• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سال گزشتہ میں ساری دنیا میں فوجی مصارف پر جو مجموعی لاگت صرف کی گئی ہے اس میں سے صرف ایک ملک (ملکوں کا ملک) امریکہ کا حصہ 48 ؍فیصد ہے۔ اگر مزید واضح الفاظ میں ضبط تحریر میں لایا جائے تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ صرف ایک سال کے عرصے میں ساری دنیا نے فوج پر 1.34 ٹریلین امریکی ڈالر یعنی ایک لاکھ 34 ہزار کروڑ ڈالر صرف کئے جس میں امریکہ بہادر نے 25.55 لاکھ کروڑ خرچ کئے۔ میرے حساب سے یہ دنیا کے اہم ترین ممالک کے فوجی مصارف سے مختلف و متضاد ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے فوجی مصارف کی مالیت 48 فیصد پر مشتمل ہے جبکہ برطانیہ، چین نے فی کس 5فیصد رقم خرچ کی ہے۔ فرانس اور جاپان نے فی کس 4فیصد، جرمنی، اٹلی اور سعودی عرب نے فی کس 3فیصد جنوبی کوریا اور بھارت نے 2فیصد خرچ کیا۔ اگر ان تمام ممالک کے فوجی مصارف کو یکجا کیا جائے تب بھی ان ممالک کی مجموعی صرف کردہ مالیت امریکہ سے کم یعنی 34فیصد ہوتا ہے۔
امریکہ کے بڑے حریف سمجھے جانے والے ممالک روس اور چین کے فوجی مصارف کو یکجا کیا جائے تو 8فیصد امریکہ کے مصارف سے 5گنا کم ہوتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عراق اور افغانستان جنگ کے سبب اپنی سلامتی کے بارے میں فکرمند دونوں ممالک کے ہمسایہ ممالک نے 2006ء سے 2009ء کے دوران امریکہ سے بھاری تعداد میں اسلحہ خریدا، ادھر اسرائیل سے خوفزدہ عرب ممالک بھی اسلحہ کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔ امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے صرف عراق کو 12؍ارب 85؍کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا، اس ڈیل میں میامی ابرافر نامی ٹینکوں کی فروخت بھی شامل ہے۔ پینٹاگون کی دفاعی سیکورٹی ایجنسی کے مطابق کانگریس کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ اسلحہ کی فروخت میں 2؍ارب 40؍کروڑ ڈالر مالیت کے ہیلی کاپٹر، میزائل راکٹ اور دیگر متعلقہ آلات پر مشتمل مشینری شامل ہے، علاوہ ازیں 3؍ارب ڈالر مالیت کے لائٹ آرمرڈ وہیکلز اور متعلقہ آلات بھی دیئے گئے ہیں۔ جب سے امریکہ نے عراق پر حملہ کیا ہے سمجھا جاتا ہے کہ تب سے اب تک یہ بغداد کے ساتھ بڑی ڈیل ہے۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 2006ء کے دوران دنیا بھر میں اسلحہ کی خریداری میں 13فیصد کمی آئی تھی جس سے فرانس اور اسلحہ برآمد کرنے والے دیگر یورپی ممالک کی برآمدات میں کمی آئی۔ اسی طرح 2006ء کے دوران امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک کو 19؍ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا جو دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 43.9فیصد تھا۔ یہاں ایک خاص بات بتانے والی یہ بھی ہے کہ فوجی امور پر امریکہ کے کئے گئے مصارف میں اضافہ کسی ایک سال کا نہیں ہے بلکہ گزشتہ دور ہی سے امریکہ کے کئے گئے اضافہ مصارف ایسے ہی ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں میں فوجی امور پر جو مصارف ہوئے وہ 63فیصد شمار کئے گئے۔ ان تمام اعداد و شمار کے علاوہ مزید ایک بات یہ ہے کہ امریکہ کے ماسوا دنیا کے ممالک کے فوجی مصارف 55فیصد ہوں تو اس میں بھی امریکہ کے مصارف زیادہ ہی ہوں گے۔ دیگر مختلف ممالک میں تنائو اور تنازعات پیدا کرنا، جنگ مسلّط کرنا اور پھر کسی ایک فریق یا دونوں فریقین کو ہتھیار اور بھاری اسلحہ فروخت کرنے کا کام امریکی ابتدا سے کرتے آئے ہیں۔ مثلاً امریکہ ایک جانب اسرائیل کو تو دوسری جانب مختلف مغربی ایشیائی ممالک کو عرصۂ دراز سے ہتھیار فروخت کر رہا ہے، میرے حساب سے آپ کو ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
برصغیر پر نظر ڈالیے! امریکہ کا اصل روپ ظاہر ہو جائے گا اور ماننا پڑے گا کہ ’’امن کے سفیر‘‘ کی حیثیت سے مبارک بادی کی اہلیت امریکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں۔ ویتنام، کوریا، عراق اور افغانستان و دیگر ممالک تک ’’امن‘‘ قائم کرنے کے لئے انکل سام جو کوشش کر رہا ہے اس سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ ’’امن‘‘ قائم کرنے میں کوریا کی جنگ میں امریکہ نے 54,246 فوجی موت کے منہ میں ڈال دیئے۔ 13سال کے بعد ویتنام میں 58,259 سپاہی گنوا بیٹھا، کوریا کی جنگ میں اس نے 410ارب ڈالر ضائع کئے جبکہ ویتنام میں 585ارب ڈالر ’’جمہوریت‘‘ قائم کرنے میں خرچ کئے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں مختلف حملوں میں امریکہ کے اب تک 14لاکھ 75ہزار فوجی لقمۂ اجل بن چکے ہیں یا اپنے ملک کے لئے ’’شہید‘‘ ہو چکے ہیں۔ یہ ’’سلسلۂ جمہوریت‘‘ اس پر بھی ختم نہیں ہو پا رہا کہ ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا بھر میں لگ بھگ 15لاکھ امریکی فوجی مختلف ملکوں میں برسر پیکار ہیں۔ اس وقت صرف یورپ میں امریکی بحری، برّی، فضائیہ اور دیگر مسلّح افواج کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ یورپ کی کل آبادی 850 ملین ہے۔ ماہرین معاشیات نے انکشاف کیا ہے کہ 2017ء تک جنگی اخراجات کا تخمینہ 30کھرب ڈالر تک جا پہنچے گا۔
میرے حساب سے امریکہ کی تاریخ قانون شکنی کی تاریخ سے عبارت ہے۔ اس نے دوسروں کو تباہ کن اسلحہ کی تیاری کے خلاف من مانے انداز میں سزا دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے لیکن خود مہلک اسلحہ کا نہ صرف سب سے بڑا تیار کنندہ اور فروخت کنندہ ہے بلکہ اسلحہ کی فروخت کا مجرم بھی ہے۔ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ جو قانون سب کے لئے ہے امریکہ بھی اس کی پاسداری کرے۔
یہی بات مختلف ممالک کے سوچنے کی ہے کہ وہ امریکہ سے ڈرنے کے بجائے متحد ہوں اور بیک زبان نہ صرف امریکی دھاندلیوں کے خلاف آواز اٹھائیں بلکہ عملی اقدام بھی اٹھائیں اور جب تک یہ نہیں ہو گا امریکہ مختلف ملکوں میں ’’جمہوریت نافذ‘‘ کرتا رہے گا اور ’’جمہوریت‘‘ کے لئے حد سے متجاوز ہونے کے نت نئے ریکارڈ قائم کرتا رہے گا اور ایک دن وہ ممالک بھی اس کے ظلم کے شکار ہو جائیں گے جو اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہوئے کوئی احتجاج نہیں کر رہے یا نہیں کرنا چاہتے۔ آج امریکہ کے 130 ممالک میں 6,000 سے زائد فوجی اڈے ہیں اور اس کرۂ ارض پر اس کے 15؍لاکھ سپاہی بکھرے ہوئے ہیں جن کی واحد ذمہ داری اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے کہ وہ ایک کی پیٹھ تھپتھپا کر دوسرے کو دھمکاتا ہے، تیسرے سے ہاتھ ملاتا ہے اور چوتھے کو بالواسطہ قریب آنے کی دعوت دیتا ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کے علاوہ کسی کا دوست نہیں، جس دن مفادات کی راہ مسدود ہو جائے گی، تعلقات کی نوعیت بھی بدل جائے گی اور وہ ملک جو آج دوست ہے کل دشمن تصوّر کیا جانے لگے گا۔ یہ امریکہ کا طریقۂ کار رہا ہے جیسا کہ کرۂ ارض کا ہر شخص جانتا ہے کہ کل تک اسے طالبان عزیز تھے (شاید آنے والے دنوں میں پھر ایسا ہو جائے) بعد میں طالبان کو دشمن قرار دے دیا گیا۔ کل تک اسامہ بن لادن سے تجارتی روابط اور وہ وائٹ ہائوس کا دوست تھا، آج اسے دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد کہہ کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ آخر میں یا میرے جیسے دوسرے کیا سمجھیں؟ کل تک کی دوستی صحیح تھی یا آج کی دشمنی صحیح ہے؟ میں بین الاقوامی گلوبلائزیشن کے خلاف ہوں، میں امریکہ کا حامی ہوں نہ اسامہ کا دوست۔ ان دونوں کی لڑائی سرے سے میری لڑائی ہی نہیں ہے۔ ان دونوں کے برخلاف میرا ایک تیسرا نقطۂ نظر ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران برطانیہ اور سوویت یونین دونوں ہی جرمنی کے ہٹلر سے نفرت کرتے تھے… تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ چرچل ایک کمیونسٹ تھا؟
تازہ ترین