• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی سیف اللہ خان کی وفات کے بعد 1970کے عشرے میں پارلیمانی ایوانوں میں ہلچل مچانے والے سیاستدانوں میں سے صرف سردار شیر باز خان مزاری، غلام مصطفیٰ کھر اور سردار عطا اللہ مینگل زندہ رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر سلامت رکھے۔
حاجی سیف اللہ خان بہاولپور متحدہ محاذ کے ٹکٹ پر 1970 میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ بہاولپور ڈویژن کے ایک دورافتادہ قصبہ اللہ آباد کا یہ غیر معروف نوجوان محض اپنی پارلیمانی مہارت کی بنا پر صوبے اورملک میں اپنے نام کا سکہ جمائے گا اور ایک دن جاوید ہاشمی، بیگم عابدہ حسین، الٰہی بخش سومرو، شیخ رشید احمد، سردار عبدالحمید جتوئی، ایئرمارشل نور خان اور سردار آصف احمدعلی اس کی قیادت میں جنرل ضیا الحق کی قائم کردہ غیرجماعتی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔
حاجی صاحب پنجاب اسمبلی میں پہنچے تو اس تاریخی عمارت کے در و دیوار نواب کالا باغ کے عہد ستم میں جرأتمندی اورسیاسی دائو پیچ کے ذریعے مطلق العنان حکمرانی کا رعب و دبدبہ خاک میں ملانے والےارکان اسمبلی باقی بلوچ، ایم حمزہ اورخواجہ محمد صفدرکی لیاقت و مہارت کے گواہ تھے جبکہ حاجی صاحب کو علامہ رحمت اللہ ارشد کے پارلیمانی تجربے، ابوالکلامی خطابت اور تابش الوری و خورشید انور کی شعلہ بیانی کا سامنا بھی تھا۔
حاجی صاحب نے ایوا ن میں تحاریک ِ التوائے کار نکتہ اعتراض کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلانا شروع کیا۔ ابتدا میں اکثریت نے نوجوان، نوآموز اور ناتجربہ کار رکن اسمبلی کی نکتہ سنجی کو محض اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانے کا حربہ سمجھا مگرعبوری آئین، قائدے قانون اور ضوابط کار کی روشنی میں اس نوجوان نے سرکاری پارلیمانی پارٹی کے لئے بزنس چلانا مشکل بنا دیا توپتہ چلاکہ ؎
ایں چیزے دیگر است
ملک غلام مصطفیٰ کھرکو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہوا تو کھر صاحب کی خواہش تھی کہ ملک معراج خالد چپ چاپ استعفیٰ دے کر مرکز سدھار جائیں۔ ایوان انہیں الوداع کہے نہ پارلیمانی پارٹی ان کی خدمات کا اعتراف کرے۔ ملک صاحب افسردہ تھے۔ حاجی صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔ ہلچل مچ گئی ۔بھٹو صاحب نے قانونی ماہرین سے مشورہ کیا سب کا کہنا تھا اسمبلی اجلاس بلائے بغیر چارہ نہیں چنانچہ اجلاس ہوا۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔ پورے ایوان نے ملک صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا اور وہ باعزت طور پر رخصت ہوگئے۔ ملک معراج خالد جب بھی یہ واقعہ سناتے حاجی صاحب کے لئے اظہارِ تشکر ان کی آنکھوں سے چھلکتا۔
1985 کے غیرجماعتی انتخابات میں وہ خانپورسے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سید اسد حسین شاہ، شیخ فیاض حسین اور خواجہ محمد ادریس نے دوستوں کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلائی۔ محمد خان جونیجووزیراعظم نامزد ہوئے تو چاروں صوبوں کے سارے خاندانی ارکان اسمبلی سرکاری پارلیمانی پارٹی کاحصہ بن گئے جو چند رہ گئے وہ منتشر تھے جنہیں حاجی صاحب نے اکٹھا کیا۔ بی بی عابدہ حسین، جاوید ہاشمی، ڈاکٹر شفیق چودھری اور ڈاکٹر شیرافگن نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ایک آزاد پارلیمانی گروپ وجودمیں آ گیا۔اس زمانے میں حاجی صاحب کے پارلیمانی جوہر پورے ملک اور قانون و آئینی حلقوں پر کھلے۔
حکومت نے 1973کے آئین کی بحالی کے لئے آٹھویں ترمیم کا جو مسودہ منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا وہ حاجی صاحب کے نکتہ اعتراض اور متاثر کن دلائل کی بنا پر سرکاری پارلیمانی پارٹی نے مسترد کردیا جو جونیجو صاحب اور جنرل ضیا الحق دونوں کےلئے دھچکا تھا۔ مرحوم اقبال احمد خان بتایا کرتے تھے کہ رات گئے ہونے والے اجلاس میں حاجی صاحب نے ارکان اسمبلی کو مدلل و متاثر کن گفتگو سے مسحور کردیا اور دوسرے دن پارلیمانی پارٹی میں اس ترمیمی مسودے کا دفاع کرنا ممکن نہ رہا چنانچہ مزید پریشانی سے بچنے کےلئے یہ مسودہ ترامیم واپس لے لیا گیا۔
دوسرے مسودے پر ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں بحث ہوئی حتیٰ کہ وزیراعظم نے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق سے کہا کہ وہ حاجی سیف اللہ صاحب سے خود بات کریں کیونکہ ان کی آئینی و قانونی موشگافیوں کا توڑ شریف پیرزادہ کے لئے ممکن ہے نہ عزیز اےمنشی اور اقبال احمد خان کوئی دائو پیچ آزمانے کےقابل۔ بالآخر آزاد پارلیمانی گروپ سے فوجی حکمران نے خود تبادلہ خیال کا اہتمام کیا۔ عجز و انکسار اور شیریں بیانی سے کام نہ چلا تو اسمبلی توڑنے کی دھمکی دی مگر حاجی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے اور جنرل ضیا آٹھویں ترمیم کو جس انداز میں منظور کرانا چاہتے تھے دوتہائی اکثریت کے باوجود نہ کراسکے۔
سرکاری پارلیمانی پارٹی اور حکومت حاجی صاحب سے کس قدر تنگ تھی اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنرل ضیا الحق نے سید فخر امام کو سپیکر کے منصب سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا اور مسلم لیگ نے اپنی پارلیمانی اکثریت کی بنا پراس باوقار سلجھے ہوئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدان کو اس منصب سے ہٹا دیا تو وفاقی وزیر خاقان عباسی (شاہد خاقان عباسی کے والد) نے کابینہ کے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی کہ سمجھا بجھا کر حاجی سیف اللہ کو سپیکر بنادیا جائے تاکہ ہم سب کی جان اس کی نکتہ طرازیوں سے چھوٹے۔ اقبال احمدخان، زین نورانی نے مل کر حاجی صاحب کو کس طرح وفاقی وزیر بننے پر آمادہ کیا۔ یہ کہانی ڈاکٹر شفیق چودھری بیان کرسکتے ہیں یا پھر موقع کے گواہ شیخ رشید احمد۔
1993 میں میاں نوازشریف اور غلام اسحاق خان کے مابین پانی پت کی دوسری لڑائی شروع ہوئی تو حکمران جماعت نے پنجاب میں اپنا کلہ مضبوط کرنے کے لئے میاں منظور احمدوٹو کی منتخب حکومت کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا۔گورنر راج اس لئے لگانامناسب نہ تھا کہ اس منصب پر چودھری الطاف حسین براجمان تھے چنانچہ پارلیمینٹ کےمشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کرکے میاں اظہر کو صوبے کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیاگیا۔ یہ خالد ایم اسحٰق، خالدانور اور دیگر قانون دانوںکی رائے تھی مگر حاجی سیف اللہ خان نےاس فیصلے کو خلاف قانون، ناقابل عمل اور آئین کی روح سے متصادم قرار دیا بالآخر حاجی صاحب کی رائے درست ثابت ہوئی اور میاں اظہر کو سول سیکرٹریٹ میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہ مل سکی اور میاں صاحب کو بار دگراستعفیٰ دینا پڑا۔
حاجی صاحب مرنجان مرنج ، سادگی پسند، وضعدار اور شریف النفس سیاسی کارکن تھے جو مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ موروثی کلچر میں کبھی اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہ کرسکے۔ سرائیکی وسیب میں جو عملاً نوابوں، مخدوموں، جاگیرداروںاور وڈیروں کی نگری ہے وہ اکیلے جمہوریت، شہری آزادیوں، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کا علم بلند کئے گوشتہ نشینی کی زندگی بسر کرتے رہے جبکہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
مجھےجب بھی کسی آئینی بحث اور قانونی مناقشے کے دوران مشورہ درکارہوتامیں حاجی صاحب کو فون کرتا اوروہ میری خوش دلی سے رہنمائی فرماتے۔ انہوں نےاپنے زیر مطالعہ آئین بھی عطا کی جس پر حاجی صاحب کے نوٹس سے ہمیشہ مدد ملتی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ڈاکٹر طاہر القادری کی رٹ پٹشن محض کنیڈین شہری ہونے کی وجہ سے مسترد کی توحاجی صاحب نے سرپیٹ لیا وہ اس فیصلے کو آئین کی صریح خلاف ورزی ، بنیادی انسانی حقوق سے مذاق اور حلف کے تقاضوں سے انحراف قرار دیتے تھے مگرسیاسی سطح پر اس فیصلے کو خوب سراہا گیا۔
حاجی صاحب جب بھی لاہور آتے فون پرآمدکی اطلاع دیتے اور ملاقات کاموقع فراہم کرتے۔ ذرائع ابلاغ میں ان کے مداحوںکی تعداد بہت زیادہ تھی مگر آخری دنوں میں رابطے محدودکردیئے تھے اور بہت کم لوگوں سے ملتے۔ میڈیا نے بھی انہیں فراموش کردیا تھا۔ ان دنوں ویسے بھی میڈیا کسی صاحب ِ علم ، باکردار ، سیلف میڈ اور سادگی پسند شخص کو کہاں لفٹ کراتا ہے اب توزبان درازی، الزام تراشی، سر پھٹول اورچیخم پکار سکہ رائج الوقت ہے۔ حاجی صاحب جیسے لوگوں کی گنجائش کہاں؟ ملتے یا فون پربات کرتے تو اختتامی الفاظ ہمیشہ یہی ہوتے ’’اللہ آپ کو باعزت، باعظمت، باکرامت، باسلامت رکھے‘‘
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہ رہی
تازہ ترین