• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بھی اپنے حالات سے بے خبر وزارتِ اطلاعات و نشریات کی دعوت پر قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر سننے اسلام آباد گئے ٗ مگر بہت شور سننے کے باوجود وہاں غربت کے پرخچے اُڑے نہ وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار اپنی تمام تر سادگی و پُرکاری اور بے خودی و ہشیاری کے باوصف جگر ہائے لخت لخت جمع کر سکے ٗ تاہم اُنہوں نے طویل ترین بجٹ تقریر کرنے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے چٹ وصول ہو جانے اور اسپیکر صاحب کی جانب سے بار بار وقت کے حجم کے بارے میں استفسار کرنے کے باوجود وہ منزلِ مراد کی طرف پیش قدمی کرتے چلے گئے۔ مغرب کی اذان ہوئی ٗ تو وہ خاموش رہے اور اُس کے ختم ہوتے ہی دریا کی موجوںمیں طغیانی آ گئی اور نماز کی ادائیگی مؤخر کر دی گئی ٗ شاید اِس لئے کہ وہ پسماندگی کے خلاف جہاد میں پوری قوت کے ساتھ مصروف تھے ٗ تاہم سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کے علاوہ اور دوسرے حاضرین اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے مسجد چلے گئے اوراُنہوں نے نمازِ کفایہ ادا کی۔ جناب اسحق ڈار جو اپنی عزیمت اور استقامت کا نقش جما چکے ہیں ٗ وہ36گھنٹے جاگنے کے دوران اپنے مژگاں سے بجٹ کی اِس قدر دیدہ زیب کشیدہ کاری کرتے رہے کہ اِس پر نظر ٹھہرتی ہی نہ تھی اور ہمیں اِس وقت بے اختیار حضرتِ غالب یاد آئے
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اِس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
بجٹ کے پیچ و خم کے رازدار ہمیں بتائیں گے کہ اعدادوشمار کی دیوار کے پیچھے کیا ہے اور عام آدمی کی قسمت میں قومی وسائل کا کتنا حصہ آئے گا اور ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں سے کب تک نجات پا سکے گا ٗ تاہم پنڈت کہہ رہے ہیں کہ آنے والے سال کے دامن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے اور صحنِ آرزو میں اُمیدوں کے غنچے بھی کھِل سکتے ہیں ٗ مگر اِس کے لئے اپنی ذات سے اوپر اُٹھنا ٗ پوری دلجمعی سے کام کرنا اور بدلے ہوئے حالات کے تیور پہچاننا ہوں گے۔ اِس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اربابِ اختیار بجٹ کا تقدس قائم رکھیں اور انسانی وسائل کو اوّلین اہمیت دیں۔ ہمارے لوگ صلاحیتوں کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ہماری قوم نے حیرت انگیز قوتِ برداشت کا ثبوت دیا ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے اِس کی ذہنی ٗ اخلاقی اور سماجی تربیت اور نشوونما پر بہت کم توجہ دی ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ نے کم ترین پنشن میں سو فی صد اضافہ کر کے غربت مٹاؤ مہم میں بہت بڑا قدم اُٹھایا اور اِس کا کریڈٹ بھی لیا ہے ٗ مگرسچ کہیے کیا آج کی ہوشربا گرانی میں چھ ہزار روپے مذاق نہیں لگتے؟ ہمیں عصرِ حاضر میں ’’خطِ غربت‘‘ کی تعریف بدلنا ہو گی۔ ایک ڈالر کے بجائے دس ڈالر یومیہ کمانے والے کو بھی اِس زمرے میں شامل کرنا ہو گا۔ ملکی وسائل کا رُخ اگر ارب پتیوں سے غربت زدہ عوام تک نہ موڑا گیا ٗ تو کاخِ امراء کے درودیوار دھڑام سے نیچے آ پڑیں گے۔ جناب اسحق ڈار کے بجٹ میں اِس کا خاصا اِدراک پایا جاتا ہے اور اِسی سے اُمید کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔
بجٹ کادن حکومت کے لئے نئی پریشانیوں کا ایک سیلِ رواں لے کر آیا۔ ہم کچھ دوست میجر عامر کے ہاں ظہرانے پر مدعو تھے کہ جیو ٹی وی نے سب سے پہلے خبر دی کہ منی لانڈرنگ کے الزام مین سکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس نے ایم کیو ایم کے جلاوطن راہنما جناب الطاف حسین کو گرفتار کر لیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا کراچی بندہو گیا ہے۔ کچھ وقت کے لئے یوں لگا کہ بجٹ واقعات کے پس منظر میں چلا جائے گا اور جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت کا سلسلہ پورے قومی منظر نامے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ تین بجے سہ پہر ایم کیو ایم کےرہنمائوں نے پریس کانفرنس کی اور سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو پُرامن رہنے کا مشورہ دیا۔ اِس کے باوجود رات گئے نمائش چورنگی پر بپھرے ہوئے مظاہرین جمع ہوئے اور دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔ لوگوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ جناب الطاف حسین کی گرفتاری برطانیہ کے ایک سنگین الزام کے تحت عمل میں آئی ہے اور اُنہیں صفائی کا پورا پورا موقع بھی دیا گیا ہے ٗ تو اِس کے ردِعمل میں کراچی کو بند رکھنا کس حد تک مناسب ہے اور اِن مظاہروں کا برطانیہ پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا۔ چند روز کی بندش سے پاکستان کو اربوں کا نقصان ہو گا اور اِس کی شفایاب معیشت ایک بار پھر گرداب میں پھنس جائے گی۔ اِسی بنیاد پر جناب عمران خاں نے ایم کیو ایم کو یہ صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ احتجاج کے ذریعے کراچی کا امن و امان تہہ و بالا کرنے سے اجتناب کرے اور پاکستان کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھے۔ مشکل کی اِس گھڑی میں پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے قائدین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا اور حکومتِ پاکستان نے بھی قانونی اور اخلاقی امداد فراہم کرنے کا معروف راستہ اپنایا ہے جو اُس کی طرف سے دوراندیشی کا ایک اچھا مظاہرہ ہے۔
حکومت کو اِس آن ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ سنجیدہ حلقوں میں عام تاثر یہ ہے کہ جیو ٹی وی اور بعض ریاستی اداروں کے درمیان جو تنازع چل رہا ہے ٗ اُسے حکومت نے مِس ہینڈل کر کے اِس کی سنگینی میں اضافہ کر دیا ہے۔ بظاہر یہ ایک میڈیا ہاؤس کا معاملہ ہے ٗ مگر وہ پورے میڈیا اور سول ملٹری تعلقات پر اثراندازہو رہا ہے۔ بظاہر بااثر حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھول بیٹھ جائے گی اور حالات معمول پر آ جائیں گے ٗ لیکن ہر گزرتے ہوئے دن میں کشمکش تیز ہوتی جا رہی ہے جو خطرے کی علامت ہے۔ اِس پر قابو پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ حکومت صورتِ حال کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعدکامل غیر جانب داری سے اپنا آئینی کردار ادا کرے اور اعلیٰ عدلیہ بھی راستے کشادہ کرتی چلی جائے۔ اب سارا مسئلہ ضابطۂ اخلاق کے مؤثر نفاذ اور الیکٹرانک میڈیا میں اصلاحات نافذ کرنے کا ہے۔ فوج کے حق میں جو مٹھی بھر عناصر مظاہرے کر رہے ہیں ٗ وہ اِس کی عزت و توقیر میںاضافے کے بجائے کمی کا باعث بن رہے ہیں ٗ کیونکہ پوری قوم اُس کی پشت پر کھڑی ہے اور اِسی طرح وہ آزاد اور ذمے دار میڈیا کی پاسبانی کا عزم بھی رکھتی ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی خوابوں کے جزیرے آباد ہو رہے ہیں۔ اِن خوابوں کی تعبیر کے لئے سیاسی قیادت کو وژن اور قوتِ کار کا ثبوت دینا اور رومانس سے باہر آنا ہو گا۔ وزیراعظم نوازشریف کے خواب اُن کے عہد سے بڑے ہیں اور اُن کے وژن کو جناب شہبازشریف نے اپنے وجود کے اندر تحلیل کر لیا ہے۔ وہ کردار کے غازی بن کر اُبھرے ہیں اور جو منصوبہ شبانہ روز غور و فکر سے تیار کرتے ہیں ٗ اُسے عملی جامہ پہنانے میں اپنی جان کھپا دیتے ہیں۔ اُن کا جوہرِ تخلیق اُنہیں ہر لحظہ بے چین رکھتا ہے ٗ تاہم اُنہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ منصوبوں کی تکمیل تک وہ اپنے عوام کو ڈاکوؤں ٗ راہزنوں ٗ بے رحم پولیس فورس اور سنگدل جرائم پیشہ لوگوں سے کیسے محفوظ رکھ سکیں گے۔ فرزانہ اقبال جیسے دل دہلا دینے والے حادثے سے تمام خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔ اِس کا مداوا اچھی حکمرانی اور قابلِ اعتماد ڈلیوری سسٹم ہے۔ بلاشبہ پنجاب میں گڈ گورننس مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں بہت تیز ہے ٗ لیکن دراندازیوں کی خبریں چھلکتی رہتی ہیں اور خوابوں کے جزیروں میں زلزلے آنے لگتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ
احباب چارہ سازیٔ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیالِ بیاباں نورد تھا
تازہ ترین