• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیال موڑ سے رکن اسمبلی راناجمیل حسن کا اغوا، لاہور میں فرزانہ بی بی کا سرعام قتل اور راولپنڈی میں ایک خاتون کی اپنے معصوم بچوں کو قتل کر کے خودکشی اس مرض کی علامات ہیں جو پاکستانی معاشرے کو لاحق ہے مگر کوئی اس مرض کی ماہیت، وجہ اور سنگینی کا ادراک کرنے پر تیار نہیں۔
پرانے زمانے میں کسی ریاست اور حکومت کی قابل رشک کار گزاری کا واحد پیمانہ امن و امان کی مثالی صورتحال ہوا کرتا تھا، شہریوں کی جان و مال، عزت آبرو کا مکمل تحفظ، مہذب دنیا اب بھی معاشرے اور ملک کو اسی پیمانے سے جانچتی ہے اورمیری طرح کے قدامت پسند بھی۔ اسی بنا پر ہمارے بڑے بوڑھے انگریز عہد کو یاد کرتے اورتاریخ کی کتابوں میں چند سال تک حکمرانی کرنے والے شیر شاہ سوری کا ذکر سنہرے حروف میں ملتا ہے جسے صدیوں تک حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہ بھی کھرچ نہ کرسکے مگر ہمارے ہاںبہترین حکمران وہ ہے جو ملک کے ایک دو شہروں میں فلائی اوورز، انڈر پاسز، میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کا ڈھیرلگا دے اور کراچی سے پشاور تک ٹرین بروقت پہنچے نہ پہنچے موٹر وے بنا دے۔
وسائل کا رونا رویا جاتا ہے، آبادی میں اضافے پر اظہار تشویش ہوتا ہے اور شہریوں میں شعور کی کمی کا پروپیگنڈا بھی مگر صرف تعلیم، صحت اورامن و امان کے حوالے سے ریاستی و حکومتی ذمہ داریوں کے ذکر پر کوئی پوچھنے والا جو نہیں کہ نوجوانوں کو قرضوں کی لت لگانے کے لیے وسائل ہیںکھربوں روپے کے ایسے منصوبوں کے لیے بھی جن کے بغیر قوم گزارا کرسکتی ہے مگر موجودہ طبی و تعلیمی سہولتیں بہتر بنانے کے لیے وسائل ہیں نہ پولیس و سراغ رساں اداروں کی کارگزاری کو قومی ضرورتوں کے مطابق معیاری بنانے کے لیے فنڈز، شیر شاہ سوری نے ہندوستان، ملاعمر نے افغانستان اور شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب میں جب ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا تو زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر تھے نہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کے پاس لینڈ کروزر اور دوسری مہنگی گاڑیاں اور نہ سراغ رسانی کے لیے جدید ترین آلات۔ بے سروسامانی کے عالم میں یہ کارنامے محض درست ترجیحات اور عزم مصمم کی بدولت انجام پائے۔
دنیا کے کامیاب حکمرانوں نے جرائم پیشہ افراد اور مافیاز کے حوالے سے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی۔ مظلوم سے ہمدردی اور ظالم سے سخت گیری کا اصول نافذ کیا اور اس حقیقت کا ادراک کیا کہ جرم چھوٹاہو یا بڑا ریاست اور عمال ریاست کی کمزوری سہل کوشی، غفلت، ملی بھگت اور ناانصافی سے پروان چڑھتا اور مجرموں کے علاوہ ان کے سرپرستوں کی بروقت سرکوبی سے دم توڑ دیتا ہے۔ ترقی و خوشحالی، جرائم سے بڑی حد تک پاک منصفانہ معاشرے کو زیبا ہے اور ذہنی و جسمانی آسودگی کا تصور قیام امن کے بغیر ممکن نہیں۔
ہمارے ہاں مگریہ فرض کر لیا گیاہے کہ لوگوں کی ترجیح اول امن و امان، جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ نہیں۔ محفوظ سڑکیں اور سفر نہیں، تعلیم و صحت اور ملاوٹ سے پاک خوراک و ادویات نہیں اور ہمارا مسئلہ نمبر ایک منشیات، ذخیرہ اندوزنی، مہنگائی، بے روزگاری، اغوا برائے تاوان اوربھتہ خوری ہی نہیں صرف اور صرف قوم کو جہازی سائز سگنل فری سڑکیں درکار ہیں، میٹرو ٹرینیں و بسیں اور کراچی سے پشاور تک موٹر وے۔ اچھی رعایا پرور اور انسان دوست ریاست کی یہی بنیادی ذمہ داری ہے۔
موڑ سیال سے رانا جمیل حسن اغوا ہو، ملتان سے علی حید رگیلانی اور لاہور سے شہباز تاثیر یا خواتین بچوں سمیت خود کشی کریں، بھوک سے تنگ خاندان بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوں ،ریاست کوبظاہر کوئی سروکار نہیں ورنہ منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کا رخ امن و امان، تعلیم، صحت اورجرائم کی بیخ کنی کی طرف ہوتا نمائشی اقدامات اوران کی تشہیر پر نہیں۔
عوام کو بہتر سفری سہولتیں درکار ہیں، بجلی کی بلاتعطل فراہمی اور نوجوانوں کو لیپ ٹاپ بھی مگر کیایہ جان و مال اور عزت و آبرو کا نعم البدل ہیں جو کہیں محفوظ نہیں۔ حتی کہ نوبت اب ارکان اسمبلی کے اغوا تک پہنچ گئی ہے۔ نمائشی منصوبوں سے مسحور، ترقی و خوشحالی کی رفتار سے مسرور دوستوں کو شائد علم نہیں کہ چند بڑے شہروں کی تعمیر و ترقی ملک کے دیگر علاقوں، سندھ، بلوچستان، فاٹا اور جنوبی پنجاب میں احساس محرومی کا بیج بو رہی ہے جہاں چوبیس چوبیس اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے بدامنی اورلاقانونیت اس قدر کہ عصرکے بعد سفر ناممکن اور سکول و مراکز صحت امیدواروں وڈیروں کے جانوروں کے لیے اصطبل۔
چوروں، ڈاکوئوں، رہزنوں، اوباشوں، بدمعاشوں اور اغوا کاروں، چٹی دلالوں سے تنگ خلق خدا کو جب نمائشی منصوبوں کی نوید ملتی ہے تو وہ سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں کہ وہ بے چارے دو وقت کی روٹی، ان کے بچے تعلیم، صحت، روزگار کی سہولتوں اور انصاف کے محتاج ہیں، بہو بیٹیاں تحفظ کی خواہش مند مگر مژدہ انہیں میٹرو ٹرین اور موٹر وے کا سنایا جارہا ہے جو امیر اور متوسط طبقے کے چونچلے ہیں عام آدمی پرتعیش نہیں محفوظ سفر کی خواہش کرتا ہے۔ چکاچوند نہیں ایک بلب اور پنکھے کے لیے سستی بجلی اس کی ضرورت ہے اور گھر میں اطمینان کی نیند سونے کی یقین دہانی چاہتا ہے جو موجودہ نظام فراہم کرنے سے سو فیصد قاصر ہے۔
میاں نوازشریف اکثر کہتے ہیں یوم تکبیر کی تقریب پر باردگر دہرایا کہ ایٹمی قوت اندھیروں میں ڈوبی ہے اور کشکول بردار۔ مگر پریشانی انہیں اس بات کی ہونی چاہئے کہ نیوکلیئر مسلم ریاست میں لوگ سرعام لٹتے ہیں، ارکان اسمبلی اغوا ہوتے ہیںاور خوفزدہ حکمران قلعہ بند گھروں میں محصور ہیں۔ انصاف کے ایوانوں اور اپنی حفاظت پر مامور اداروں سے مایوس عوام سٹریٹ جسٹس پر اتر آئے ہیں اورقبائلی طرز و فکر و معاشرت نے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے مگر کسی کو پروا نہیں۔ یہ امن و امان اور تعلیم و صحت کو ترجیح اول نہ سمجھنے کا منطقی نتیجہ ہے مگر کوئی سمجھے تو۔
تازہ ترین