سال پہلے ایک کلاس کے دوران خدمت کے حوالے سے بات ہورہی تھی ۔ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ خدمت سے نفس مرجاتا ہے جو اصل میں آپ کا دشمن ہوتا ہے اور آپ اس کو پہچان نہیں پاتے اب سب کا ایک سوال تھا کہ نفس اور خدمت کیا ہے پھر نفس اور خدمت کا کیا تعلق ہے۔ اصل میں خدمت محبت ہے جب کسی کے خادم بن جائیں تو عبادت ہی خدمت ہے۔ اس وقت ایک لبنانی طالبعلم نے سوال اٹھایا ،صنف نازک سے محبت عالمگیر سچائی ہے۔ مجھے اس سے اختلاف تھا، مجھے کہنا پڑا صنف نازک سے محبت ایک محرومی ہے حقیقت نہیں۔ اصل میں محبت کی تعریف بہت مشکل ہے ہمارے وقت کے نامور ادیب اشفاق خان نے کیا خوب لکھا ہے’’انسان محبت ہے تو محبت کیا ہے، ایک کمرہ کے دو دروازے ہوں آپ ایک دروازہ کھولیں تو دوسرا دروازہ بھی ہلکا سا سرک جائے بس یہ محبت ہے‘‘ ایک اور طالبعلم ولسن نے دوبارہ اختلاف کیا۔ دیار غیر میں فرنگی زبان میں ایسا بیان ، ان کے کلچر اور تمدن سے لگا نہیں کھاتا تھا میں نے کہا میر ے عزیز، مشرق میں محبت ایک روگ ہے۔ مغرب میں محبت ایک الفت ہے جو آپ کو خوشی دیتی ہے۔ شادمان رکھتی ہے مغرب میں محبت آسانیاں بانٹتی ہے اور ہمارے مشرق میں اس سے دکھ ملتے ہیں۔ بات خدمت سے شروع ہوئی تھی، میرا خیال تھا فرض عبادت کی قضا تو ہے مگر خدمت کی کوئی قضا نہیں۔ عبادت سے جنت کی نوید ملتی ہے مگر خدمت سے رب ملتا ہے پھر اہم بات کہ اللہ اگر ہم سے محبت کرتا ہے تو ہماری غلطیوں کو نظر انداز بھی کردیتا ہے مگر ہم اس کو ناراض کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ اصل لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ کلاس میں اس قسم کی گفتگو اگرچہ بہت مفید رہتی ہے اور ایسے مواقع بھی آتے کہ کلاس کم اور جلسہ زیادہ لگتا ہےمگر ہمارے ہاں ہماری یونیورسٹیوں میں ایسا ماحول ملنا از حد مشکل ہے۔ ہماری درسگاہوں میں پڑھانے والے بہرے ہوتے ہیں اور پڑھنے والے گونگے، ایسے میں علم سے کم اور معلومات سے زیادہ استفادہ حاصل کیا جاتا ہے اور اس خراب معلومات نے سارے ملک کے نظام کو خراب کررکھا ہے۔ یہ نظام ہماری بے بسی میں اضافہ کررہا ہے ،اس کا مداوا عہد حاضر میں نظر نہیں آتا دعا کام نہیں کررہی اور دوائی وہ دستیاب نہیں۔
تازہ ترین