• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ شہباز شریف ہیں جنہوں نے نندی پور پاور پراجیکٹ کے مردہ گھوڑے میں اپنی محنت اور عزم سے نہ صرف جان ڈال دی بلکہ ایک ٹربائن نے کام بھی شروع کردیا۔ اس طرح بجلی کی پیداوار میں 100میگاواٹ کا اضافہ ہو گیاہے۔ کہتے ہیں کہ دو ماہ کی ریکارڈ مدت میں یہ مکمل کیاگیا جبکہ سارا منصوبہ جو 425میگاواٹ ہے ایک سال میں مکمل ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس کا افتتاح کیا اورصرف اس لئے شہبازمیاں کوخراج تحسین پیش نہیں کیا کہ وہ ان کے چھوٹے بھائی ہیں بلکہ اس شخص نے دن رات ایک کرکے اس منصوبے کو قابل عمل بنایا ہے کہ ’’اچھے کام‘‘ کی تو سب تعریف کرتے ہیںاس۔ وقت توبجلی کی اتنی ضرورت اور اہمیت ہے کہ قوم کی جان اس میں اٹک گئی ہے۔ بجلی سے ملکی صنعتی ترقی اور روزگار منسوب ہیں۔ پاور لومز بندہونے سے لاکھوںمزدور بیروزگار ہوگئے ہیں تو فیصل آباد، ملتان اور کئی اورشہروںکی پاور لومز کی صنعت اپاہج ہوگئی ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ وہ منصوبہ جو 2007میں شروع ہو کر 2011میں مکمل ہونا تھا۔ محکموں کی فائلوںمیں دب گیا اور ہمارے حکمران کوئی بھی ہوں سب کا رویہ ایک جیسا ہی رہاہے۔ نندی پور میں تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف نے عوام کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کی داستان بھی سنائی اور وزیراعظم سے اجازت طلب کی تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مجھے نہیں معلو م کہ وزیراعظم نے اس کی اجات کیوں نہیں دی؟ یہ کھلی ڈکیتی ہی نہیں عوام کے ساتھ ظلم بھی ہے۔ اس میں ’’سیاسی مصلحت‘‘ آڑے آگئی لیکن جب تک حکمران ’’ذات اور سیاست‘‘ سے بلند ہو کر آگے نہیں بڑھیں گے اس وقت تک’’بہت اچھے نتائج‘‘ حاصل تہیں ہوسکتے۔ کراچی جہاں آہنی ہاتھ سے آپریشن جاری ہے۔ اس سے بھرپور نتائج ابھی تک حاصل نہیں ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ بھتہ مافیاجاری و ساری ہے۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ ایک نہیں کئی بار پولیس اور رینجرز کے حکام اس کی نشاندہی کرچکے ہیں لیکن ’’سیاسی مصلحتیں‘‘ ہیں کہ دیواربن گئی ہیں اور کراچی کے اندھیروںمیں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جارہا کہ کراچی ’’منی پاکستان‘‘ ہے۔ بڑی بندرگاہ ہی نہیں صنعتی علاقہ بھی ہے وہاں امن چین ہوگا۔ کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ دوسری جانب ملک کی سیاسی، مذہبی جماعتیں حکومت کے خلاف صف بندی کر رہی ہیں۔ تحریک ِ انصاف نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ رانا ثنااللہ کی یہ بات درست سہی کہ ایک سال بعد انہیں کیوں خیال آیا لیکن چار حلقو ںمیں انگوٹھوں کی شناخت کیوں نہیں کرائی جاتی۔ جمہوری ملک اور معاشرہ میں انتخابات ہی جمہوریت ہیں کہ اس کے ذریعے جمہوری معاشرہ وجود میں آتا ہے اورایسا خوبصورت ہوتا ہے کہ برطانیہ میں ایک وزیراعظم ولسن نے جنہیںپارلیمینٹ میں صرف ایک ووٹ کی اکثریت حاصل تھی نہایت احسن طریقے سے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی۔ پڑوس میں اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے لوک سبھامیں چندگنتی کے ووٹ کم ہوگئے اگر وہ اور ان کی پارٹی چاہتی تو آسانی سے ایک اورگروپ کو مخلوط حکومت میں شامل کرکے اکثریت حاصل کرسکتے تھے لیکن جناب واجپائی نے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کرنے سے انکار کردیا اور جمہوری روایت کے مطابق بھارت میں مڈٹرم انتخاب کرائے گئے کہ ایسا کرنے سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوتی بلکہ جمہوری ادارے مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہر القادری کا تو نعرہ ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچائو۔ جنوری 2013میں انہوں نےلانگ مارچ کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ قریب تھا کہ ان کی ڈیڈلائن ختم ہوتی ’’کسی جانب سے‘‘ وقت کے حکمرانوں سے کہا گیا کہ علامہ صاحب سے مذاکرات کرکے مسئلہ کو حل کیا جائے۔ تو غور فرمائیں کہ صدر زرداری کی ہدایت پر وفاقی کابینہ کاہنگامی اجلاس ہوا جس میں فوری مذاکرات کے لئے مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کے سات رکنی وفد نے کنٹینر میں علامہ طاہر القادری سے مذکرات کئے اور یہ طے پایا کہ الیکشن قواعدمیں اصلاحات کی جائیں گی۔ آئین کی دفعہ 62-61پر مکمل طور پر عمل ہوگا۔ آئین کے تحت مقروض، نادہندگان امیدواروںکی جانچ پڑتال ہوگی۔ اس معاہدہ پر باقاعدہ وزیراعظم پاکستان نے دستخط کئے۔ لیکن یہ بھی تو ہوا کہ حکومت اپنے تحریری معاہدوں سے منکر ہوگئی اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا اور کیاکسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرہ میں حکمران معاہدے تو کرتے ہیں اور بعد میں کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر پھاڑ دیتے ہیں کہ جیسا کہ ایک بڑےرہنما نے بھوربن معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’’قرآن و حدیث تو نہیں تھا۔‘‘ اس وقت ملک کے سیاسی افق پر ہلچل سی محسوس ہو رہی ہے۔جنگ و جیو کے واقعہ کے حوالے سے مسلم لیگ ق واحد جماعت ہے جس نے فوج کےحق میں کئی اہم شہروں میں ریلیاں نکالیں اور چودھری پرویز الٰہی نے ’’انتخابی دھاندلیوں‘‘ کے حوالے سے ایک زور دار پریس کانفرنس کرڈالی جس میں انکشاف کیا کہ جی او آر میں بیٹھاایک شخص تمام دھاندلی آپریشن کا ذمہ دارہے۔ جب چند صحافیوں نے نام پوچھا تو چودھری پرویز الٰہی نے صرف یہ اشارہ دیاکہ اس شخص کا تعلق ان کی برادری سے ہے۔ نام بتانےسےگریز کیا۔ ملک میں ’’قبل از وقت‘‘ انتخابات کے حوالے سے ’’آوازیں‘‘ بھی آرہی ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں بڑی سیاسی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ چودھری برادران، راجہ بشارت، کامل علی آغا اور چند اور رہنمائوں کا ایک وفد لے کر لندن جا پہنچے جہاں پروگرام کے مطاق علامہ طاہر القادری کینیڈا سے پہنچے تھے۔ اندر کی خبر یں تو بہت ہیں تاہم ان دونوں جماعتوں کے درمیان 10نکاتی اتحادہو گیاہے جس پر اگر نظر ڈالی جائے تویہ ایک انتخابی منشور لگتاہے تاہم ابھی انہوں نے ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھا ہے اور’’مڈٹرم الیکشن‘‘ کا مطالبہ نہیں کیاہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس تمام سیاسی ہلچل کے پیچھے کوئی اور ہے۔ اگرایساہے تو پھر وہ کون ہے؟ وزیراعظم میاں نوازشریف نے نندی پور میں کہا ہے کہ احتجاج کرنے والو! خدا کے لئے ملک چلنے د و بتائو کہ احتجاج کیوں؟وزیراعظم شہباز شریف نے بڑے پراعتماد طور پر کہا ہے کہ ترقی کے سفر کے خلاف کوئی دھرنا کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تاہم حکمرانوں کو عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف تو دینا ہوگا ورنہ یہ کھچڑی پکتی رہے گی اور آخر میں یہ خبر کہ دو ’’اچھےلوگ‘‘ حاجی سیف اللہ اور عزیزی مسعود حسن دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حاجی سیف اللہ قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر تھے تاہم ضیا دور میں بنیادی حقوق اور دیگر چند دفعات کو آئین میں شامل کرانے میںان کا بڑا ہی تاریخ ساز کردار تھا۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جن کے دامن پر کرپشن، اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں تھا۔ مسعود حسین ایک ادارے کے سربراہ تھے۔ وہ بنیادی طور پر کالم نگار تھے اور انگریزی اخبارات میں ان کےکالم چھپتے رہے۔ میرا ان سے ایک رشتہ تھا اور وہ یہ تھا وہ خالد حسن مرحوم کے چھوٹے بھائی تھے۔ اللہ دونوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا کرے۔
تازہ ترین