• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ اپنے ہاں رضیہ سلطانہ، جھانسی کی رانی، بے نظیر بھٹو، اندرا گاندھی، زیب النساء مخفی، سروجنی نائیڈو، نذرسجاد باقر، امرتاپریتم، قرۃالعین حیدر،بڑی بی والدہ شوکت علی محمد علی، محترمہ فاطمہ جناح سمیت سیکڑوں ہزاروں خواتین کی مثال دے سکتے ہیں کہ جن کو اپنی اپنی منازل ترقی پر پہنچانے میں آپ کا کوئی بڑا کمال نہیں بلکہ ایسی خواتین کی اپنی محنت و جرأت شامل تھی (کئیوں کے کیسوں میں تو ان کو اپنے ہی گھر کے مردوں کی طرف سے ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے)لیکن برصغیر بنیادی طور پرپاکستان ہوکہ ہندوستان عورت دشمن آبادیاں ہیں۔ اس عورت دشمنی کی دوکریہہ اور تازہ دلدوز مثالیں بریلی بھارت میں دو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر ان کی لاشوں کو درختوں سے لٹکادیا جانا اور لاہور جیسے شہر میں نوجوان لڑکی کے اپنی مرضی سے شادی کرنے پر غیرت کے نام پر لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں اسے اس کے باپ بھائیوں اور سابقہ منگیتر کے ہاتھوں سنگسار کئے جانے جیسے واقعات ہیں۔ یہ اصطلاح ہی واہیات اور لغو ہے ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ جسے میرے ایک دوست نے ’’غیرت کا بے غیرت تصور‘‘ کہا تھا اور درست کہا تھا۔
اب ایسا ملک جہاں تین ہزار قتل غیرت کے بےغیرت تصور پر ہوتے ہوں اور ان میں سے اکثر رپورٹ ہی نہ ہوتے ہوں اس ملک میں ساری صورت حال عورت کے حقوق کے حوالے سے دکھ دینے والی ضرور ہے لیکن حیرت ناک نہیں۔ اس لئے کہ جس ملک میں بغیر کسی طبقے اور حیثیت کے مردوں کی اکثریت عورتوں کو تنگ کرنے، ہراساں کرنے، تشدد کرنے، ان کے خلاف جنسی دہشت گردی اور حملوں، ان کی غیرت کے نام پر جان لینے میں کوئی عار محسوس نہ کرتی ہو بلکہ مردانگی سمجھتی ہو وہاں حیرت کیسی۔
آمر مشرف نے ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ زیادتی کیس میں کس طرح ملزم کو خود ہی عدالت بن کر بری کردیا تھا اور واشنگٹن میں آکر بڑی ڈھٹائی سے کہا تھا کہ پاکستان میں عورتیں خود سے ریپ کراتی ہیں کہ وہ کینیڈا کا ویزہ اور شہریت حاصل کرسکیں۔ سلام ہے امنہ بٹر اور غزالہ قاضی جیسی اور ان کی ساتھی خواتین پر کہ جنہوں نے فوجی آمر کے سامنے اس کے ایسے ریمارکس پر شدید احتجاج کیا تھا۔
بھائی لوگوں نے ٹھیک طور پر بھارت میں دو نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی بپتا پر غم و غصہ کا احتجاج کیا اور کرنا بھی چاہئے کہ مودی سرکار کا بھارت باسیوں کو پہلا تحفہ لیکن بھارت میں کسی نہ کسی سطح پر مشینری حرکت میں آتی ہے اور انصاف نہ صرف ہوتا ہے، پر ہوتا دکھائی بھی دیتا ہے (اگر آپ دلت اور کشمیری نہیں) کہ اس کیس میں بھی تحقیقات اب وفاقی حکومت کر رہی ہے لیکن پیارے پاکستان میں تو بس بقول شاعر
بگاڑ کیا سکتی ہے شہر والوں کا
ایک غریب کی بیٹی ہے زہر کھا لے گی
یعنی ’’ظالم تیری گلی بھی بدایوں سے کم نہیں،بدایوں بھارت میں تو یہ واقعہ اب ہوا اسی طرح کا ملتا جلتا واقعہ گھوٹکی ضلع کے اوباڑو کے قریب کھبنڑا گائوں میں دو غریب بہنوں کے ساتھ ہوا پولیس والوں نے کیا جہاں یہ دو بہنیں کسی جرم کی رپورٹ لکھوانے گئی تھیں۔ اسی اباڑو میں نسیم لبانو کے ساتھ اجتمائی آبرو ریزی مقدمے میں آج تک ملزمان کو سزا نہیں ہوئی۔ بدین کی قرآن پڑھنے جانے والی معصوم مقدس آرائیں کے ساتھ کیا ہوا، شاہ لطیف بھٹائی کی دربار میں گونگی لڑکی عائشہ کے ساتھ کیا ہوا، گمشدہ نوجوان بلوچ خاتون زرینہ مری کے ساتھ ہونے والی بپتا کی کسے خبر ہے جس کی تصدیق عالمی ریڈ کراس نے بھی کی اور ایسی کئی وارداتیں قصہ پارینہ بنیں۔ یہ افغانستان بھی نہیں جہاں قندھار میں تازہ قتل ہو جانے والا خونخوار پولیس افسر جو کئی عورتوں پر تشدد میں ملوث تھا جس نےمعروف شاعرہ مینا انتظار اور اس کے اہل خانہ سے کیا کیا نہ کیا تھا۔
دہشت گری ریاستی ہو کہ غیر ریاستی سب سے بڑی متاثر عورت ہی ہوتی ہے۔ اس کی ایک دہشت ناک مثال لاڑکانہ کے قمبرشہدادکوٹ ضلع میں وگن شہر کے قریب سولنگی قبیلے کے گھروں پر پولیس چھاپوں میں عمر رسیدہ عورت قتل کردی گئی۔ پولیس جنگجو قبیلے کی طرح اپنے ایس ایچ او کے قتل کا بدلہ لینے گئی تھی جسے کچھ روز قبل سولنگی قبیلے کے بعض شرپسند لوگوں نے ایک ہجوم کی صورت تھانے پر حملے میں بیدردی سے قتل کردیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف ملک اور سندھ میں عورتوں سے زیادتیوں پر خلاف ماضی سیاست نہیں انصاف دلوائيں۔اگر کوئی بھی سندھی اخبار اٹھا کر دیکھیں عورت پر تشدد ، جنسی حملوں اور اس کے خلاف جنسی دہشت گردی اور غیرت کے نام پر قتل کی خبروں سے روزمرہ کی خبروں کی طرح بھرے ہوتے ہیں۔ اب عورت کے خلاف زبردستی تبدیلیٔ مذہب کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
وڈیروں سرداروں پیروں کے کوٹ ہیں جہاں پر عورتیں پناہ دئیے جانے کے نام پر لونڈیاں، باندیاں بنائی جاتی ہیں، ساری عمر باندیاں ہی بن کر رہتی ہیں یا فروخت و نیلام کردی جاتی ہیں۔ وڈیرے سردار بشمول ایک سابق وزیر اعظم باوجود سپریم کورٹ کی بندش کے سرکاری پروٹوکول اور سرکاری سرکٹ ہائوسز میں جرگے کرتے ہیں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں کے خون کی قیمت لگاتے ہیں یا ان کو مٹی میں ملاتے ہیں۔ اسے وہ بھائی کو بھائی سے بنوانا کہتے ہیں لیکن لاہور تو نہ سندھ ہے نہ جنوبی پنجاب وہاں جو پچھلے دنوں صوبے کے سب سے بڑے ایوان عدل کے دروازے پر ہوا۔ میٹرو رفتار سے بھی تیز عورتوں پر تشدد اور جنسی حملوں کی رفتار خادم اعلیٰ کی حکومت میں بتائی جاتی ہے۔ صرف خادم اعلیٰ کی حکومت کیا۔ پچھلی سابقہ حکومت میں زندہ درگور کی جانے والی خواتین کا خون محض چھ نشتوں کی حمایت پر داخل دفتر کر دیا گیا۔ پرنالے میں بہادیا گیا۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل کرنے کے واسطے سابقہ زرداری حکومت نے خواتین کے تحفظ حقوق آرڈیننس کے بل ہراساں کئے جانے کے خلاف قوانین پر سمجھوتہ کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئر پر ایک ایسے شخص کو بٹھادیا گیا جس کی تقرری مبینہ طور پر ملک میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور خاص طور خواتین کارکنوں کے تحفظات سامنے آئے۔ حیرت ہے کہ سابق حکمران پارٹی کی کئی بیگمات اور بیبیاں جو ویسے تو خواتین کے انسانی حقوق کی بڑی چیمپئن بنتی تھیں ایسے کئی سمجھوتوں پر اسمبلی کے اندر اور باہر خاموش رہیں۔
وہ لبرل سابق بائيں بازو کے کامریڈ رہنما جس نے این جی او بڑی بلڈنگ میں بنائی ہوئی ہے اور جو ٹی وی چینلوں پر جمہوریت اور آزادی صحافت پر بڑے بھاشن دیتے نظر آتے ہیں ان کو نجی طور یہ کہتے سنا گیا کہ وہ اپنی این جی او میں خواتین کارکنوں کا جنسی استحصال نہیں کرتے بلکہ جو یہ کہتے ہیں وہ کنزرویٹو یا قدامت پسند ہیں حالانکہ این جی او میں دی جانے والی تنخواہوں پر بڑے سوالات اٹھتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں خواتین کارکنوں کو جس طرح کام پر ہراساں کیا جاتا ہے اس پر خواتین کے انسانی حقوق کی معروف کارکن اور تحقیق کار ڈاکٹر فوزیہ سعید کی کتاب ’’ورکنگ ودہ شارکس‘‘ یعنی بھیڑیوں کے ساتھ کام کرنا لرزہ خیز کتاب ہے کہ کس طرح کام پر خواتین کارکنان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ بھارت بھی اس میں پیچھے نہیں جہاں غریب اور دلت طبقوں کی شکار عورتوں کے ورثا اگر پولیس کے پاس گمشدگی یا اغوا کی فریاد لیکر بھی جائيں تو ان کو کہا جاتا ہے کہ شام گئے کسی درخت پر لڑکیوں کے لاشے ٹنگے دیکھ لینا۔
دنیا میں پاکستان اور بھارت ہی شاید ایسے ملک ہیں جس کی آزادی کی شروعات پہلے ہی دن اور دونوں طرف لاکھوں خواتین کی بے آبروئی کے ساتھ ہوئی تھی۔ مشرقی بنگال میں بھی بلوانوں نے کیا کیا؟ ساحر ہوتے تو شاید پھر لکھتے:
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم زلف رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
لیکن ساحر لدھیانوی اور امرتا پریتم روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ملالہ یوسف زئی پر لفظی یا ہتھیاروں سے حملے کرنے والے باکو حرام کی طرف سے سیکڑوں افریقی مسلمان لڑکیوں کے اغواء پر خاموش ہیں۔
نہ فقط اپنے ملکوں میں پر یہ عورت دشمن آبادیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی عورتوں سے مہذب ممالک میں جاکر بھی وہی سلوک کرتے ہیں۔ جیسا حالیہ دنوں میں ایک پاکستانی نے نیویارک میں اپنی بیوی کو گوشت کے بجائے سبزی پکانے پر قتل کر دیا۔ وہ تو امریکہ قانون کی بالادستی اور عورتوں کے حقوق کا ملک ہے جہاں دو ہفتوں میں ہی بینچ ٹرائل کر کے ملزم پر جرم ثابت ہوچکا اب سزا کا سنایا جانا باقی ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ ملزم قاتل کے دفاعی وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ ملزم اس کلچر سے آیا ہے جہاں عورت کو ’’ڈسپلین کرنے‘‘ کو سزا دی جاتی ہے اور ملزم کا مقصد اپنی بیوی کو قتل کرنا نہیں تھا!
تازہ ترین