• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں نٹ شیل فورم کی منعقدہ کانفرنس میں مجھے شرکت کا اتفاق ہوا جس میں پاکستان کے مایہ ناز پروفیسر میرے دوست ڈاکٹر عطاء الرحمن جن کی ہائر ایجوکیشن کیلئے خدمات قابل قدر ہیں اور وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، حکومت پاکستان نے انہیں نشان اور ہلال امتیاز جیسے اعلیٰ سول ایوارڈ سے بھی نوازا ہے،نے کانفرنس میں ایک پریذنٹیشن دی جس پر میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ یہ دلچسپ معلومات اپنے قارئین سے شیئر کروں گا۔
پریذنٹیشن میں بتایا گیا کہ آنے والا وقت ہائی ٹیک اور نالج اکانومی کا ہے۔ میں ہمیشہ اپنے کالموں میں لکھتا آیا ہوں کہ عظیم لیڈر ملک کی قسمت بدلتے ہیں۔ سنگاپور کی ہائی ٹیک اور نالج اکانومی کا سہرا اس کے عظیم رہنما لی کوان یو کے سر جاتا ہے جنہوں نے سنگاپور کو دنیا کا ایک بڑا ترقی یافتہ ہائی ٹیک ملک بنایا اور آج سنگاپور دنیا کی دوسری بڑی ہائی ٹیک معیشت ہے جسے صحیح معنوں میں ایشین ٹائیگر کہا جاسکتا ہے۔ 1965ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سنگاپور جس کا مجموعی رقبہ صرف 719 اسکوائر کلومیٹر اور آبادی 55 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، قدرتی وسائل نہ رکھنے کے باوجود اپنی افرادی قوت (ہیومن ریسورسس) ڈویلپمنٹ اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی استعمال کر کے آج 519 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کررہا ہے جبکہ اس کی امپورٹ 464 ارب ڈالر ہے اور اس طرح سنگاپور دنیا کا 14 واں بڑا ایکسپورٹر اور 15 واں بڑا امپورٹر ملک بن چکا ہے۔ سنگاپور کی جی ڈی پی 390 ارب ڈالر ہے جبکہ یہ چھوٹا سا ملک 340 ارب ڈالر کے دنیا کے گیارہویں بڑے زرمبادلہ کے ذخائر رکھتا ہے۔ سنگاپور کی موجودہ جی ڈی پی فی کس آمدنی 85,127 ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو دنیا میں تیسری بڑی فی کس آمدنی ہے جس سے وہاں کے لوگوں کے بلند معیار زندگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔
سنگاپور کی معیشت میں ٹیلی کام، بینکنگ، ٹرانسپورٹیشن، مینوفیکچرنگ، بائیو میڈیکل سائنس اور پیٹرولیم ریفائننگ جیسے اہم سیکٹرز شامل ہیں جس میں 7 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کررہی ہیں۔سنگاپور خطے میں ایجوکیشن حب کی حیثیت بھی رکھتا ہے جہاں 80 ہزار سے زیادہ غیر ملکی طالبعلم آئی ٹی اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ سنگاپور کی آبادی میں 44% غیر ملکی پروفیشنلز، ایکسپرٹس اور ورکرز ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ منافع اور گروتھ ہائی ٹیک ٹریڈ کی ہے لیکن پاکستان کی ایکسپورٹ کا دارومدار اب بھی روایتی اشیاء ٹیکسٹائل، لیدر اور چاول وغیرہ کی سستی ویلیو ایکسپورٹس پر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری مجموعی ایکسپورٹس اب تک 25 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز نہیں کرسکیں بلکہ گزشتہ سال کاٹن اور ٹیکسٹائل کے بحران کی وجہ سے یہ کم ہوکر 21 ارب ڈالر کی نچلی سطح پر آگئی تھیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی 23 ارب ڈالر تک بمشکل پہنچے ہیں جس میں آئی ایم ایف کے قرضے اور کمرشل بینکوں میں کسٹمرز کے فارن کرنسی ڈپازٹ بھی شامل ہیں جبکہ ہمارے خطے کے دیگر ممالک نے اپنی ایکسپورٹس بڑھاکر قابل قدر زرمبادلہ کے ذخائر حاصل کئے ہیں۔ دنیا کے 10 بڑے ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک کے مقابلے میں ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر چین کے پاس 3634 ارب ڈالر ہیں جس کے بعد جاپان 1244 ارب ڈالر، سعودی عرب 672 ارب ڈالر، سوئٹزرلینڈ 600 ارب ڈالر، تائیوان 426 ارب ڈالر، کوریا 375 ارب ڈالر، روس 369 ارب ڈالر، برازیل 368 ارب ڈالر، بھارت 350 ارب ڈالر اور ہانگ کانگ 340 ارب ڈالر کے ذخائر رکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے زرمبادلہ کے ذخائر 120 ارب ڈالر، یورپی یونین کے مجموعی ذخائر 743 ارب ڈالر اور چین اور ہانگ کانگ کے مجموعی 3974 ارب ڈالر ہیں۔ ان ممالک کے ذخائر کو دیکھتے ہوئے ہم ان کی مستحکم معیشت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
پاکستان آئی ٹی میں امریکہ اور بھارت کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر پروگرامرز (Programmers) سپلائی کرنے والا ملک جانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود گلوبل آئی ٹی مارکیٹ میں پاکستان کا شیئر نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں موبائل ٹیلی کام کی صنعت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے اور آج 15 کروڑ سے زائد افراد موبائل فون کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ ہمارا قابل اعتبار دوست چین دفاع کے شعبے میں ہمیں ہائی ٹیک ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے جس سے ہم دفاع کے شعبے میں چین کے تعاون سے جے ایف 17 تھنڈر طیارے، آبدوزیں، الخالد ٹینک اور میزائل جیسے جدید اسلحے بناچکے ہیں لیکن پھر بھی ہم سستی ویلیو مصنوعات ایکسپورٹ کرنے والے ملک کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ہمیں نالج اکانومی اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی ایکسپورٹس کو فروغ دینے کیلئے اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ ہمارے نوجوان بھی نالج اکانومی اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوسکیں۔
آج کل دنیا میں بائیو ٹیکنالوجی(Genomics) نے حیرت انگیزترقی اور ناقابل یقین دریافتیں کی ہیں جس پر اب تک کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسرز نے 90 نوبل پرائز ، Trinity کالج کے پروفیسرز نے 32 نوبل پرائز اور کنگ کالج کے پروفیسرز نے 2 نوبل پرائز حاصل کئے ہیں۔ ان دریافتوں میں گولڈن رائس کی دریافت جس میں چاول میں بچوں کیلئے وٹامن اے کی کمی کو دور کرنے کیلئے پرووٹامن اے داخل کردیا جاتا ہے۔ DET1 جین کی دریافت سے آم پورے سال پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ بڑھاپے کو روکنے کیلئے اینٹی ایجنگ Resveratol اور NAD تحقیق، گردے کے علاج اور سرجری کیلئے تھری ڈی امیجنگ، ہنڈا کی دریافت کردہ Mind Reading Hat کے ذریعے بغیر آپریشن دماغ کی سرجری، EEG سینسرز کے ذریعے چلتی کار کو کنٹرول، کانوں کے جدید آلے کے ذریعے غیر ملکی زبانوں کا براہ راست ترجمہ، نابینا افراد کی زبان، اسمارٹ موبائل فون اور الیکٹرونک لالی پاپ کے ذریعے دیکھنے کی صلاحیت، Metamaterials کے ذریعے اشیاء کو شعاعوں کے ذریعے چھپادینا، نوبل پرائز ایوارڈ یافتہ گریفین کے ذریعے جسم کے دو کٹے ہوئے ٹکڑوں کو فوری طور پر جوڑ کر شفایاب کرنا، پتھر سے کاغذ بنانا، گوگل بلون، ٹیکسٹائل کی جدید مصنوعات ای، ایپ اور جیو ٹیکسٹائل جیسی وہ جدید دریافتیں ہیں جو نالج اکانومی اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں اور مستقبل میں دنیا میں کمرشل بنیادوں پر متعارف ہونے کے بعد یہ اشیاء ہماری روزمرہ زندگی میں ایک انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔
میں نے اکثر اپنے کالموں میں لکھا ہے کہ جاپان، کوریا، چین وہ ممالک ہیں جنہوں نے روایتی ایکسپورٹس ٹیکسٹائل، لیدر وغیرہ سے اپنا سفر شروع کیا لیکن ان ممالک میں اجرتوں اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے انہوں نے ہائی ٹیک ٹیکنالوجی اپناکر الیکٹرونکس، آٹو موبائل، موبائل فون اور دیگر جدید آئی ٹی کے شعبوں میں اپنی مہارت اور وسائل منتقل کرکے آج وہ دنیا میں راج کررہے ہیں۔ میری ہمیشہ سے یہ پیش گوئی رہی ہے کہ چین بھی تیزی سے اجرتیں بڑھنے اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ٹیکسٹائل اور لیدر کی روایتی ایکسپورٹس سے نکل کر نالج اکانومی اور جدید ٹیکنالوجی کی ٹریڈ پر مکمل طور پر منتقل ہوجائے گا جو عالمی ٹریڈ کا مستقبل ہے۔ ایم آئی ٹی، ہارورڈ، اسٹین فورڈ جدید تقاضوں کے مطابق کورسز آفر کررہے ہیں جن سے دنیا بھر کے لاکھوں طالبعلم استفادہ کررہے ہیں۔عالمی ٹریڈ کے بدلتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے حکومت کو مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کو بھی ہائر ایجوکیشن، نالج اکانومی اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی پر فوکس کرنا ہوگا ورنہ ہم مستقبل میںعالمی تجارت کے مقابلاتی دور میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
تازہ ترین