• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مرتبہ پھر پاک بھارت تعلقات انتہائی نچلی سطح ہیں۔ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ریکارڈ کہتا ہے کہ پاکستانی وزیر ِ اعظم، نواز شریف نے ماضی کو دفن کرتے اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی، لیکن بھارتی وزیر ِ اعظم ، نریندر مودی نے اس پیش رفت کا اُسی جذبے سے جواب نہیں دیا۔ اب داخلی دبائو نے دونوں رہنمائوں کو سخت پوزیشن لینے پر مجبور کردیا ہے ۔ مسٹر شریف 2014 ء میں مسٹر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے چلے گئے کیونکہ وہ اچھے تعلقات کا غیر مشروط آغاز چاہتے تھے ، لیکن کشمیر پر غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے بھارتی سیکرٹری خارجہ نے خیر سگالی کا تمام ماحول خراب کردیا۔
اس سے حوصلہ نہ ہارتے ہوئے ، نواز شریف صاحب نے دفتر ِ خارجہ کو تمام اہم معاملات پر کسی پیشگی شرط کے بغیر بات چیت کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی، لیکن نریندر مودی نے ایک تنکے کا شہتیر بناڈالا، چنانچہ پاکستانی اور بھارتی وفود کی ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ اس کے بعد پاکستانی وزیر ِاعظم کی طرف سے تیسری کوشش اُس وقت دکھائی دی جب وہ روس کے شہر اوفا میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ملے اور دہلی وفد بھیجنے اور دہشت گردی سمیت تمام دوطرفہ معاملات پر بات چیت کرنے کی آمادگی ظاہر کی ۔ تاہم بھارتیوں نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کا کوئی بھی حوالہ استعمال کرنے سے انکار کردیا، چنانچہ میٹنگ ایک مرتبہ پھر منسوخ کردی گئی ۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی طرف سے لفظ ’’کشمیر‘‘ ادا ہوتے ہوئے بھارت کو دورہ سا پڑجاتا ہے ، چاہے پاکستانی وفد یہ لفظ صرف عوام کوخوش کرنے کے لئے ہی کیوں نہ ادا کررہا ہو۔ 2014 میں نریندر مودی جموں اور کشمیر میں انتخابی مہم چلا رہے تھے ، چنانچہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے ہندو قوم پرست ووٹر کسی طور پر بھی یہ تاثر لیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے موضوع پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں یا پاکستان کو حریت رہنمائوں سے بات کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر میں وحشیانہ ریاستی قوت استعمال کررہے ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ میڈیااُن کوکسی طور پر کشمیر پر نرم موقف اپناتے دیکھے۔ چنانچہ اسی طرح کشمیر کے انتخابات کے موقع پر نوازشریف صاحب بھی کشمیر میں ہونے والے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چپ نہیں رہ سکتے ۔
طرفین نے بعض کامیابی کے مواقع کو گنوا بھی دیا۔ 2015 میں پی سی بی اور بی سی سی آئی اس بات پر راضی ہوگئے تھے کہ نیوٹرل مقامات پر کرکٹ سیریز کھیلی جائے لیکن نریندر مودی نے اس پیش رفت کی اجازت نہ دی۔ اہم بات یہ کہ 2013 میں دور رس نتائج کا حامل تجارتی معاہدہ طے پانے جارہا تھا لیکن نریندر مودی مکر گئے ، حالانکہ انڈیا کا بہت دیر سے اصرار رہا ہے کہ تجارتی معاہدے قیام ِ امن کے لئے ضروری ہیں۔ اس دوران طرفین کے مخصوص مفادات بھی امن کی کوششوں کو پٹری سے اتاردیتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ ماضی کے برعکس انتہا پسند جہادی تنظیموں پر کڑ ا ہاتھ ڈال رہی ہے لیکن پھر کچھ جہادی عناصر موقع پا کر سرحد پار کرسکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پٹھان کوٹ میں پیش آنے والے واقعہ کا الزام بھی پاکستانی علاقے سے کارروائی کرنے والی کسی ایسی ہی تنظیم پر لگایا گیا۔ اس صورت ِحال کو ایک حل طلب مسئلہ سمجھ کر پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے اور پاکستانی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی یقین دہانیوں کے باوجود انڈیا نے اسے ’’جان بوجھ کر کی گئی اشتعال انگیزی‘‘ قرار دیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے پاس انڈیا کے ’’این ایس اے‘‘کی بنائی گئی ’’جارحانہ دفاع‘‘ کی ڈاکٹرائن کے کراچی اور ملک کے دیگر حصو ں میں فعال ہونے کی کافی شہادت موجود ہے ۔ اس صورت ِحال نے ملک کے ایسے عناصر کو شہہ دی ہے جن پر جنگی جنون سوار رہتا ہے ۔
کشمیر کے حالات خراب ہیں۔ ایک نئی شورش شروع ہوچکی ہے، اور بہت سے بھارتی مبصرین بھی تسلیم کرتے ہیں ا س میں کوئی بیرونی عوامل کارفرما نہیں ہیں۔ اس مرتبہ اس میں کشمیریوں کی نئی نسل شامل ہے جس نے بھارتی فوج کے جبر تلے آنکھ کھولی ہے ۔ کشمیر کا ایسا کوئی خاندان نہیں جس کا کوئی لڑکا، بھائی یا والد اپنے حقوق کی جدوجہد میں شہید نہ ہوچکا ہو۔ جب ماضی میں بھارتی فورسز احتجاجی مظاہرین پر گولی چلاتیں تو ہجوم چھٹ جاتا، لوگ فائرنگ سے بچنے کے لئے بھاگ جاتے تھے لیکن آج صورت ِ حال مختلف ہے۔ اب جب بھارتی فورسز فائرنگ کرتی ہیں تو لوگ اپنے گھروںسے نکل کر اُس طرف لپکتے ہیںاور فورسز پر سنگ باری شروع کردیتے ہیں۔اہم تبدیلی یہ کہ کل اُن کے ہیرو وہ مجاہد تھے جو پاکستان سے آئے تھے لیکن آج اُن کے ہیرو مقامی لڑکے، گرو اور وانی اور ان جیسے بہت سے دوسرے ہیں۔ کل اُن میں سے کچھ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے تھے، کچھ انڈیا کے ساتھ، آج وہ نہ انڈیا کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ، وہ دونوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ کل انڈیا میں ان کی با ت سننے والا کوئی نہ تھا، ارون دھتی رائے کے علاوہ بھی بہت سے اُن کی بات کرنے والے ہیں۔ کل انڈین میڈیا اپنی فورسز کے وحشیانہ جبر پر مکمل خاموش تھا، آج وہ وادی میں اجتماعی قبروں اور گولیوں سے چھلنی چہروں کی تصاویر نمایاں کرکے اپنی فورسز پر دبا ئو ڈال رہا ہے ۔ کل انٹر نیٹ عام نہیں تھا، آج ایک بدلی ہوئی دنیا ہے۔
کچھ عرصہ بعد دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل جائے گی۔ اس ہفتے انڈین ’’بی ایس ایف ‘‘ کا ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان رینجرز کے ساتھ سرحدی معاملات پر گفتگو کرنے آیا۔ ہمیں یقین ہے کہ مذاکرات کرنے کی بھی بات ہوگی ۔ کشمیر میں شورش بھی تھم جائے ،اشتعال خاموش غصے کی صورت دل میں دب جائے گا ، لیکن جلد ہی یہ لاوہ پھر پھٹ پڑے گا۔ بر ِ صغیر کا یہی سب سے تکلیف دہ المیہ ہے ۔
تازہ ترین