• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ن‘‘ لیگ کی موجودہ حکومت پر آزمائشی آندھیوں کی سرخ گھٹائیںچھا رہی ہیں۔ تیسری بار منتخب شدہ وزیراعظم پاکستان خود اور ان کی منتخب حکومت، دونوں کو متنازع اور مشکوک قرار دیئے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے لیڈر عمران خان کی قیادت میں 2013ء کے ’’قومی انتخابات‘‘ کے خلاف دھاندلی کی ملک گیر تحریک چلانے کا طاقتور عمل شروع کر رکھا ہے، جون کے دوران میں عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان میں آمد، مسلم لیگ ’’ق‘‘ کی ان کے ساتھ شمولیت، عمران خان کی اس مہم کو بلاواسطہ اور بالواسطہ فیصلہ کن تقویت پہنچائیں گی۔ یہ امکان سو فی صدیقین کا درجہ رکھتا ہے۔ حالات کا نقشہ جون کا جولائی اور اگست کے تین ماہ میں ’’ن‘‘ لیگ کے قائدین اور حکومت کو اچانک ایک ایسی حیرت سے دوچار کرسکتا ہے جس کی نوعیت سے انہیں شاید بلاواسطہ اور بالواسطہ اقتدار کے گزشتہ تیس برسوں میں پہلی بار پالا پڑنے جارہا ہو، ایک ایسا وقوعہ جو پاکستان کی حکمرانی کے دائرے سے ان کے مستقل اخراج کا وقوعہ بھی بن سکتا ہے۔ عمران خان نے چار انتخابی حلقوں سے مشروط کر کے قومی اور بین الاقوامی سطحات پر 2013ء کے قومی انتخابات کو متنازع اور مشکوک ڈیکلر کرنے میں جس کامیاب ماحول کی پیدائش میں کامیابی حاصل کی ہے اس کے پیش نظر ڈاکٹر طاہرالقادری مسلم لیگ ’’ق‘‘ اورسنی اتحاد کے علاوہ کسی مرحلے پر دوسری بڑی اورچھوٹی جماعتیں بھی اس ’’انتخابی تحریک‘‘ کو کندھا دینے میں پیچھے نہیں رہیں گی!
ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے اس وقت یہ دلیل کوئی وزن نہیں رکھ سکے گی جسے بعض حضرات بطور اعتراض سامنے لاتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری تو اس نظام انتخاب کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اس لئے وہ عمران خان کے مشن میں کیوںشامل ہوں گے؟ عمران کی تحریک نے تو موجودہ انتخابی نظام کے اندر سے جنم لیا ہے، ان حضرات کی اپروچ واقعاتی پوزیشن سے کلی طور پر محروم ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے نظریے پر پوری طرح قیام کرتے ہوئے، اس کے حصول کی اسٹرٹیجی کے تحت ،عمران فنامنے کو بطور لانچنگ پیڈ اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کا راستہ بنائیں گے، ان کا نصب العین موجودہ انتخابی اور ریاستی نظام کے تنسیخ ہی رہے گا جسے وہ ’’انقلاب‘‘ اور سیاست نہیں، ریاست بچائو کے اعلانات کی شکل میں سامنے لا چکے ہیں۔
’’ن‘‘ لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف محض ایک برس کے اندر ہی اندر ایسے متوقع ناگفتہ بہ سیاسی حالات کی زد میں کیوں آچکے، اس بار جن کی صورت ان کے گزرے تیس بیس برسوں سے قطعی مختلف ہوگی، جیسا کہ عرض کیا گیا ’’جو ہمیشہ کے لئے پاکستان کی حکمرانی کے دائرے سے ان کے اخراج پر منتج ہوسکتے ہیں‘‘۔ اس حوالے سے نوازشریف کے سیاسی کیریئر پر ایک مجموعی نظر ڈالنے سے اس سوال کی جوابی معروضیت سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
5 جولائی 1977ء کو جنرل (ر) ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب آئینی حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا، جناب نوازشریف 1980ء کی دہائی میں مطلع سیاست پر ابھارے گئے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف تمام گروہوں، مختلف درجوں اور نوعیت کے تمام سرمایہ دار طبقات کے نمائندہ قرار پائے۔ انہوں نے ان دنوں پیپلز پارٹی کو دیکھ کر ’’میرا خون کھولتا ہے‘‘ کا جملہ اپنے سیاسی ٹریڈ مارک کے طور پر متعارف کرایا۔ دائیں بازو کا بے جہت ہنگامہ باز مزاج اس جملے میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اپنی ناکامیوں سے پیدا شدہ ناتمام حسرتوں کی تسکین پاتا تھا۔ پاکستان میں دائیں بازو کے قلمکاروں، دینی و مذہبی جماعتوں نے بھی نوازشریف کو بلاواسطہ اور بالواسطہ اپنی قوتیں اور حمایت منتقل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
1980ء کی دہائی میں پاکستانی سیاست کے مطلع پر ابھارے جانے کے بعد ایوان اقتدار میں ان کے داخلے کی شروعات پہلے صوبائی وزیر خزانہ پھروزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے ہوئیں۔ پاکستان کی ان دیکھی خاکی اور غیر خاکی قوتوں نے اپنی ساری سیاسی منصوبہ بندیوں میں انہیں بھٹو مخالف ’’واحد ہیرو‘‘ کی حیثیت سے چن لیا تھا۔ چنانچہ مختلف واقعات اور نشیب و فراز کے باوجود گزرے تقریباً پچیس تیس برسوں میں پنجاب شریف خاندان کے زیر نگیں ہے۔ 2014ء تک پہنچتے پہنچتے مگر نوازشریف دو ایسی ان ہونیوں کی گرفت میں آگئے جن کے مداوے کا ظاہر بین انسانی نظروں کو فی الحال تو کوئی حیلہ وسیلہ نظر نہیں آتا یہ کہ (1) وہ 2013, 1997, 1990 تینوں بار وزیراعظم منتخب ہوئے، تینوں بار پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام، دونوں اپنے اپنے پس منظر میں وہ جو انتخابی اکثریت کے بارے میں ایک بے ساختہ سچائی ہوتی ہے اس کے وجود سے منکر تھے۔ 1990ء کے پس منظر میں اصغر خان کی رٹ نے کم از کم عوام کی اس ’’ذہنی پھانس ‘‘ کو اطمینان کی سانس لینے کا موقع دیدیا یعنی وہ ان کے انتخاب میں اپنے ’’شک ‘‘پر شرمندہ ہونے سے بچ گئے، ریاست کے متعلقہ ذمہ داران کا یہ مسئلہ ہی نہ تھا وہ تو خود ان اسباب کے تراش کنندگان کے طور پر منکشف ہوئے۔(2) پاکستان کی وہ دیکھی اور ان دیکھی قوتیں جو 80 کی دہائی میں، پیپلز پارٹی کی نظریاتی اور عوامی طاقت سے زچ ہو کر ،نوازشریف کو سیاسی میدان میں اپنے متبادل سہارے کے طور پر لائی تھیں، اب وہی نوازشریف انہیں پرابلم دینے کی آخری سرحدوں پر پہنچنے لگا تھا، بالآخر انہیں دائیں بازو میں ہی عمران خان قدرت کے ایک عطیہ کی صورت میں دکھائی دینے لگا۔ آج عمران اپنے 16 برس کے سیاسی سفر کے بعد، تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ،اپنے وہ رنگ دکھا رہا ہے جن رنگوں کی آخری منزل آئین اور عوام کو تصادم اور الجھن کے دو پاٹوں کے درمیان پیس کر رکھ دینے سے رہا ہے تاکہ ان قوتوں کی حکمرانی کے تسلسل میں کوئی خدشہ یا رخنہ اپنا سر ہی نہ اٹھا سکے۔
2013ء میں منعقدہ قومی انتخابات کے بعد جناب نوازشریف اور ان کی حکومت کے انتخاب کو عمران خان اور دیگر مخالفین نے جس چابک دستی کے ساتھ ایک مشکوک اور متنازعہ انتخابی چہرے میں تبدیل کر کے رکھ دیا، اس تناظر میں اچانک پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ محاذ آرائی کسی خطرے کی ممکنہ پیش بندی ہے یا ’’ن‘‘ لیگ کو جبراً اس طرف اسی طرح دھکیلا جارہا ہے۔
جیسے ’’جنگ اور جیو‘‘ کو ایک غلطی پر، معافی کے باوجودایسے شکنجے میں لایا جا چکا ہے جس کے ذمہ داران سے مکمل باخبر ہونے کے باوجود پاکستانی صحافت کے سب سے بڑےپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گروپ کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ معافی کے باوجود، نجات کی راہ مسدور کرتی جارہی ہے، دفاع کے اسباب مطلوبہ تعداد اور مقدار میں کام میں نہیں لائے جاسکتے، کیا ’’ن‘‘ لیگ بھی کسی ایسے خفیہ ہاتھ کا ہدف بنی ہے جس کے منصوبے میں دونوں بڑی قومی جماعتوں کو ایک بار پھر جارحانہ ٹکرائو میں مبتلا کرنا ہو؟ آخر جب وہ ہانپ جائیں، ریفری کھیل بچانے کے نام پر، دونوں کو گرائونڈ سے ہی باہر نکال دے۔ یہ اندیشے غیر منطقی اور بلاجواز نہیں ہیں!
آپ ذرا غور فرمائیں، نوازشریف اور ان کی حکومت آئندہ دو تین ماہ کے اندر اندر جس بحران کے کلائمکس پر لائی جارہی ہے اس کی سنگینی اور خطرناک ہونےکا اس تحریر کی ابتدا میں تذکرہ کیا گیا ہے، اسے پڑھنے اور جاننے کے بعد ’’ن‘‘ لیگ کے سربراہ اوران کی حکومت پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت جس کی جدوجہد میں محاذ آرائی کے غیر سیاسی عناصر کے ساتھ مزاحمت کی ایک تاریخ موجود ہے۔ جس نے آخری نتیجے کے طور پر ایسے مصنوعی غیر حقیقی سیاسی عنصر کو کبھی بھی سیاسی زندگی کا فطری حصہ نہیں بننے دیا، ’’ن‘‘ لیگ اور اس کے سربراہ اس کا دستیاب سیاسی تعاون حاصل ہونے کے باوجود اسے سیاسی آویزش کے کونے میں دھکیل رہے ہیں!
نوازشریف صاحب کے لئے تو اپنے ان چار وزراء کا لب و لہجہ، مقتدر قومی اداروں اور عوام سے ان کے توہین آمیز انداز تخاطب کے تباہ کن اور نفرت آگیں اثرات و نتائج سے نپٹا ہی ناممکن ہورہا ہے، کجا کہ بیٹھے بٹھائے اپنا ہاتھ ازخود پیپلز پارٹی جیسے حقیقی تاریخی شہر کے جبڑوں میں دے دیا جائے، باقی کیا بچے گا؟ لیکن تقدیر کے آسمان سے، اگر ملامتی عوارض کے تیر برسنا مقدر بننا ہے، تب ان تیروں کی بارش کون روک سکا ہے؟
پاکستان ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (TDAP) سے متعلق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا اجرا، پیپلز پارٹی کو اس سیاسی مشق پر مجبور کرسکتا ہے جس کی وہ عادی ہے۔ لیکن کم از کم نوازشریف ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کے الفاظ کو یاد رکھیں ’’جو کچھ ہورہا ہے میں اس سے خوب آگاہ ہوں‘‘ اور یہ صدر آصف علی زرداری ہے جس سے سیاسی حربوں کو، تجربے کی روشنی میں دور رکھنا حربہ سازوں کے اپنے فائدے میں ہیں۔
تازہ ترین