• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر باوا آدمِ سندھ حضرت قائم علی شاہ سدھارے۔ شاہ صاحب ویسے تو بہت ایماندار، وفاشعار اور ملنسار بزرگ ہیں، لیکن پیرانہ سالی نے اُن کی حکومت کرنے کی توانائی کو حکومتی تبخیر میں بدل دیا تھا اور ہر کوئی اُن کی غنودگی سے بہرہ مند۔ پیچھے سے رسی ہلانے والوں کو ایسا ہی تابع مہمل درکار تھا۔ لیکن عوام کی دُہائی اور میڈیا کی صبح شام ٹر ٹر سے کس کو مفر۔ نااہلی کے اِس بدترین ریکارڈ کے ساتھ اگلی بار انتخابات میں اُترنے کی ہمت کہاں سے لاتا۔ بلاول بھٹو کی کشمیر میں زبردست انتخابی مہم کے بے نتیجہ رہنے کی بھی کچھ وجہ ایسے ہی تھی کہ میاں نواز شریف پہ ’’مودی کی دوستی‘‘ کے شدیدحملوں کے باوجود وہ آزاد کشمیر کے بدبودار ٹولے کے بدنما چہرے کو ڈھانپ نہ پائے۔ تو، پھر سندھ میں سیّد قائم علی شاہ کی عدم حکمرانی کی لاش کو اُٹھا کر آپ کیسے اگلی انتخابی مہم میں چھلانگ لگا سکتے تھے۔ یہ تبدیلی بہت پہلے آنی چاہئے تھی، اور اُس وقت جب بلاول بھٹو کو میدانِ کارزار میں اُتارا گیا تھا۔ دیرآید درست آید والا مقولہ یہاں چسپاں ہونے کو نہیں۔ پھر بھی نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، محنتی اور صاف ستھرے مراد علی شاہ کو میدان میں اُتارنے سے جیسے پھر سے موہوم اُمید کی بتیاں جل گئی ہیں۔ میڈیا نے بھی اپنی پیپلز پارٹی سے عداوت کی روش سے ہٹ کر نئے وزیرِ اعلیٰ کے لئے اچھا تاثر (Good Feel Factor) پیدا کیا ہے اور نوجوان وزیراعلیٰ سے اُمیدیں کچھ زیادہ ہی باندھ دی ہیں۔
جیسا کہ اُمید کی جا رہی تھی، نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے خطاب سے پھر سے پیپلز پارٹی کے عوامی خمیر سے وابستگی کی یاد دلا دی ہے۔ ’’پیپلز پاور، پیپلز اتھارٹی اور پیپلز رُول‘‘۔ یعنی ’’عوامی طاقت، عوامی اختیار اور عوامی حکمرانی‘‘!!! یہ تو نظریاتی واپسی کا ایجنڈا ہے یعنی عوامی خدمت، عوامی آسودگی اور عوامی خوشحالی۔ بڑا ہی کٹھن دعویٰ ہے اور بڑا ہی مشکل امتحان۔ اپنی ترجیحات میں اُنھوں نے تعلیم، صحت اور امن کو سب سے افضل رکھا ہے۔ بُری حکمرانی کی جگہ اچھی حکومت، انتظامی ڈھانچے کی صفائی، میرٹ پہ بھرتیاں اور تعیناتیاں، بہتر امن و امان اور ایسی تبدیلی جو سب کو نظر آئے۔ تاکہ صاف ترین کراچی، سبزترین تھر اور محفوظ ترین سندھ تخلیق پا سکے اور اس کے لئے وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے پہ آمادہ نظر آئے۔ وقت کم ہے اور چیلنجز بڑے ہیں۔ ایک طرف عوامی فلاح کے ایجنڈے پہ سب سے بڑی رکاوٹ سندھی وڈیروں اور اُن کی لے پالک نوکر شاہی ہے اور دوسری جانب سندھ اور سندھ کے عوام کے دگرگوں حالات۔ پہلا امتحان تو یہی ہوگا کہ اُن کی کابینہ میں کتنے اچھے لوگ آتے ہیں اور اُن کا ماضی بھی داغدار نہیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پیپلز پارٹی کو اک نئی جلا بخش سکیں۔ کھوٹے سکوں کو مال خانے میں جمع کروانے یا پھر خود احتساب کے حوالے کرنے میں ہی فلاح ہے۔ پچھلی کابینہ میں بھی کچھ لوگ بہت عمدہ تھے جیسے سومرو صاحب اور نثار کھوڑو وغیرہ۔ ضروری نہیں کہ سب اضلاع کی نمائندگی کے چکر میں آپ بھان متی کا کنبہ جوڑ لیں اور کچھ کرنے جوگے نہ رہیں۔ کیوں نہ شہری آبادی سے پیپلز پارٹی کے گمشدہ ہیروں کو پھر سے آگے لایا جائے اور سندھ کا درد رکھنے والے ماہرین کی ایک ٹیم بنائی جائے جو مختلف شعبوں کا جائزہ لے کر برسرِ عمل ہو جائے۔ اچھے کام کریں گے تو اچھا تاثر بھی پیدا ہوگا۔ کچھ نہیں کر پائیں گے تو میڈیا میں ڈگڈگیاں اس بار کچھ زیادہ ہی بجیں گی کہ سائیں قائم علی شاہ کی شرافت کچھ کچھ آڑے آ جاتی تھی۔
چیف منسٹر مراد علی شاہ کے سامنے پہلے ہی روز رینجرز کے اختیارات اور آپریشن کے حوالے سے معاملہ پیش ہوگا۔ قائم علی شاہ کپتان ہوتے ہوئے بھی کپتان نہ بن سکے اور یوں جیسے تیسے معاملہ چلتا رہا اور رینجرز کا بھی اختیارات پر سندھ حکومت سے تنازع بڑھتا رہا۔ کراچی میں امن قریباً بحال ہو گیا ہے اور دہشت گردی، اغوا، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ سول انتظامیہ کی ذمہ داریاں بڑھا دی جائیں۔ پولیس اور انتظامیہ میں ضروری اکھاڑ پچھاڑ کر کے اچھی اور موثر حکومت کا بندوبست کیا جائے۔ تقریباً تین برس سے یہ آپریشن کامیابی سے جاری ہے، باوجودیکہ کئی اقدامات پربہت اعتراضات بھی ہوئے۔ اب وقت ہے اس کو باہم اعتماد سے لپیٹنے کا۔ پولیس کو موثر بنانے، مقدمات کی بہتر پیروی کا، اور ثمرات سمیٹنے کا۔ مراد علی شاہ کپتان بنیں اور اپیکس کمیٹی کی موثر رہنمائی کریں تو کریڈٹ بھی اُن کی حکومت کو جائے گا۔ کرپشن پر بھی کوئی کیوں خدائی فوجدار بنتا پھرے، آپ خود گندے انڈوں کو گندگی کی ٹوکری میں کیوں پھینک نہیں دیتے، اگر آپ کو پیپلز پارٹی کی بھٹو والی پارسائی کی بحالی کا کچھ بھی احساس ہے تو یہ کام مشکل نہیں ہوگا۔ کچھ ناراض ہوں گے تو بہت خوش بھی۔
بڑا مسئلہ جو اُنھیں درپیش ہوگا وہ ہے متحدہ قومی موومنٹ کو پھر سے قانونی اور جمہوری دھارے میں لایا جائے۔ اس کے بغیر شہری و دیہی فاصلے کم ہونے کو نہیں اور نہ ہی کراچی ہر طرح کے کچرے سے پاک ہو سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی ناپسندیدہ عناصر سے خود کو علیحدہ کرنا ہوگا اور اجلاف کی مارا ماری اور غنڈہ گردی سے توبہ اور اپنے اسلاف کی تہذیبی تجدید کی جانب پلٹنا ہوگا۔ اور پیپلز پارٹی کو سندھ کی دوسری جماعت کو ساتھ لینا ہوگا۔ اس کے لئے چیف منسٹر کو دوسرا بڑا قدم یہ اُٹھانا چاہئے کہ وہ مقامی حکومت کو مکمل اور موثر طور پر صرف بحال ہی نہ کریں بلکہ اسے حقیقی اختیارات و مالیات بھی فراہم کریں۔ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں تو پھر پیپلز پارٹی کو اس جانب زقند لگانے میں کیا امر مانع ہے۔ تمام وہ ادارے اور محکمے جو شہروں سے متعلق ہیں اُنھیں اندرونِ سندھ کے رجواڑوں کے حوالے کرنے سے کراچی کا جو حشر ہوا ہے، ہم سب کے سامنے ہے اور اُن کے ہوتے ہوئے بی بی بے نظیر کے ’’صاف ترین کراچی‘‘ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ کراچی کی پیپلز پارٹی میں بہت ہونہار لوگ ہیں جو شہری تقاضوں اور ضرورتوں کو سمجھتے ہیں۔ پھر اس میں دیر کیوں۔ ویسے بھی ایم کیو ایم کراچی و دیگر جگہوں پہ مقامی انتخابات جیت چکی ہے اور بطور جمہوریت پسند آپ کو اُن کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے، بجائے اس کے کہ آپ اُن میئر کو اندر رکھنے پر مصر رہیں۔ سلامتی کے اداروں سے بھی ایم کیو ایم کےبارے میںکسی واضح حکمتِ عملی کے سوال پر بات کرنی چاہئے۔
کافی لوگ جانتے ہیں کہ بطور وزیرِ خزانہ مراد علی شاہ نے کونسل آف کامن انٹریسٹس میں سندھ کا مالیاتی مقدمہ بڑی اہلیت سے لڑا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی منتقلی، مالیاتی کمیشن و دیگر وفاق/ صوبہ تعلقات کے معاملے میں چھوٹے صوبوں کو مراد علی شاہ سے اچھا وکیل کون ملے گا۔ وفاقی حکومت کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ پاکستان کو گریٹر پنجاب نہ بنائے۔ جتنی جگہ وہ پنجاب حکومت کو دیتے ہیں، دوسرے صوبے بھی اس کے مستحق ہیں۔ بلاول بھٹو نے اُنھیں صحیح مشورہ دیا ہے کہ غریبوں کی بھلائی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ اُن کی تعلیم، اُن کی صحت اور اُن کے روزگار کے لئے اُنھیں اپنی بجٹ ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ دائمی ترقی کا جو ایجنڈا اقوامِ متحدہ نے دیا ہے کیوں نہ سندھ اُس پر عمل درآمد سے دوسرے صوبوں کے لئے مثال بنے۔ اور اگر وزیراعلیٰ ہی کے حلقے میںاسپتال اورا سکول اپنی موجودہ حالت میں رہے تو پھر لوگ یہی کہیں گے کہ چہرہ بدلنے کے باوجود چال تو بے ڈھنگی ہی رہی۔ پیپلز پارٹی کو ترقی کی پارٹی بننا چاہئے اور اس کے لئے اس کی کایا پلٹ کی ضرورت ہوگی۔ کیا نوجوان بلاول بھٹو سماجی جمہوریت کے عوامی ایجنڈے کو پھر سے ترتیب دینے کے لئے تیار ہیں اور اُن کے نامزد وزیراعلیٰ اپنے دعوؤں پہ کتنا پورا اُترتے ہیں، یہ جلد ہی نظر آ جانا چاہئے۔ ورنہ اگلے انتخابات میں وہی ہوگا جو بلاول کی گھن گرج کے باوجود کشمیر میں ہوا۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں، کیا نئے وزیرِ اعلیٰ اور بلاول بھٹو اُن کی اُمیدوں پہ پورا اُتر سکتے ہیں۔ ہاتھ باندھے، انتظار میں ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کیا رنگ جماتے ہیں؟
تازہ ترین