• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز کی بات ہے کہ ڈیفنس کے علاقے کے ایک بڑے سٹور پر ہم کچھ خریداری کررہے تھے کہ ایک چار پانچ سالہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ آیا۔ دونوں پاکستانی تھے ماں سیلز مین سے تو اردو میں بات کررہی تھی اور اپنے بچے سے انگریزی میں اسی اثناء میں باپ بھی آگیا وہ بھی پاکستانی تھا۔ اس نے بھی بیٹے سے انگریزی میں بات کی اور بیوی سے کہا کہ بچے کو ایسی جگہ پر مت لایا کرو جہاں پر لوگ اردو اور پنجابی میں بات کررہے ہوں۔ اس سے بچے کی زبان خراب ہو جائے گی۔ یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ آج کے ماں باپ جن کے بڑوں نے پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا ہوگا آج وہ اپنے بچوں کو قومی زبان بھی سیکھنے سے منع کررہے ہیں۔
یہ بڑی افسوس ناک اور تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں خصوصاً پنجاب میں اردو یا پنجابی زبان میں بات کرنے والے کو کم تعلیم یافتہ اور کم تر کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سندھ میں لوگ سندھی، کے پی کے میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی بڑے فخر سے بولتے ہیں۔
کیا تحریک پاکستان کے جلسے، جلوس، کارنر میٹنگیں انگریزی بول کر کامیاب ہوئی تھیں یا اردو بول کر اور علاقائی زبانوں میں بات کر کے۔ قائداعظمؒ نے بھی خود ایک موقعے پر فرمایا تھا کہ ’’میں اردو کی خدمت کو قوم کی خدمت سمجھتا ہوں۔‘‘آج ہمارے ملک کا کلچرل ہی بدل چکا ہے۔ ہر شخص انگریزی سے متاثر ہے اور اسے سیکھنا چاہتا ہے۔ کیا چین، فرانس، جرمنی، کوریا، ہالینڈ اور عرب ممالک نے انگریزی زبان میںاپنے ہاں تعلیم و تربیت دی تھی! آج پوری دنیا کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں کوئی دوائی، میک اپ کا سامان اور الیکٹرانک کا سامان تیار کرتی ہیں تو انگریزی کے ساتھ عربی زبان میں لکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ عرب ممالک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ جاپان، چین، ایران، عرب ممالک اور دیگر ممالک کے جب حکمران ہمارے ہاں آتے ہیں تو اپنی زبان میں بات کرتے ہیں، مترجم اس کا ترجمہ کر کے سنا دیتا ہے۔
حال ہی میں یونیسکو کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ جس کے مطابق اردو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی زبان اور تیسری بڑی لکھی جانے والی زبان ہے اور ہم اپنے ملک سے اردو کو دیس نکالا کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے پورے ایجوکیشن سسٹم پرحاوی دو بہنیں جن کے مجموعی طور پر پانچ سو کے قریب اسکول ہیں ان کے اسکولوں میں اردو بولنا، اردو لکھنا بالکل منع ہے بلکہ ایک ایسا بھی اسکول ہے جہاں پر طالب علموں کو سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ وہ اردو میں بات چیت نہیں کرسکتیں۔ پاکستان کو پچھلے 67 برسوں میں جو بہترین ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین، ویٹرنری ڈاکٹرز، زراعت کے ماہرین ملے ان کی 95 فیصد اکثریت اردو میڈیم اسکولوں کی تعلیم یافتہ تھی۔ ان اردو میڈیم اسکولوں کے فارغ التحصیل نے پاکستان کے ہر شعبہ ٔہائے زندگی میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ کتنی دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان میںحال ہی میں مختلف یونیورسٹیوں میں اردو کا سو سالہ جشن منایا گیا اور ہمارے ملک میں بے چارے بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو کے فروغ اور ترقی کے لئے لڑتےلڑتے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جاپان میں اردو کے فروغ کے لئے وہاں کی تین یونیورسٹیوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں اردو ڈیپارٹمنٹ قائم ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ اوساکا یونیورسٹی DAITOBUMKA یونیورسٹی اور ٹوکیو یونیورسٹی۔ وہاں پر کئی جاپانی پروفیسروں نے اردو میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے اور جاپان سے بھی پنجاب یونیورسٹی کے اورنٹینل کالج میں وقتاً فوقتاً سٹوڈنٹس ایم اے اردو کرنے آتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جاپانی لوگ اردو سے 1663ء میں متعارف ہو چکے تھے۔ کیونکہ دیت نام سے ناگاساکی جو بحری جہاز آتے تھے ان میں ایک جہاز کا کپتان مسلمان تھا اور اردو پر عبور رکھتا تھا۔ آج جاپان کے مختلف کالجوں اور اکیڈیمیوں میں بی اے اور ایم اے کی سطح پر اردو پڑھائی جارہی ہے۔ گورے بہادر کے دیس لندن یونیورسٹی سے کئی لوگوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ 1973ء کے آئین میں تحریر ہے کہ 14 اگست 1988ء تک پورے ملک میں نفاذ اردو کا کام مکمل ہو جانا چاہئے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ 1988ء بھی گزر گیا۔ 1998ء بھی گزر گیا اور 2008ء بھی گزر گیا مگراس ملک میں آج 2014 ء تک اردو کا نفاذ نہ ہوسکا۔ آئین کی دفعہ 251 کی ذیلی شق (1)کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہےاور دستور کے یوم نفاذ 14 اگست 1973ء سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ ذیلی شق نمبر (۲) کے تحت انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری امور کے لئے استعمال کی جاسکے گی۔ (14اگست 1988ء) جب تک کہ اس کو اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں جبکہ ذیلی شق نمبر 3 قرار دیتی ہے کہ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی قانون سازی کے ذریعے اردو کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم و ترقی اور اس کے استعمال کے اقدامات کو تجویز کرسکے گی۔ اس میں کہیں انگریزی کو لازمی کرنے کی بات نہیں کی گئی۔ مگر افسوس کہ حکومت تعلیمی اداروں میں انگریزی کو لازمی کرنے پر زور دے رہی ہے اور حکم دے رہی ہے آئین کی دفعہ 251 پرعمل درآمد کرانا حکومت کا فرض ہے۔
اگر غور کیا جائے تو تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت آئین پاکستان کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کسی نہ کسی طور لوگ اردو کو سمجھ اور بول لیتے ہیں حتیٰ کہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بھی ایک زمانے تک اردو بولی اور سمجھی جاتی تھی بلکہ آج بھی وہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ کئی اردو فلمیں مشرقی پاکستان کی فلم انڈسٹری نے دی ہیں۔اس وقت عدالتوں میں اور تمام سرکاری محکموں میں خط و کتابت انگریزی میں کی جاتی ہے۔ اگر عدالتوں کا سارا نظام اردو میں کردیا جائے تو اس سے کم از کم وہ شہری جو کم تعلیم یافتہ ہیں وہ خود بھی اپنے کیس کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھ سکتے ہیں، پھر سرکاری محکموں میں جو نوٹ فائلوں پر لکھے جاتے ہیں اگر انہیں اردو میں لکھا جائے گا تو کیا اس سے ملکی ترقی کا دھارا رک جائے گا؟ کیا پاکستان ترقی نہیں کرے گا، جن قوموں اور ممالک نے آج ترقی کی منازل طے کر لی ہیں وہ تمام کے تمام صرف اور صرف اسی وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اپنی زبان میں تعلیم دی۔ اگر حکومت شرح خواندگی بڑھانا چاہتی ہے اور تعلیم عام کرنا چاہتی ہے تو انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کرنا ہوگی اگر آپ نے لازمی زبان کرنی ہے تو پھر رب العزت کی زبان عربی کو لازمی کریں۔ کیونکہ اللہ تعالی، رسولؐ اور اسلا م کے تمام احکامات عربی زبان میں ہیں۔
انگریزوں نے برصغیر میں قدم جمانے کے لئے اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے کام کیا اور فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ 1918ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد (دکن) اردو زبان کو بطور ذریعہ تعلیم بنایا تھا۔ انجینئرنگ، آرٹس حتیٰ کہ سائنس کے مضامین اور کئی دوسرے علوم کی تعلیم ایم اے اور ایم ایس سی اردو میں بھی پڑھائے جاتےتھے۔ اسی طرح جب عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو میں ایم بی بی ایس کرایا گیا۔ یہ بات ہے 1935ء کی ہے تو اس وقت کی میڈیکل جنرل کونسل نے اردو میں ایم بی بی ایس کرنے والے طلباء کی قابلیت کا پوری طرح جائزہ لینے کے بعد رپورٹ دی۔ ’’اگر میڈیکل کی تعلیم ولایت، جرمنی، ہالینڈ، فرانس اور کئی دیگر ممالک میں ان کی اپنی اپنی زبانوں میں دے سکتے ہیں تو بلاشبہ اردو میں بھی ممکن ہے جیسا کہ اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل میڈیکل گریجویٹ ثابت کرسکتے ہیں‘‘۔
اوساکا (جاپان) میں 1922ء اور ٹوکیو میں 1945ء سے اردوپڑھائی جارہی ہے۔ 1935ء میں برٹش میڈیکل کونسل نے اردو ایم بی بی ایس کرنے والوں کو برطانیہ میں براہ راست ایف ا و سی ایس کا امتحان دینے کی اجازت دی تھی اور 1807ء میں کلکتہ میڈیکل اسکول میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ 1859ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور 1860ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم و تدریس شروع کی گئی۔
بھارتی پنجاب کے ایک انجینئرنگ کالج میں 1935ء میں انجینئرنگ کی تعلیم اردو میں تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے 75/100 برس قبل میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم اردو میں تھی تو آج کیوں نہیں؟ آج تو ہمارے پاس بہترین مترجم کے ادارے اور لوگ بھی آچکے ہیں۔
تازہ ترین