• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں عجب واقعہ ہوا۔ میں نے دو روز کے دوران دو مشاعروں کی صدارت کی۔عجب صورتِ حال اُس وقت ہوئی جب مجھے مسندِ صدارت پربیٹھنے کی دعوت دی جاتی ، ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا کہ عابدی صاحب مشاعروں میں نہیں جاتے۔ ایک جگہ تو یہ بھی کہا گیا کہ انہیں شاعری پسند نہیں۔ مائیکروفون میرے سامنے ہو تو اکثر دلیر ہو جاتا ہوں۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی۔ میں نے کہا کہ میں شعر و ادب کا دلدادہ، بھلا شاعری کا مخالف کیسے ہو سکتا ہوں۔ ہاں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔ میں ٹھہرا اپنے وقت اور اپنے دور سے قدم ملا کر چلنے والا شخص۔ میں اُس وقت مشاعرے سے اُٹھ کر چلا جانا چاہتا ہوں جب ڈھلتی عمر کے شاعر حضرات دوشیزاؤں اور حسیناؤں کے کبھی رُخ پر صدقے ہوتے ہیں اور کبھی رخسار پر قربان ہوتے ہیں۔ کبھی اُن کے سرو جیسے قد پر مرنے لگتے ہیں اور کبھی ہرنی جیسی چال پر جان چھڑکنے لگتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ جو لوگ اتنا زمانہ دیکھ آئے ہیں اور کتنے ہی حالات کا مشاہدہ کر چکے ہیں وہ زمانے اور حالات کی بات کیوں نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ میرا اشارہ برطانیہ میں آباد بعض شاعروں کی طرف ہے۔ اوّل تو اب یہاں نوجوان شاعر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے لیکن جب ملتے ہیں تو ان کا لہجہ سب سے الگ اور اسی طرح ہندوستان پاکستان سے آئے ہوئے شاعروں کا اسلوب سب سے جدا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے، ہمارے بعض بزرگ شاعر لاطینی امریکہ، فلسطین یا افریقہ کی شاعری کو تو جانے دیجئے، خود ہندوستان اور پاکستان میں کہا جانے والاشعر بھی نہیں پڑھتے۔ اوپر سے ایک غضب اور کرتے ہیں۔ نیا شعر نہیں کہتے۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ اپنی وہی پرانی بیاض لے آتے ہیں جن کے اشعار ہم لوگوں کو یاد ہو گئے ہیں۔ اُس میں لکھے ہوئے اشعار اُنہوں نے تیس چالیس برس کی عمر میں کہے ہوں گے۔ ایسے شعروں میں گل و بلبل اور عارض و رخسار کی بات جتنی بھی ہو کم ہے لیکن اگر اب وہ شعر گوئی کا سوتا سوکھ گیا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ اب وہ کوئی اور کام کریں اور یہ نہ کہیں کہ
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اب سنئے دو مشاعروں کا احوال۔ ہوا یہ کہ کچھ عرصہ ہوا مجھے لندن کے ایک مشاعرے کی صدارت کا دعوت نامہ ملا جو میں نے بخوشی قبول کر لیا البتہ اپنی ڈائری میں لکھنا بھول گیا۔ کافی عرصے بعد لندن سے کافی فاصلے پر شہر بریڈفورڈ میں اپنے یارکشائر ادبی فورم کے مشاعرے کی صدارت کی دعوت موصول ہوئی۔ اس تنظیم سے میرا دلی تعلق رہا ہے ، میں نے وہ دعوت بھی قبول کرلی۔ بعد میں احساس ہوا کہ بریڈفورڈ کا مشاعرہ جمعہ کو اور لندن کا مشاعرہ ہفتے کے روز ہے اور یہ دوڑ دھوپ مجھے تھکا مارے گی مگر اب عین وقت پر کسی ایک سے انکار کرنا کسی گستاخی سے کم نہ ہو گا۔ میں جمعہ کے روز اپنے بریڈفورڈ پہنچ گیا۔ کسی برطانوی شہر کو اپنا کہنا عجب سا لگتا ہے مگر بریڈ فورڈ کی بات ہی اور ہے۔ سوچئے کہ میں اس شان سے پہنچا کہ کہیں مسالے بھُن رہے تھے اور کہیں بگھار لگ رہے تھے۔ شہر کے بہت سے شاندار طعام خانوں میں سے ایک میں مشاعرے اور محفل موسیقی کا اہتمام تھا ۔ موسیقی کامعاملہ آسان تھاکیونکہ اس علاقے کو شبنم خان کے روپ میں ایک نہایت سریلی گلوکارہ مل گئی ہیں۔ مشاعرے کا بھی یہ ہے کہ علاقے میں لوگ خوب خوب شعر کہہ رہے ہیں یہ نہ پوچھئے گا کہ کیوں، لیکن ان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ علاقہ شاداب ہے اور ماحول دل کش۔ ایسے میں شاعر بلانا نہیں پڑتے، خود ہی آجاتے ہیں پھر بھی یارکشائر ادبی فورم نے مختلف لہجے کے خیال سے غیر ممالک سے کچھ باکمال شاعروں کو بلا لیا۔ فہرست طویل ہے اس لئے ناموں میں نہیں جاؤں گا البتہ جرمنی سے ایک نوجوان شاعر عاطف توقیر کا آنا تو کمال ہو گیا۔ جینز پہنے ہوئے جس کے گھٹنے گھِس کر بدرنگ ہو چلے تھے اور قمیض باہر نکلی ہوئی۔شیو کافی بڑھاہوا بلکہ داڑھی کم کم سی۔ اسٹیج پر بلایا گیا تو لپک کر نہیں، دوڑ کے اوپر چلا گیا اور جب نام پکارا گیا تو گہری کھرج دار آواز میں ایسا کلام پڑھا کہ مجمع واہ وا کہنے کے بجائے پر جوش تالیاں بجانے لگا۔ کلام کیا تھا، آج کے حالات پر کھلی کھلی گفتگو تھی۔ کچھ لگا لپٹا نہ تھا۔ شدت پسندوں پر، دہشت گردوں پر، خود کش حملہ آوروں اور طالبان پر ضرب اور بے تکان۔ حاضرین ایک ایک مصرعے پر تالیاں بجاتے رہے ۔ بعد میں جب میں نے تقریر کی تو کہا کہ حاضرین تالیاں بجا کر تعریف نہیں کر رہے تھے، تائید کر رہے تھے، جیسے شاعر نے ان سب کے دل کی آواز سن لی ہو۔ مشاعرے کے بعد عاطف سے بات ہوئی تو میں نے کہا کہ شاعر حضرات کب تک اشارے کنایے میں بات کریں گے، تمہیں جو کہنا تھا تم نے کھُل کر کہا، اچھا کیا۔ اس نے جواب دیاکہ یہ لوگ ہمیں تاک تاک کر مار رہے ہیں، ہم ان کی طرف اشارے کنایے کے پھول پھینک رہے ہیں، یہ کون سی ادا ہے؟
رات سوتے سوتے دو بج گئے۔ صبح حلوہ پوری کا ناشتہ تھا جس کی نوبت دوپہر بارہ بجے تک آئی۔ چار بجے لندن کی ٹرین میں بیٹھا اور سوچئے کہ سوٹ کیس اٹھائے وسطی انگلستان کی ایک مشاعرہ گاہ سے نکلا اور شمالی لندن کی دوسری مشاعرہ گاہ میں جا پہنچا۔ لوگ سوچتے ہوں گے مشاعرے سب ایک طرح کے ہوتے ہیں۔آگے سنئے۔اس مشاعرے کا اہتمام دس سال پرانی ایک تنظیم نے کیا تھا جس کا نام اور زیادہ قدامت کا پتہ دیتا ہے، ایسوسی ایشن آف سینئر مسلم سٹیزنز یعنی معمّر مسلم شہریوں کی تنظیم۔ جلسہ گاہ میں دلچسپ منظر تھا۔ ہال دو ٹکڑوں میں منقسم تھا۔ ایک حصّے میں مرد اور دوسرے میں خواتین بیٹھی تھیں۔ یوں سمجھئے کہ ایک طرف رونق تھی اور دوسری طرف جو کچھ تھا آپ خود ہی اسے کوئی نام دے لیجئے۔ یوں بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین اپنے حلئے اور پوشاک وغیرہ کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ بالوں کی رنگت کا تو ذکر ہی کیا۔ پوری صورت حجاب کی سی ہے۔ مرد حضرات ایسے کسی تکلف میں نہیں پڑتے۔ مشاعرہ شروع ہوا تو مجھے حیران کر گیا۔ خواتین نئے دور کے اور اپنے زمانے کے شعر کہہ رہی تھیں۔ مرد حضرات وہی گل و گلزار اور حسن و رخسار میں کھوئے ہوئے تھے۔ یوں بھی سینئر سٹیزنز یعنی معمر شہریوں کا مشاعرہ تھا۔ اس عمر میں بارہا ایسا ہوا ہے۔ بیس بائیس شاعروں میں تین یا چار ایسے تھے جنہوں نے اپنے وقت کو اشعار میں باندھا، جدید لہجے میں شعر کہے اور اپنے دور کے درد اور کرب کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض شاعر نئے شعر نہیں کہہ رہے۔ ان کے لہجے میں تازگی نہیں ۔ یہ بھی ہے کہ پڑھتے نہیں۔ جیسے کہ میں کہتا ہوں، افریقہ، فلسطین اور لاطینی امریکہ کی شاعری نہ پڑھیں، ہندوستان اور پاکستان کی شاعری کا مطالعہ تو کریں۔ عمر ہمیں وقت کے ساتھ چلنے سے نہیں روکتی۔ یہ مانا کہ میری نسل جدید برقی آلات کو مہارت سے نہیں چلا سکتی مگر میرے قلم پر نکھار آنے سے بھی باز نہیں رکھ سکتی۔ آخر میں میری تقریر کی باری آئی تو میں نے یہی سب باتیں کہیں۔ میں نے بریڈ فورڈ کے مشاعرے میں تعریف بٹورنے والے اس جواں سال شاعر کا ذکر بھی کیا جس نے دہشت گردوں اور طالبان جیسے گروہوں کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی۔ میں تقریر ختم کر کے اسٹیج سے نیچے اترا تو حاضرین نے جن میں خواتین کی اکثریت تھی، میرے خیالات کی تائید کی اوراپنے شوہروں کی قدامت پسندی کی شکایت بھی کی۔شدید تھکن کے باوجود ایسی ہی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم رخصت ہونے کو تھے کہ ایک صاحب میرے پاس آئے اور بولے ’’عابدی صاحب ، شدت پسندوں کو کچھ نہ کہئے کیونکہ وہ امریکہ کی پیداوار ہیں‘‘۔
پھر نہ پوچھئے۔یوں لگا جیسے کوئی دھماکہ ہوا۔ سیکڑوں نٹ بولٹ ہوا میں اُڑے اور شاعری کی ساری سرشاری ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئی۔
تازہ ترین