• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی منظر پر بیک وقت بہت سے معاملات چل رہے ہیں۔ اپنے اجتماعی مزاج کے عین مطابق ہم ایک معاملہ اٹھا کر اچھی طرح روندتے ہیں۔ ہماری گرم گفتاری سے ڈور کا گچھا خوب الجھ جاتا ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسے حل کرنا ہمارے بس میں نہیں تو ہم یہ بھاری پتھر نیچے رکھ دیتے ہیں اور چولہے میں ہاتھ ڈال کر نیاانگارہ نکال لیتے ہیں۔ انگلیاں جلنے لگتی ہیں تو اس سے جان چھڑانے کے لئے کوئی اور فتنہ پال لیتے ہیں۔ مرحوم عبداللہ ملک کے محاورے میں ’’لطف کی بات یہ ہے‘‘ کہ ان تمام معاملات میں نقطۂ اشتراک صرف یہ ہے کہ ہماری اجتماعی سمت میں یکسوئی موجود نہیں۔ چند روز میں اگلے مالی سال کا بجٹ آیا چاہتا ہے۔ اس سنجیدہ قومی سرگرمی کے ضمن میں ہمارے ہاں ذمہ دارانہ اور باخبر بحث مباحثے کی روایت نہیں۔ ہم بجٹ جیسے معاشی معاملے کو بھی غیر اقتصادی استدلال کی چھڑی سے ہانکتے ہیں۔ مہنگائی کا رونا روئیں گے لیکن لوگوں کی قوت خرید میں بہتری کے کسی نسخے کا ذکر نہیں ہو گا۔ حکومت کو غریب دشمن اور بے حس قرار دیا جائے گا۔ حساب نکالا جائے گا کہ ایک وزیر پر قوم کو ہر روز کتنا پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے، ایک رکن پارلیمنٹ پر ماہانہ کتنی لاگت آئے گی۔ یہ بھی طے ہے کہ حکومت بالواسطہ ٹیکسوں پر زور برقرار رکھے گی۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو گا۔ منو بھائی ٹیڈ گرانٹ کے کسی تجزیئے کی روشنی میں ثابت کریں گے کہ پاکستان کا بجٹ گزشتہ سال دسمبر میں جزیرہ ہوائی کے ایک پراسرار بنگلے میں عالمی سرمایہ داروں نے منظور کیا تھا۔
اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ہماری فوج اپنے بجٹ کے ضمن میں تشویش محسوس کر رہی ہے۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آئندہ برس قومی مالیاتی ایوارڈ کا فیصلہ ہونا ہے جس میں صوبوں کا حصہ موجودہ 57 فیصد سے بڑھنے کا امکان ہے۔ اس صورت میں آئندہ برسوں کے دوران دفاعی بجٹ کے حجم پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پہلی خبر تو سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس سے آئی جہاں بتایا گیا کہ خطے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ کم ترین سطح پر ہے۔
اس کے بعد ایک سیمینار میں سابق اعلیٰ افسروں نے دفاعی بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس دوران انگریزی اخبارات میں دفاعی تجزیہ کاروں نے اعداد و شمار کی مدد سے دفاعی اخراجات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اس بحث مباحثے کا مجموعی ڈھنگ کچھ ایسا رہا گویا سیاسی قوتیں اور غیر عسکری ادارے دفاعی بجٹ کے مخالف ہیں یا پاکستان میں کچھ ایسی سوچ پائی جاتی ہے کہ فوج کو کمزور کرنے کے لئے دفاعی بجٹ کو کم کرنا چاہئے۔ عرض کرنا چاہئے کہ یہ تاثر درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں پاکستانی فوج کی بہترین دوست ہیں۔ ہمارے خطے کی صورت حال ایسی نہیں کہ دفاعی بجٹ میں کمی کی خواہش کو حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکے۔ پاکستان کی کسی سیاسی حکومت نے کبھی فوج کے بجٹ کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ملکی اخراجات میں دفاع کا تناسب کم ہونے کا رجحان 70ء کی دہائی کے آخری برسوں میں شروع ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے قرضوں کی واپسی کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ اس بحث کا یہاں موقع نہیں کہ یہ قرضے فوجی تھے یا ترقیاتی۔ اصل بات یہ ہے کہ قرضوں کی واپسی سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ جمہوری سوچ ملکی دفاع کے بارے میں حساس نہیں۔ جمہوری نظام قومی دفاع کی بہترین ضمانت دیتا ہے۔ گزشتہ سو برس میں کوئی ایسی جنگ نہیں جہاں کسی فوجی آمریت نے کسی جمہوری قوم کو شکست دی ہو۔ پاکستان میں جمہوری قوتوں کی جدوجہد سیاسی نظام میں مداخلت کرنے والے طالع آزمائوں کے خلاف رہی ہے اور ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ان طالع آزمائوں کے ہاتھوں ملک ہی کمزور نہیں ہوا ہماری فوج کی نیک نامی کو بھی دھچکا پہنچا ہے۔ ان طالع آزمائوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ایسی پالیسیاں شروع کیں جن سے ملک دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ دیکھئے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 5.7 ارب ڈالر ہے جب کہ بھارت کا دفاعی بجٹ 37.3ارب ڈالر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پہاڑ کیسے سر کیا جائے؟ اس ضمن میں دو متعلقہ معاشی حقیقتوں پر بھی نظر ڈالئے۔ سال 2012ء میں پاکستان کی کلی داخلی پیداوار (GDP) 215ارب ڈالر تھی جب کہ اس برس بھارت کی کلی داخلی پیداوار 1875 ارب ڈالر تھی۔ مئی 2014ء میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 11.4ارب ڈالر تھے جب کہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 315ارب ڈالر تھے۔ معاشیات کا ایک معمولی طالب علم بھی بتا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے مجموعی معاشی اشاریوں میں ایسے فرق کی موجودگی میں دفاعی اخراجات میں مسابقت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان کا مجموعی معاشی حجم بڑھایا جائے یعنی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے۔ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ پیداوار ،تجارت اور سرمایہ کاری کے یہ مرحلے داخلی امن و امان کو یقینی بنائے بغیر طے نہیں کیے جا سکتے۔
پاکستان کی بڑی سیاسی قوتوں میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہمیں افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات قائم کرنا چاہئیں۔ ہمیں بھارت کے ساتھ تنازعات پر قومی مؤقف میں کوئی تبدیلی کئے بغیر ایسی فضا قائم کرنی چاہئے جس میں ہماری معاشی سرگرمی ان تنازعات کی یرغمال ہو کر نہ رہ جائے اور تیسرا یہ کہ ہمیں اس سوچ کو ترک کر دینا چاہئے کہ نان اسٹیک ایکٹرز پاکستان کے قومی مفادات کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ آخری نکتہ یہ کہ ہمیں ایک انسان دوست اور روادار معاشرتی نمونے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی اجتماعی ترجیحات میں یہ تبدیلیاں لاتے ہیں تو ہمارے معاشی کیک کا حجم بڑھ جاتا ہے اور ناگزیر طور پر دفاعی اخراجات کے لئے ہمارے وسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ موجودہ صورت میں ہم سب بھوکوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹتے رہیں گے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں کو جمہوری قوتوں سے نہیں بلکہ معاشی جمود سے خطرات لاحق ہیں۔
آئیے،استاد محترم عارف وقار کی زبانی ایک روایت سنتے ہیں۔ 80ء کی دہائی کے ابتدائی برس تھے۔کنور آفتاب احمد پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سینٹر کے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔ شنید تھی کہ انہیں لاہور سینٹر کے معاملات سدھارنے کے لئے سختی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کنور آفتاب نے ایک دو روز دھمکیوں کی مدد سے درجہ چہارم کے ملازمین کا پتہ پانی کر لیا تو ظہور بھائی کو بلا بھیجا۔ ظہور بھائی اسکرپٹ ایڈیٹر تھے، اودھ کی تہذیب کا ٹکسالی نمونہ۔ عشروں کی ملازمت میں افسران بالا کے سامنے بچھ بچھ جانے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ کنور آفتاب نے گرج کر کہا’’لاہور میں ایک سے ایک اچھا لکھنے والا موجود ہے لیکن کراچی سینٹر نے اچھے ڈراموں سے دھوم مچا رکھی ہے۔ یہ سب آپ کی نااہلی ہے۔ جائیے اور لاہور کے اچھے لکھنے والوں سے رابطہ کیجئے۔ احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، اشفاق احمد، بانو قدسیہ ، منو بھائی اور امجد اسلام سے لکھوائیے۔ ایک ہفتے بعد ٹھیک اسی وقت مجھے رپورٹ کیجئے اور سنئے میں …چشتی کا نام نہیں سننا چاہتا‘‘۔ چشتی صاحب ایک قلم گھسیٹ اسکرپٹ رائٹر تھے جو میلہ مویشیاں سے لے کر بھل صفائی تک کسی بھی موضوع پر حسب فرمائش کاغذ سیاہ کرنے کی صلاحیت فراواں رکھتے تھے۔ ایک ہفتے بعد ظہور بھائی حسب حکم حاضر ہو گئے۔
کاغذوں کا پلندہ بغل میں دبا رکھا تھا۔ کنور آفتاب نے استفہامیہ انداز میں نظریں اٹھائیں۔ ظہور بھائی نے رپورٹ دیتے ہوئے کہا۔ حضور، قاسمی صاحب فنون کے خاص نمبر میں مصروف ہیں۔ انتظار صاحب ہندوستان گئے ہیں۔ بانو آپا سے بات ہو گئی۔ اشفاق صاحب سے وہ خود ہی بات کریں گی۔ منو بھائی نے وعدہ کر لیا ہے۔ امجد اسلام امجد لکھ رہے ہیں۔ کنور آفتاب نے بھنا کر پوچھا تو یہ بغل میں کیا اٹھا رکھا ہے آپ نے۔ ظہور بھائی نے لہک کر کہا ’’حضور … چشتی صاحب کے چھ اسکرپٹ حاضر ہیں‘‘ ۔ تو صاحب! ڈرامہ نگار تو پاکستان میں ایک سے ایک بڑھیا موجود ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ظہور بھائی ہمارے لئے ’’لندن پلان‘‘ کے عنوان سے …چشتی کا گھسا پٹا اسکرپٹ اٹھا لاتے ہیں۔
تازہ ترین