• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے سماج میں تبدیلی کے آثار ہر جگہ نمایاں ہیں لیکن سب سے اہم اداروں کے کردار میں تبدیلی ہے جو نظر نہیں آرہی۔ دہلی اور لاہور میں تقریباً ہر شہری کے پاس سیل فون ہے اسے نئے فلائی اوور ، انڈرپاس، نئے ایئرپورٹ، میٹرو سب کچھ سامنے دکھائی دیتا ہے لیکن وہ پھر بھی موجود سیاسی اور سماجی ڈھانچے سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اسی لئے ’’تبدیلی‘‘ کی علامتیں بن جانے والوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ کبھی یہ ’تبدیلی‘ پاکستان میں تحریک انصاف کے نام سے سامنے آتی ہیں اور کبھی بھارت میں عام آدمی پارٹی کے نام سے۔ عام رکشہ والے سے لیکر بڑی کارپوریشنوں کے مالکوں تک اس تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
پاکستان میں تحریک انصاف کے عمران خان ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا کر سامنے آئے اور عوام کے بہت بڑے حصے نے ان کے لئے آنکھیں بچھا دیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جب تبدیلی لانے والے ہیرو ثانوی مسائل (ڈرون حملے،انتخابی دھاندلی وغیرہ) میں الجھ گئے تو تبدیلی کے طلب گاروں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اسی طرح دہلی کے شہریوں نے عام آدمی پارٹی کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا لیکن جب وہ پارٹی ریاست کی حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکی تو وہی شہری مایوس ہو کر نریندر مودی کی لہر کا حصہ بن گئے۔ اگرچہ پاکستان کے زیادہ تر آبادی میں نواز شریف اور بھارت میں نریندر مودی اس تبدیلی کے نام پر حکومتوں میں آئے ہیں لیکن یہ صورت حال بھی کوئی مستقل نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت کے حالیہ ارتقائی منازل میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کافی مماثلت ہے۔ پاکستان میں نواز شریف ترقیاتی کاموں کے لئے سرگرم نظر آنے والے امیدوار کے طور پر جیتے، لاہور کی میٹروبس ترقیاتی معجزوں کی علامت بن گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں پنجاب کی حد تک یہ تاثر ہے کہ وہ معاشی ترقیاتی منصوبوں کو بنا اور چلا سکتی ہے۔ یہی تاثر نریندر مودی کا بھی ہے کہ انہوں نے گجرات کی ریاست کو ترقی کے راستے پر بہت آگے بڑھایا ہے۔ نواز شریف بھی مودی کی طرح پہلے ایک صوبے (پنجاب) میں اپنی کارکردگی ثابت کرکے مرکز تک پہنچے تھے۔
مسلم لیگ (ن) اور بی جے پی دونوں دائیں بازو کی روایت پسند پارٹیاں ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام آخر نظام کی اصلاح کے لئے دائیں بازو کی پارٹیوں کو کس لئے موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کی سب بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاسی معیشت میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ گلوبلائزیشن نئی طرح کی سرمایہ داری کاتقاضا کرتا ہے اور بائیں بازو کی پارٹیاں اس طرح کے نظام کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹیوں کے تنزل اور اب کانگریس کی شکست فاش سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے۔
ہزاروں سالوں سے مروجہ معاشی نظام ختم ہو گیا ہے ۔نیا نظام ان دیکھی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں انفرادی سطح پر غیر یقینی نفسیاتی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ سے نئے طبقات پیدا ہوئے ہیں۔ ایک نئی نسل پل کر جوان ہو رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں ووٹروں کی اکثریت کی عمر اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آج کا ووٹر ستّر کی دہائی میں پیدا ہوا تھا۔ ستّر کی دہائی سے ہی دنیا میں اور بالخصوص برصغیر میں بنیادی تبدیلیاں آنا شروع ہوئی تھیں۔ ذرائع پیداوار تیزی سے مشینی ہو گئے پھر انٹرنیٹ اور سیل فون نے دنیا میں وہ تبدیلیاں پیدا کیں جن کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو کی تعمیر کردہ ریاست تھی جو بنیادی معاشی پیداوار پر حاوی تھی۔ اس عہد تک ترقی کا راستہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ریاست منصوبے کے تحت بڑی صنعتیں لگائے کیونکہ نجی سیکٹر میں اتنا وافر سرمایہ نہیں تھا۔ پاکستان میں بھی بڑی حد تک یہی ماڈل اپنایا گیا اور ایوب خان کے زمانے میں ریاست نے بنیادی صنعتیں قائم کر کے نجی سیکٹر کے حوالے کیں۔ بعد میں بھٹو حکومت نے بہت سے صنعتی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور بھارت کی طرز پر بنیادی صنعتوں میں ریاست کا کردار نمایاں کر دیا۔ اسی فلسفے کی تحت اسٹیل مل قائم کی گئی کہ اس سے مختلف صنعتوں میں درکار مشینری بنائی جائے۔ ستّر کی دہائی میں ہی اس طرح کی ریاست کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ بھارت میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک ریاست کے بحران کی علامتیں تھیں۔
اسّی کی دہائی میں ہی بھارتیہ جنتا پارٹی وجود میں آئی اور اسی زمانے میں مسلم لیگ (ن) کی بنیاد ڈالی گئی۔ دونوں پارٹیوں میں قدر مشترک یہ تھی کہ وہ پرانی ریاست کے معاشی غلبے کو ختم کرکے نجی سیکٹر کو بڑھاوا دینا چاہتی تھیں۔ دونوں پارٹیاں مذہبی نظرئیے کی پیروکار تھیں۔ بھارت میں نہرو کی قائم کردہ نیم سوشلسٹ ریاست کی جڑیں بہت گہری تھیں اس لئے ان میں تبدیلی بہت دیر سے 1991میں آئی جب من موہن سنگھ نے وزیر مالیات کے طور پراصلاحات کرتے ہوئے ریاست کے معاشی غلبے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں ضیاء الحق کے زمانے میں ہی بھٹو کی قومیانے کی پالیسی کو ختم کرکے کافی صنعتیں نجی سیکٹر میں دے دی گئیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جسے 1984کے انتخابات میں صرف دو سیٹیں ملی تھیں 1998میں برسراقتدار آگئی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے اسّی کی دہائی سے سیاسی معیشت کی بنیادیں تیزی سے تبدیل ہو رہی تھیں اور ایک جہان نو تخلیق ہو رہا تھا۔ معیشت کے مشینی ہو جانے، گلوبلائزیشن اور نئے طبقوں کے جنم لینے سے سماج میں ایک خلا پیدا ہو رہا تھا یعنی پرانا سماجی ڈھانچہ روبہ زوال تھا اور نیا ڈھانچہ معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جب جب خلا پیدا ہوا اسے عام طور پر شروع میں روایت پرست طاقتوں نے ہی پر کیا یعنی عوام ایسی سیاسی اور سماجی تنظیموں کو قبول کرتے ہیں جو روایتی ثقافت کی بھی دعویدار ہوں اور جدید معاشی ترقی کی بھی حامی ہوں۔ اس پہلو سے مسلم لیگ (ن) اور بھارتیہ جنتا پارٹی بہترین مثالیں ہیں کیونکہ دونوں ثقافتی اور نظری اعتبار سے روایت پرست ہیں لیکن پرانے معاشی ڈھانچے کی جگہ نیا نظام لانا چاہتی ہیں۔ دونوں پارٹیاں بڑے سرمایہ داروں کی نمائندہ ہیں اور آزاد منڈی کے تصور پر یقین رکھتی ہیں۔
فی الوقت پاکستان میں مسلم لیگ (ن) اور بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی فتح یاب ہوئی ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ عوام کی ہمہ جہت امنگیں پوری کر سکتی ہیں۔ نئی سیاسی معیشت کی وجہ سے دونوں ملکوں میں نئی دولت پیدا ہوئی ہے لیکن اس دولت کی تقسیم کا کوئی نظام وضح نہیں ہو سکا۔ اس دولت پر قبضہ کرنے کے لئے کرپشن انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اور بھارت میں کانگریس کے خلاف یہی بڑی شکایتیں تھیں۔ دونوں ملکوں میں کرپشن کے سینکڑوں اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ عوام تیز تر معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اس بدعنوان نظام کی صفائی چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نئے چہروں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔اگر مسلم لیگ (ن) اور بھارتیہ جنتا پارٹی اداروں کی اصلاح کرتے ہوئے بدعنوانیوں کو ختم نہ کر سکیں اور اداروں کو عوامی خدمات کے لئے تیار نہ کر سکیں تو دونوں کامستقبل مخدوش ہوگا۔
تازہ ترین