• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پچھلے چند دنوں سے اربوں روپے کے بجٹ اور کروڑوں روپوں کی رات دن ٹی وی پر خبریں سن کر دل اُکتا گیا اور اچانک حبیب جالب کے مندرجہ بالا اشعار ذہن میں آگئے۔ سوچا قارئین بھی اربوں روپے کے خسارے اور منافع کی خبریں اور کھربوں روپوں کے قرضوں کی خوش خبریاں سن کر محظوظ ہورہے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ بس اب ان کے حالات آناً فاناً درست ہوجائیں گے اور کھربوں روپوں کے قرضوں کا عشر عشیر ان تک بھی پہنچ جائے گا۔ یہ خبریں اور بجٹ سنتے سنتے میں اس عمر کو پہنچ گیا ہوں مگر آپ یقین کریں کہ پچھلے پچاس برسوں میں ہر بجٹ ملک کو پیچھے کی طرف دھکیلتا چلا گیا۔ روپے کی قدر میں کمی ہوتی گئی۔ مہنگائی بڑھتی گئی۔ آٹے دال کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 4روپے والا ڈالر 100 روپے کا ہوگیا۔ آج صبح ہی کسی اخبار میں میں نے پڑھا کہ 1947ء میں ڈالر اور روپے کی قیمت ایک تھی۔ یعنی ایک روپیہ ایک ڈالر کے برابر تھا۔ پھر ہمارے بجٹ آنے شروع ہوئے اور ایک ڈالر 4روپے کا ہوگیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر مبشر جوکہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے وہ وزیر خزانہ بنے اور ڈالر 9روپے کا ہوگیا اور پھر ہر بجٹ کے بعد روپے کی قیمت میں کمی اور ڈالر کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ 100روپے سے بڑھ کر 107روپے کا ہوگیا۔ یہ تو بھلا ہو ایک خلیجی ملک کا جس نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ہمارے خزانے میں ڈیڑھ ارب ڈالر جمع کروائے تو ڈالر کو شرم آگئی اور وہ اخلاقاً سو روپے سے کم ہوگیا مگر کتنے دن تک۔ ایک کاروباری لوگوں کی محفل میں بیٹھا تھا کہ سنا تمام ایکسپورٹر ایک اعلٰی کاروباری شخصیت کو جو حال ہی میں حکومتی عہدے پر براجمان ہوئی ہے کے سامنے ڈالر کی قیمت میں کمی کا رونا رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر ڈالر 100روپے سے کم ہوگیا تو ہم تو مرجائیں گے۔ حکومتی عہدیدار نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو۔ میری بات ہوگئی ہے اب یہ 98 روپے سے کم نہیں ہوگا بلکہ 98 اور 102 کے درمیان تیرتا رہے گا۔ اس پر ایکسپورٹرز کے چہرے تمتما اٹھے اور اپنے حکومتی عہدیدار کاروباری بھائی کو داد دینے لگے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ امپورٹرز حضرات کا اس سلسلے میں کیا ردعمل ہوگا کیونکہ جب روپے کی قیمت کمزور ہوتی ہے تو امپورٹڈ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور امپورٹرز حضرات کے منافع کی شرح پر قدغن لگ جاتی ہے کیونکہ گاہک کی قوت خرید جواب دے جاتی ہے اور اس طرح سیل میں کمی ہونے سے کاروباری عمل سست پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقوم کا حجم سن کر دل تھام لیا اور سوچا کہ کاش یہ تمام پیسے اس مد میں خرچ ہوجائیں جس کام کے لئے رکھے گئے ہیں۔ ہم بطور قوم بہت محنت کش لوگ ہیں ہمارے لوگوں نے لندن، امریکہ اور دوسرے ممالک میں جاکر محنت مزدوری اور تجارت کرکے بے انتہا ترقی کی ہے اور برطانیہ اور امریکہ کی معیشت میں بھاری ٹیکس دے کر ان کی ترقی میں حصہ لیا چونکہ وہاں میرٹ سسٹم ہے اور محنت اور ایمانداری کی قدر دانی ہے اس لئے ہمارے لوگ وہاں جاکر اپنا کاروباری مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں ہمارے ڈاکٹر چھائے ہوئے ہیں۔ ہر اچھے اسپتال میں آپ کو پاکستانی ڈاکٹر اعلٰی مقام پر ملے گا کاش یہی نظام یہاں پر بھی رائج ہو جائے اور محنت اور ایمانداری کی قدر ہو جائے اور میرٹ پر کام کرنے والے لوگوں کو ان کی محنت کا صلہ مل جائے بقول فیض
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے
بہرحال امید پر دنیا قائم ہے اور ہمیں ہمیشہ مثبت انداز میں سوچ رکھنی چاہئے اور اچھے دنوں کی توقع کرنی چاہئے جوکہ ایک دن اس پاک وطن میں بھی ضرور آئیں گے۔ میں ہمیشہ پرامید رہتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ میری ملک کو آگے بڑھتا دیکھنے کی خواہش میری زندگی میں پوری ہوجائے۔ عین بجٹ کی تقریر والے دن لندن سے بری خبر آئی کہ الطاف بھائی کے گھر پر برطانوی پولیس وہاں کے وقت کے مطابق صبح 5بجے پہنچ گئی ہے۔ میں اسلام آباد سپریم کورٹ میں تھا۔ جب ایک بجے کمرہ عدالت سے باہر نکل کر بار روم میں آیا تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی میں نے فوراً کراچی اپنے گھر اور دفتر فون کیا پتہ چلا کہ پورا شہر، پیٹرول پمپ، مارکیٹیں، دفاتر سب آناً فاناً بند ہوگئے ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا نے خصوصی نشریات شروع کردیں۔ مختلف خبروں اور افواہوں کی وجہ سے لوگ بے چین تھے۔ خیر آخرکار بھائی کو اسپتال منتقل کرنے کی خبر آئی اور پھر رابطہ کمیٹی نے بھی لوگوں کو پرسکون رہنے کی تاکید کی اس کیس میں ضمانت کی درخواست لگائی جاسکتی ہے اور خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہائی کے امکانات روشن ہیں۔ اس وقت کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منی لانڈرنگ کے کیسوں میں برطانوی عدالتوں کا رویہ سخت ہے مگر ہر کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں اور یہ کیس دوسرے کیسوں سے مختلف ہے اور (BETTER FOOTING) یعنی مضبوط بنیاد پر ہے اور اس میں صحت کی بنیاد پر ضمانت کے روشن امکانات ہے۔ بہرحال ہماری ہمدردیاں اور دعائیں بھائی کے ساتھ ہیں۔ اللہ بہتر کرے گا۔ آخر میں حبیب جالب کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ ؎
کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں
تازہ ترین