• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل سے طاہرہ عبداللہ غصے کے مارے لال پیلی ہورہی ہے۔ ایک باپ نے کمرہ عدالت کے باہر اینٹیں مار مار کر اپنی حاملہ بیٹی کو صرف اس لئے مار ڈالا کہ اس نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔عورت فائونڈیشن کے مطابق سیکڑوں عورتوں کے ساتھ یہ سلوک ہر مہینے ہوتا ہے۔ خیرسے ہمارےایک سابق وزیراعظم نے تو اپنے علاقے میں چار عورتوں کو اس لئے مارنے کا حکم دیا کہ وہ اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتی تھیں اور روز جو جرگے جمائے جاتے ہیں ان میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کا ذکر اذکار تو کسی شمار ہی میں نہیں ہے۔ ہر چند عورتوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی جرگہ کے خلاف بے شمار دفعہ احتجاج کیا گیا ہے مگر بعض مذہبی رہنمائوں کا اصرار ہے کہ ہر قانون ان کے مشورے سے پاس کیا جائے۔ گویا اس ملک کے آئین کو دوبارہ کیا سہ بارہ لکھا جائے گا۔ ایک تو آٹھویں ترمیم کے بعد آئین کا حلیہ بگاڑا گیا۔ اس سے پہلے بھٹو صاحب نے ترامیم کرکے زبردستی جمعہ کی چھٹی کے علاوہ اور بہت سی ایسی باتیں کیں کہ جن کاذکر اور پابندی ملائیشیا تک میں نہیں ہے۔
پنٹو کو غصہ کیوں آیا ہے۔ یہ ٹائٹل تھا۔ ہندوستان کی ایک فلم کا کہ جس میں ایمانداری پہ چلنے والے شخص کو قدم قدم پر ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ پاکستان میں یہ فلم اس لئے بھی پسند کی گئی کہ لوگوں کے دلوں کی آواز تھی۔ اب وزیراعظم پاکستان، ہندوستان سے واپس آئے ہیں تو مودی صاحب نے محبت کے جواب میں چارج شیٹ پکڑا دی ہے۔ ابھی نئے نئے آئے ہو، سانس تو لو کہ کم بخت وہی ممبئی کیس پھر یاد آئے جارہا ہے۔ دونوں میں سے کسی کو بھی تجارت کے ساتھ فلائٹ بڑھانے اور ویزے کی پابندیاں نرم کرنے کا خیال نہیں آیا۔ عوام ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے تو کشمیر کے کسی نہ کسی سیکٹر میں دونوں طرف کی فوجیں اشتعال دلاتی اور قوم کو بھڑکاتی رہیں گی اور تو اور افغانی صدر بھی پاکستان کے خلاف شکایتیں لگاتے رہے۔
ارے بھئی کب تک لڑو گے۔ انہی لڑائیوں کو یاد کرکے ہمارے لکھنے والے 64 سال ہونے کے باوجود اسی موضوع کو ادھر ادھر سے پکڑ کر لارہے ہیں۔ ہرچند وہ تحریریں غضب ناک ہیں۔ تازہ تحریر یونس جاوید کا ناول ’’ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘ بہت خوبصورت ناول ہے کہ جب وہ کہتا ہے کہ ’’اگر قائد اعظم کچھ سال اور جیتے تو ایوب خاں ہمیشہ کیلئے اوجھل ہوجاتا اور زمین پر نہ جبر اترتا، نہ آمریت اور نہ ہی انصاف کو گہن لگتا۔ نہ بددیانتی کا بیج بویا جاتا،مگر یہ تو بتائو یونس جاوید کہ جب حاملہ لڑکی کو اینٹوں سے مارا جارہا تھا تو پولیس کہاں تھی حکومت کہاں تھی، خاص طور سے وہ پولیس جو پانچ لڑکوں کو فلم دیکھتے ہوئے تو گرفتار کرسکتی ہے مگر اینٹوں سے مار دینے والی لڑکی کو بچانے کیلئے آگے نہیں آئی۔ شہباز شریف صاحب! ہر مرحلے پر آپ آگے آتے ہیں۔ دیجئے سزا اس باپ کو، اس شقی القلب باپ کو جس نے صرف اپنی انا کیلئے بیٹی کو مار دیا۔ جب تک فوری سزائیں نہیں دی جائیں گی شہر شہر اور گائوں گائوں یونہی عزت کے نام پر نوجوان لڑکیوں کا قتل جاری رہے گا۔
منٹو نے کھول دو، کہانی لکھی تھی تو اس وقت سے آج تک اس کہانی کا اس طرح تجزیہ کیا جارہا ہے جیسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا تجزیہ جاری ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر تحریروں میں، دونوں ممالک میں مظالم کی حساب لیا جارہا ہے۔ یونس جاوید ہو کہ مرزا اطہر بیگ کہ مستنصر تارڑ یا گزشتہ کی جانب جائیں تو عبداللہ حسین سے لے کر کرشن چندر تک سب نے انہی موضوعات کو رقم کیا۔ یہ ایسا زخم ہے کہ مندمل ہی نہیں ہوتا ہے مگر جیسا کہ نواز شریف صاحب نے کہا ہے ہمیں اب آگے بڑھنا چاہئے۔ میرے بیٹے نے اسپین سے فون کرکے کہا ’’اماں پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے، کس طرح عورت کو دن دہاڑے مار دیا گیا۔ اس نے بتایا کہ ایک عراقی نے اسپین آکر ایک مقامی عورت سے شادی کی۔ جب بیٹی بارہ برس کی ہوئی تو وہ اس کو حجاب پہنانے کیلئے بیوی سے چھپ کر عراق لے گیا۔ ہسپانوی عورت نے عدالت کے ذریعہ مقدمہ کیا۔حکومت نے اس کی مدد کی اور وہ عورت اپنی بچی واپس لینے میں کامیاب ہوئی مگر وہ تو بچی کی ملکیت کا مسئلہ تھا۔ یہاں تو خاتون عدالت میں تھی۔بس یہی شور ساری دنیا کے چینل ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ مسلمان مرد، اپنی جان بچانی ہو تو غیر ملکی اور غیر اسلامی عورتوں کے ساتھ رہنے لگتے ہیں۔ اولاد بھی پیدا کرتے ہیں۔ جب بچے، خاص کر لڑکیاں جوان ہونے لگیں تو انہیں اسلام یاد آنے لگتا ہے۔ اپنی دفعہ وہ بھول جاتے ہیں جب غیر مسلم سے اس لئے تعلقات قائم کرتے ہیں کہ وہاں کی شہریت مل جائے پھر ان کو اپنا مسلمان ہونا، خاص کر بیٹی ہو تو بہت یاد آتا ہے۔ یونس جاوید کا ناول بھی ایک طرح سے مسلمان اور سکھوں کے پچھتاوے کا منظر لئے ہوئے ہے کہ ہم نے اس وقت کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے۔مگر یہ خون کی پاس کا معاملہ تو ہماری سرزمین سے لے کر لندن تک پھیلا ہوا ہے۔ وہاں بھی ایک 70 سالہ خاتون نے گوشت کی جگہ دال بنا دی تو شوہر نے ناراض ہو کر اسے قتل کر دیا۔ عورت کی زندگی خاص کر پاکستانی مردوں کی نظر میں اتنی ارزاں ہو گئی ہے کہ اس کی دال برابر بھی قیمت نہیں ہے۔ ہم ایسے موضوعات پہ سیاپا کرنے سے گزریں تو پھر سوچیں کہ آخر امریکہ نے کیوں کہا ہے کہ وہ شامی باغیوں کو فوجی تربیت دے گا۔ یہ وہی کہانی دہرائی جارہی ہے جو افغانستان میں ہوچکا ہے۔ وہی طالبان آج نہ صرف ان کی جان کو آئے ہوئے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ اللہ خیر کرے کہ ادھر ہندوستان میں ہندوتوا کا کہنا کہ فجر کی اذان بند کی جائے اور ادھر کوئٹہ میں ہندو بچیوں کا اسکول جاتے ہوئے اغوا ہونا، آخر یہ ساری حرکتیں کیا رنگ لائیں گی۔ میرے منہ میں خاک۔ یوں تو انسانیت فنا اور وحشتیں راج کریں گی۔ اب آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ کشور ناہید اور پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے!
تازہ ترین