پاک چین اکنامک کاریڈور کا تصور بے حد خوش کن ہے۔ کاشغر سے شروع ہونے والی شاہراہ گوادر تک جائے گی، ریلوے ٹریک بھی پہلو بہ پہلو چلے گا۔ گہرے سمندر والی دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ کا اعزاز گوادر کو حاصل ہوگا، جہاں جدید ترین انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی ہوگا۔ کاشغر اور اسلام آباد کے مابین آپٹک فائبر لائن اس کے علاوہ ہوگی۔ ان منصوبوں کو آگے بڑھانے کیلئے اسلام آباد میں پاک چین اکناک کاریڈور سیکریٹریٹ 27اگست 2013ء سے کام کررہا ہے، مگر بعض حلقے اسے کسی اور انداز میں لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، جو کھلی آنکھوں سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ پراجیکٹ بھی اسی قسم کا ایک خواب ہے جو وطن عزیز کے حکمراں خود بھی دیکھ رہے ہیں اور عوام کو بھی دکھارہے ہیں۔ اخراجات کا تخمینہ 35 بلین ڈالر کاہے عرصہ تکمیل گو متعین نہیں مگر سرکار کی خواہش ہوگی کہ جاری ٹرم کے بقیہ چار برسوں میں زیاہ تر کام نمٹ جائے۔ بے شک 35 بلین ڈالر بہت بڑی رقم ہے۔ ہنوز یہ بھی واضح نہیں کہ اس میں چین کا حصہ کتنا ہوگا اور پاکستان کو کس قدر ذمہ داری لینا پڑے گی۔ مگر ایک چیز واضح ہے کہ انرجی، انفرا اسٹرکچر اور داخلی شاہراہوں پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ پاکستان کو خود برداشت کرنا پڑے گا چین کی جانب سے تعاون آیا تو قرضہ کی شکل میں ہوگا۔
بےشک پاک چین دوستی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے جس کیلئے ہمہ موسمی، ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری جیسے استعارات استعمال ہوتے ہیں۔ مگر یہ واضح رہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذبات نہیں چلتے ہر کوئی اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کے حوالے سے بھی خبر نکلی تھی کہ پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کو دوسری جانب سے آنے والی بعض شرائط و تجاویز پر تحفظات تھے۔ جن کا تعلق چینی کمپنیوں، افرادی قوت اور مشینری سے تھا اور اعلیٰ سطحی ہدایات پر جن سے صرف نظر کرلیا گیا تھا۔ پاکستان چین سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا مگر ہماری بدقسمتی کہ ایسا نہیں کرپائے۔ فریقین میں آزاد تجارت کا معاہدہ (FTA) ہونے کے باوجود ہماری دو طرفہ تجارت افسوسناک حد تک کم ہے جبکہ اس حوالے سے بعض ممالک نے اپنا ہوم ورک سائنٹیفک انداز میں کیا ہے۔ مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ چین کی تجارت جو 2000ء میں محض ڈھائی بلین ڈالر تھی اب 40 بلین ڈالر کی حد عبور کرچکی اور 2016ء تک سو بلین ڈالر تک جاپہنچے گی۔ صرف دبئی میں ڈھائی ہزار چینی فرموں کے دفاتر موجود ہیں۔ چین کی ہمہ جہت اقتصادی ترقی انتہائی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ دنیا بھر کے بازار اس کی مصنوعات سے اٹے پڑے ہیں۔ افق تا افق پھیلی صنعتوں کا پہیہ رواں دواں رکھنے کیلئے بے حدوحساب انرجی ہی نہیں خام مال کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے نئی اور غیرروایتی منڈیوں کی تلاش ہمیشہ سے چینی حکمت عملی کا حصہ رہی ہے۔ اس وقت بھی وہ دنیا کا سب سے بڑا آئل امپورٹر ہے جو وہ 1990ء کی دہائی کے آغاز سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے درآمد کررہا ہے۔ سست رفتار آئل ٹینکر طویل بحری راستہ طے کرکے مہینوں میں چین کے مشرقی ساحل تک پہنچتے ہیں جس سے سپلائی ہی متاثر نہیں ہوتی، بار برداری کے اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے راستے مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک کا بڑا روٹ کھل جانے کی صورت میں چین کے تجارتی کاروان بارہ ہزار کلرمیٹر کے اضافی بحری سفر سے بچ جائیں گے جس سے ایک اندازے کے مطابق ایک برس میں درآمدی بل میں ہونے والی بچت مجوزہ اکنامک کاریڈور پر اٹھنے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوگی اور چین کیلئے یہ تجارتی گزرگاہ اجنبی بھی نہیں۔ صدیوں سے اس کے کارواں اس پر رواں دواں چلے آئے ہیں۔ نئے منظر نامے میں گوادر کی بندرگاہ اہم کردار ادا کرنے جارہی ہے جس کی تعمیر بھی چین نے کی اور اس کا انتظام و انصرام بھی اسی کے ذمہ ہے اور جو مستقبل میں اس کی انرجی کی ضروریات کی بلا رکاوٹ فراہمی کی ضامن بھی ہوسکتی ہے جہاں سے خلیج فارس محض 200 میل دور ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر چین کیلئے اس سے خوش کن بات کیا ہوسکتی ہے کہ گوادر کا روٹ کھل جانے سے 12 ہزار کلو میٹر مسافت سمٹ جائے گی اور آگے منزل مقصود تک تیل پائپ لائن کے ذریعے جائے گا۔ اس منصوبے کی کامیاب تکمیل سے چین امریکہ کی ممکنہ بلیک میلنگ سے بھی محفوظ ہوجائے گا جو وہ موجودہ سمندری سپلائی لائن کے حوالے سے گاہے بہ گاہے کرتا آیا ہے اور بیجنگ مسلسل دبائو میں ہے کہ واشنگٹن کسی وقت بھی آئل سپلائی کے انتظامات کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
پاک چین اکنامک کاریڈور کا ایک پہلو اور بھی ہے جسے فریقین نے غالباً جان بوجھ کر اس امید پر نظرانداز کیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس سے نمٹ لیں گے اور وہ کاریڈور کے نکتہ آغاز اور نکتہ اختتام پر امن عامہ کی دگرگوں صورتحال، جہاں کھلم کھلا دہشت گردی ہورہی ہے اور مذہبی انتہاپسندوں اور عسکری تنظیموں نے غیریقینی صورتحال پیدا کررکھی ہے اور اگر اس کا سدباب نہیں کیا جاتا تو یہ سارا ہلا گلا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کم از کم اس وقت تو گوادر بذات خود بھی کوئی محفوظ جگہ نہیں اور علاقہ میں تعمیراتی کاموں کے دوران چینی کارکنوں کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے پھر بندرگاہ ہی نہیں پائپ لائن اور متعلقہ تنصیبات بھی تو دہشت گردی کا نشانہ بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔ موجودہ قراقرام ہائی وے کو بھی گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ 800 کلومیٹر طویل یہ شاہراہ کبھی قدرتی آفت کی زد میں ہوتی ہے تو کبھی فرقہ واریت کا نشانہ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسے شکست و ریخت کا بھی سامنا ہے اور اپ گریڈیشن کا کام ایک مسلسل عمل ہے۔ سیکورٹی کا مسئلہ اس قدر شدید کہ اس سے نمٹنے کیلئے سیکورٹی فورسز کو دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔
اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پاکستان فطری طور پر نسبتاً زیادہ پرجوش ہے کیونکہ اقتصادی پریشانیوں سے نکلنے کیلئے اس کے آپشنز محدود ہیں جبکہ چین کیلئے اور راستے بھی کھلے ہیں۔ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت اور رسل و رسائل کی ترقی کیلئے طویل شاہراہوں کا سلسلہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا اور بڑے دہانوں والی پائپ لائن بچھ چکں ہیں۔ برما سے لے کر چین تک پائپ لائن پراجیکٹ پر بھی کام ختم ہوچکا کہ اگر خدانخواستہ گوادر اپریشنل نہیں ہوپاتا تو ٹینکروں کو برما کے ساحل پر خالی کرکے بھی پائپ لائن میں ڈال دیا جائے گا جس سے بارہ ہزار تو نہیں کم از کم چھ ہزار کلومیٹر سفر کی بچت ضرور ہوجائے گی۔ ہمسائیگی میں موجود روس کے انرجی وسائل بھی چین کی آنکھوں سے اوجھل نہیں اور روس سے تیل اور گیس کی درآمد کا ایک زبردست قسم کا معاہدہ جلد ہی منظر عام پر آنے کو ہے۔ آخر میں ایک امریکی تھنک ٹینک کی دانش سے بھی مستفید ہوتے چلیں جس کے مطابق ’’پاک چین اکنامک کاریڈور بے معنی شور شرابے کے سوا کچھ نہیں۔ سنکیانگ میں جاری اسلامی تحریکوں اور علیحدگی پسندانہ رجحانات کے ڈانڈے پاکستان کے اندر ملتے ہیں جنہیں اسلام آباد، بیجنگ کی منشا کے مطابق کچلا نہ گیا تو یہ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ماضی گواہ ہے کہ چین کی زبردست خواہش کے باوجود اس سمت میں کچھ نہیں ہوپایا اور قرآئن بتارہے ہیں کہ مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہونے جارہا۔‘‘