• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان صدارتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ پہلے کی بہ نسبت زیادہ مشکل رہنے کی توقع ہے۔ افغانستان رائے شماری کے دوسرے مرحلے کے لئے تیار ہو رہا ہے، ایسے میں تین خطرات منڈلا رہے ہیں۔ تشدد، نسلی تفریق ، جس سے پہلا مرحلہ کافی حد تک محفوظ رہا تھا اور ہار جیت کا فرق بہت معمولی ہونے کی صورت میں نتائج کا متنازع ہونا۔
دوسرا مرحلہ اس لئے ضروری قرار پایا کہ 5 اپریل کے الیکشن میں صف اول کے دونوں امیدواروں میں سے کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکا تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو 45 فیصد جب کہ اشرف غنی کو 31.6 فیصد ووٹ ملے۔الیکشن کا دوسرا مرحلہ 14 جون کو ہوگا۔ امید کرتے ہیں کہ یہ مرحلہ بھی 5 اپریل کو ہونے والے پہلے مرحلے کی طرح نسبتاً پرامن رہے لیکن اسے طالبان کی شروع کردہ سالانہ موسم بہار یا موسم گرما حملوں کی مہم سے سخت سیکورٹی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ عین لڑائی کے عالم میں ہونے والی رائے شماری افغان فورسز کی صلاحیتوں کا ایک امتحان ہوگی امن و امان قائم رکھنے میں اور ایک ایسا ماحول بنانے میں جس میں لوگ ووٹ دینے سے نہ رکیں۔
8 مئی کو اپنی نئی مہم خیبر کا اعلان کرتے ہوئے طالبان نے افغان و ایساف فورسز اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان پولنگ کے دن کو بڑے پیمانے پر تہہ و بالا کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 5 اپریل کو ہونے والی پولنگ میں طالبان خلل ڈالنے میں ناکام رہے جس کے بعد اس بات پر کافی بحث چل رہی ہے کہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان عسکری طور پر کمزور ہوگئے یا پھر لوگوں کے متنفر ہونے کے خوف سے انہوں نے دانستہ سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنایا۔کیا طالبان ایسے انتخابی عمل میں اپنی بندوقوں کو خاموش رکھنا چاہتے تھے جس میں زیادہ افغان شہری حصہ لینے کے خواہشمند تھے؟ یا پھر انہوں نے نظریۂ ضرورت کے تحت خود کو ایک ناقابل حصول مقصد کے پیچھے لگنے سے روکے رکھا؟
اس سوال کا شاید فی الحال کوئی واضح جواب موجود نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ عین لڑائی کے موسم میں افغان سیکورٹی فورسز کو تشدد سے پاک ماحول یقینی بنانے کے لئے پوری جان لگانا پڑے گی۔ افغان حکام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ پولنگ کے دن امن و امان کی مجموعی صورت حال برقرار رہے گی لیکن مستقبل کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ الیکشن کے دوسرے مرحلے تک آئندہ دو ہفتوں کے دوران حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ دوسرا خطرہ نسلی تفریق ہے۔ الیکشن میں عبداللہ کا سامنا ہےاشرف غنی سے جو پشتون ہیں جب کہ عبداللہ کو تاجک سمجھا جاتا ہے اگرچہ وہ آدھے پشتون ہیں۔ پہلے مرحلے کا ایک بہت حوصلہ افزا پہلو امیدواروں کی مہماتی حکمت عملی تھی بشمول نائب امیدواروں کا انتخاب نسلی تقسیم سے بالاتر ہوکر کیا گیا۔ کیا دوسرے مرحلے میں بھی یہی رجحان برقرار رہے گا؟ یا پھر اس میں نسلی تفریق در آئے گی؟
فی الوقت بین النسل مخاصمت کی وجہ سے ایک نسلی گروہ کے نمایاں رہنماؤں کی جانب سے دوسری نسلی برادری سے تعلق رکھنے والے امیدوار کی حمایت کی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے نسلی اختلافات کو دھندلا کرنے میں مدد ملی ہے۔ مثال کے طور پر صدارتی امیدوار زلمے رسول زاد اپریل کے الیکشن میں تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبداللہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے جب کہ احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیاء مسعود نے اشرف غنی کی حمایت کی ہے۔ کیا یہ متقاطع نسلی اتحاد آگے چل کے نسلی تفریق کو کم کر پائیں گے جو بدستور دکھائی دے رہی ہے۔ پریشان کن صورت حال میں ایک اور خطرہ درپیش ہے جس کا اس وقت سامنا کرنا پڑسکتا ہے جب دوسرے مرحلے کے نتائج کا فرق بہت معمولی ہو۔ اس کے نتیجے میں ہارنے والا امیدوار الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے کے بعد دونوں سرکردہ امیدواروں نے بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کے دھڑے پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اگرچہ دوسرے مرحلے میں پہنچنے کی وجہ سے دونوں کو اسے مسئلہ بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک خبر رساں ادارے کے مطابق کابل کی ایک سروے تنظیم کی جانب سے کرائے گئے رائے عامہ کے جائزے میں پتہ چلا کہ اگر دوسرے مرحلے میں نسلی اور علاقائی اختلافات کارفرما رہے تو نتائج کا فرق بہت معمولی ہوسکتا ہے۔اگر دوسرے مرحلے میں ثبوت کے ساتھ دھاندلی کے الزامات سامنے آئے تو اس سے تنازع کھڑا ہوجائے گا، الیکشن کی ساکھ ختم ہوجائے گی اور نئی حکومت اس قانونی حیثیت سے محروم رہ جائے گی جس کی اسے کافی ضرورت ہے۔ اس طرح کا تلخ ماحول بمشکل ہی افغانستان کے بعد از 2014 استحکام کی بنیاد بن پائے گا۔
پاکستان میں امید تو یہی کی جارہی ہے کہ ایسا نہ ہو اور دیگر دونوں چیلنجوں پر بھی قابو پالیا جائے لیکن اس عرصے میں اسلام آباد کا کیا کردار ہوگا؟ پہلے مرحلے سے قبل اور اس کے انعقاد کے دوران کابل کی درخواست پر پاکستان نے سرحد پر حفاظتی انتظامات سخت کردیئے تھے، ووٹ دینے کا حق رکھنے والوں کو جانے دینے کے لئے دو سرحدی راہداریاں کھلی رکھی تھیں اور اپنے عوامی پیغامات میں افغانستان میں جمہوری انتقال اقتدار کی حمایت کی تھی۔جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں کابل کا دورہ کیا تو افغان حکام نے اس تعاون کا اعتراف بھی کیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں بھی پاکستان کی جانب سے دوبارہ اسی طرح کے اقدامات کی توقع ہے اور ایسا کرنے میں اسے کوئی مشکل بھی نہیں آنی چاہئے۔ لیکن اگر 14 جون سے آگے کی بات کریں اور فرض کریں کہ دوسرا مرحلہ بحسن و خوبی مکمل ہوجاتا ہے تو ایک نئی آزاد منتخب حکومت کے پاس سیاسی مفاہمت اور مصالحت پیدا کرنے کے لئے بین الافغان مکالمہ شروع کرنے کا ایک نیا موقع ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کے ذریعے دسمبر 2014 سے قبل لڑائی کا خاتمہ کیا جائے جب زیادہ تر نیٹو لڑاکا دستوں نے افغانستان سے نکل جانا ہے۔ اگرچہ تب تک کافی پیشرفت کرنے کے لئے وقت بہت مختصر ہوگا کیونکہ نئی حکومت صرف اگست میں ہی زمام کار سنبھال پائے گی لیکن اس سلسلے میں کوششیں کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے مسلسل اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ایک کامیاب سیاسی انتقال اقتدار صرف ایسے صدارتی الیکشن سے ہی ممکن نہیں جس کے نتائج بڑے پیمانے پر قانونی تسلیم کر لئے جائیں بلکہ اس کے لئے مسلح حزب اختلاف طالبان سے امن مذاکرات بھی ضروری ہیں تاکہ لڑائی ختم ہو۔ یہ کام بنیادی طور پر خود افغان فریقین کے کرنے کا ہے لیکن علاقائی اور بین الاقوامی عناصر بھی مفاہمت کے فروغ کے لئے کام کرسکتے ہیں۔ جو منظر نامہ سب کے مفاد میں ہے وہ یہ کہ ایسی صورت حال سے بچا جائے جس میں لڑائی جاری رہے جس سے افغانستان اور خطے کا استحکام خطرے میں پڑجائے۔ اس کا کافی حد تک امکان لگ رہا ہے کہ نیٹو کے انخلاء کے بعد پورا ملک تو دور طالبان کابل پر بھی قبضہ نہیں کرپائیں گے ۔
لیکن اس کا تو کوئی امکان نہیں کہ سرکاری فورسز پورے افغانستان بالخصوص جنوب اور مشرقی علاقے کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ایک خطرناک اور ہٹ دھرم تعطل پیدا ہو سکتا ہے جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کی سلامتی اور افغانستان کے استحکام کے لئے بھی خطرے کا باعث بنا رہے گا۔اس صورت حال سے بچنے کے لئے نئی افغان حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان افغان امن کوششوں کی حمایت و حوصلہ افزائی کرنا چاہے گا، بلکہ امریکہ و نیٹو بھی جلد از جلد باہمی سیکورٹی معاہدہ کرنے کو ترجیح دیں گے جس کے ذریعے وہ 2014 کے بعد ملک میں مغربی عسکری موجودگی کو برقرار رکھ سکیں گے۔ مستقبل قریب میں امریکہ شاید ایسی امن کوششوں میں زیادہ دلچسپی نہ لے لیکن پاکستان کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ آگے بڑھ کر افغان زیر قیادت سیاسی عمل میں معاونت کرے جس میں طالبان کابل کی طرف دیکھیں اور اپنی توجہ و توانائی عسکری سے سفارتی کوششوں کی طرف منتقل کرنا شروع کریں۔اگلے چند ماہ میں اپنی سرحدوں کے اندر عسکریت پسندی کو شکست دینے کے لئے پاکستان کا ایک اہم تذویراتی ہدف افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان تعلق کو کاٹنا ہوگا۔ ظاہری وجوہات کے سبب ایساف کے انخلاء سے قبل اس ہدف کو حاصل کرنے کے زیادہ امکانات ہوں گے کیونکہ انخلاء کے بعد نہ صرف پاکستان سے منسلک سرحدی علاقوں میں سیکورٹی خلاء پیدا ہونے کا بڑا خدشہ ہو گا بلکہ سرحد کے دونوں جانب محفوظ پناہ گاہیں بننے کا خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگے گا۔ اسی وجہ سے فوجی حکام طویل عرصے سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ دسمبر سے کافی پہلے اور ستمبر 2014 سے قبل شمالی وزیرستان میں کارروائی بہت ضروری ہے، جب نیٹو اپنے بچے کھچے لڑاکا دستوں کےانخلاء کا سلسلہ شروع کرے گا۔مستقبل میں بہت پیچیدہ علاقائی منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے، افغان الیکشن کے دوسرے مرحلے کا پرسکون و ہموار انعقاد ان کئی منتقلیوں میں ایک اہم پہلا قدم ہوگا جن سے آئندہ 6 ماہ کے دوران افغانستان کو گزرنا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں دوبارہ ماضی والی طوائف الملوکی کو پیدا ہونے سے روکنا چاہتے ہیں جس نے اس ملک اور اس کے پڑوسیوں کو پہلے بھی بہت پریشان کیا تھا لیکن اس کے لئے انہیں اپنی حکمت عملیوں کو بہت باہم مربوط کرنے کی ضرورت ہوگی، باالخصوص نئی افغان حکومت اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ 2014 کے بعد امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لئے عدم مداخلت کے اصول پر علاقائی اتفاق رائے بھی بہت اہم ہوگا۔ یہ کام کافی مشکل لگتا ہے لیکن اس کے متبادل کا تصور بھی بہت ہولناک ہے۔ مزید لڑائی، سرحد پر زیادہ عدم استحکام، عسکری قوتوں کی مضبوطی اور علاقائی انتشار کا آسیب۔
تازہ ترین