• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے عوام گذشتہ 67سالوں میں جن حالات سے دوچار رہے ہیں ، ان جیسے یا ان سے بھی زیادہ بدترین حالات سے امریکا کے قدیم باشندے صدیوں تک نبرد آزما رہے ہیں لیکن نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں ان کے بعض لوگوں کی سیاسی اپروچ انتہائی مدبرانہ تھی ، جسے بعد ازاں تاریخ نے بھی درست ثابت کیا ۔ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایسی ہی درست سوچ کے حامل ایک سیاہ فام نوجوان کا قصہ یاد آ رہا ہے ، جسے بے دردی سے قتل کر دیاگیا تھا ۔ فریڈ ہیمپٹن (Fred Hampton ) نامی یہ نوجوان امریکی ریاست ایلینائے میں ’’ بلیک پینتھر پارٹی ‘‘ کے ڈپٹی چیئرمین تھے ۔ وہ نسل پرستی کے خلاف نہ صرف پر امن جدوجہد کے حامی تھے بلکہ پرتشدد کارروائیوں کے سخت مخالف تھے لیکن 4 دسمبر 1969ء کو پولیس نے ان کے فلیٹ پر چھاپہ مارا اور انہیں گولیوں سے چھلنی کردیا ۔ ان کے ساتھ ان کا ایک اور ساتھی بھی مارا گیا ۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے وہی روایتی مؤقف اختیار کیا ، جو آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کی جدید نو آبادیاتی ریاستوں میں اختیار کیا جاتا ہے ۔ پولیس نے کہا کہ فریڈ ہیمپٹن نے پہلے فائرنگ کی تھی ۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں وہ ماراگیا حالانکہ بعد ازاں عدالتی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ فلیٹ میں کسی قسم کا اسلحہ ہی موجود نہیں تھا ۔ جس وقت فریڈ ہیمپٹن کو قتل کیا گیا ، اس وقت ان کی عمر صرف 21 سال تھی لیکن وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوئے ۔ ان کے پاس اپنے آباؤ اجداد کی کئی نسلوں کی دانش تھی ۔ ان کی زندگی میں ہی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے کئی پر امن کارکن پولیس اور ’’ نامعلوم ‘‘ لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔ انہیں اس بات کا بھی مکمل ادراک تھا کہ امریکی ریاست پر قابض حکمران اشرافیہ بے رحم نسل پرست ہے اور وہ طاقت کے وحشیانہ استعمال اور خونریزی سے اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ اس کے باوجود وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آگ کے ساتھ ہی آگ سے لڑا جا سکتا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ پانی سے آگ کو بہتر طور پر بجھایا جا سکتا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ نسل پرستی کے ساتھ نہیں لڑا جا سکتا ۔ اتحاد اور یکجہتی سے نسل پرستی کے خلاف ہم بہتر طور پر لڑ سکتے ہیں ۔ ‘‘
یہ قصہ سندھ کے ممتاز دانشور ذوالفقار ہالیپوٹو کی ایک فیس بک پوسٹ کو پڑھ کر یاد آیا ۔ ذوالفقار ہالیپوٹو کا کہنا یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے سندھیوں کی حمایت میں بات کی ہے ۔ نریندر مودی نیوفاشزم کے نمائندہ ہیں ۔ اس بات پر ان کی حمایت کرنا کہ انہوں نے سندھیوں کی حمایت میں بات کی ہے ، نسل پرستی ہے اور نسل پرستی قابل مذمت ہے ۔ ذوالفقار ہالیپوٹو کی یہ سوچ اور اپروچ فریڈ ہیمپٹن کی طرح درست ہے لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بعض نام نہاد قوم پرست عناصر شعوری یا لاشعوری طور پر نسل پرستی کے عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ ان میں سندھی ، سرائیکی ، بلوچ ، پختون اور پنجابی ’’ قوم پرست ‘‘ عناصر شامل ہیں ۔ نسل پرستی نے وادی سندھ کی تاریخی اکائی ہونے کی حیثیت پر کاری ضرب لگائی ہے اور اس کا فائدہ پاکستان کی اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ کو ہوا ہے ، جو لوگوں کو تنہا اور تقسیم کرکے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہے ۔ قوم پرستی جرم نہیں ہے مگر نسل پرستی جرم ہے ۔ فریڈ ہیمپٹن اور ذوالفقار ہالیپوٹو کی سوچ کو ’’ انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ‘‘ نامی تنظیم نے درست ثابت کیا ہے۔ اس تنظیم کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نہ صرف پر امن راستہ اختیار کیا بلکہ پاکستان کی تمام قوموں سمیت عالمی سطح پر اپنے دوستوں کی حمایت لینے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ قوم پرست بین الاقوامیت اور پر امن بقائے باہمی کے قائل ہوتے ہیں ۔ وہ جبرو استبداد کے خلاف اپنی جدوجہد اس بنیادی اصول پر آگے بڑھاتے ہیں کہ ہر نسل ، ہر طبقے اور ہر صنف کو جینے کا حق ہے ۔ وہ تشدد سے گریز کرتے ہیں ۔ نسل پرستی اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ وہ تشدد اور فاشزم کا مرکب ہوتی ہے ۔ نسل پرست اپنے لوگوں کو حقیقی دوستوں سے دور رکھتے ہیں اور اپنے دشمنوں کی مدد لینے میں عار محسوس نہیں کرتے ۔ یہ نسل پرستی کا بنیادی وصف ہے ۔ جو لوگ نسل پرستی کے عذاب میں مبتلا ہیں ، وہ دراصل پاکستان کی حقیقی حکمران اسٹیبلشمنٹ کی ہئیت ترکیبی کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کی ہئیت ترکیبی کو اس طرح سمجھا جائے ، جس طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے سمجھا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کے بارے میں ان کی ہر پیش گوئی درست ثابت ہوئی ۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کم از کم اتنی تفہیم تو ہونی چاہئے ، جتنی پیر علی محمد راشدی مرحوم نے اپنے مضامین کے ذریعہ کی تھی ۔ پیر علی محمد راشدی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بہت اندر تک جانتے تھے ۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے بارے میں روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ، جو ’’ روداد چمن ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا ۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ باتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں کہ کراچی سمیت پورے ملک میں خونریزی کیوں ہو رہی ہے اور پاکستان میں ہر قسم کی انتہا پسندی کس طرح پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے مفادمیں ہے ۔ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ حکمران اسٹیبلشمنٹ کس حد تک خود نسل پرستی کے بحران کا شکار ہے اور کیوں مزید بدامنی اور انتہا پسندی کے ذریعہ اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ اس ماحول میں سوشل اور لبرل ڈیموکریٹک فورسز بے بس نظر آتی ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو کسی نعرے پر جمع کرنے کے قابل نہیں رہی ہیں ۔ پاکستان کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے اب اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ قومی جمہوری سوچ رکھنے والی قوتیں آگے آئیں ۔ یہ بات 1960ء کی دہائی میں بھی کچھ حلقوں نے کی تھی ، جو وقت کا تقاضا بن کر سامنے آئی ہے ۔ انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کارکنوں کے لانگ مارچ کے ملک بھر میں ہونے والے بھرپور استقبال نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں قومی جمہوری تحریک چل سکتی ہے ۔ فریڈ ہیمپٹن ، ذوالفقار ہالیپوٹو اور ماما قدیر کی سوچ رکھنے والے لوگ اکثریت میں ہیں ۔ ایسی سوچ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین