• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مختلف مزاج کے موسمی خطوں پر مشتمل ہے ان میں پنجاب بھی شامل ہے۔ پنجاب جس کے نام کے ساتھ ہی ذہن میں جہاں ہرے بھرے کھیتوں کا تصور ابھرتا ہے، نہریں سیراب کرتی ہیں وہیں اس سرزمین کا ایک دوسرا روپ روہی، دشت ، صحرا اور پہاڑ بھی ہیں جن کا سلسلہ کوہ سلیمان ڈیرہ غازی خان سے کشمور کی حدود تک جاملتا ہے۔ جنوبی پنجاب بوجوہ ترقی کی وہ منازل طے نہیں کرسکاجوایک آزاد ملک میں اسے کرنی چاہئیں تھیں۔ یہ محبت کرنے والوں کی سرزمین ہے جس کی خواجہ غلام فرید جیسے صائب صوفیوں سے خاص نسبت ہے۔ فرنگی بھی جب اس علاقے میں نہریں لائے تو میٹلورج گنج اور منچن آباد جیسے علاقے بھی آباد ہوئے مگر بدقسمتی سے ترقی کا پہیہ اس رفتار سے نہیں گھوم سکا جیسے گھومنا چاہئے تھا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے عوامی جذبات و احساسات کی نبض پر ہاتھ رکھا اور پنجاب کے متحرک وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف جو کسی بھی ظالم کا ہاتھ پکڑنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔ جن کا یہ شیوہ ہے کہ قوم کی بیٹیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔یہ بات انتہائی باعث مسرت ہے کہ میاں شہباز شریف نے گزشتہ دور کی طرح اس مرتبہ بھی جنوبی پنجاب کی محرومی کو دور کرنے کے لئے مختلف اقدامات شروع کئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے حالیہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سخت گرمی میں جنوبی پنجاب کا طویل دورہ کیا۔ ہم جمعرات کو علی الصبح وزیراعلیٰ کے ہمراہ ملتان ائیرپورٹ پہنچے تو معلوم ہو رہا تھا کہ آج سورج آگ اگلنے کے لئے بے تاب ہے۔دن کے آغاز سے ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔وزیر اعلیٰ نے ملتان میں شروع ہونے والی میٹرو بس کے روٹ کا معائنہ کیا۔میٹرو روٹ کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے ارکان اسمبلی کی پسند ناپسند کو پس پشت ڈالتے ہوئے عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی جانے والی جائزہ رپورٹ کی روشنی میں بس کے روٹ کی منظوری دی۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر طلبا و طالبات کی سہولت کے لئے بہاالدین زکریا یونیورسٹی کو بھی روٹ میں شامل کیا گیا ۔30ارب کاتحفہ دینے کے بعد ملتان کو میگا سٹی کا بھی درجہ دے دیا گیا۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ حالیہ دورہ ملتان کے دوران مجھے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی یاد آگئے۔ جنہوں نے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں لگ بھگ 100ارب روپے اس شہر میں خرچ کئے مگر پتہ نہیں ان منصوبوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا کیونکہ چیف سکریٹری سے بار بار میں گیلانی منصوبوں سے متعلق استفسار کرتا رہا مگر مجھے کہیں کوئی منصوبہ نظر نہیں آیا۔
مظفر گڑھ کے لئے روانہ ہوئے تو درجہ حرارت 48ڈگری کی بلند سطح عبور کر چکا تھا۔ شدید گرمی کے باعث ہیلی کاپٹر میں بیٹھنا محال تھا ۔مظفر گڑھ کے صحرا میں گرمی کی شدت ملتان سے کہیں زیادہ تھی۔ میں نے جناب شعیب بن عزیز صاحب سے کہا کہ شہباز شریف کی ہمت داد کی مستحق ہے۔وزیراعلیٰ نے مظفر گڑھ میں ترکی کے تعاون سے ملک کا جدید ترین اسپتال اور کئی ایک رفاہی منصوبے بھی شروع کئے ہیں۔ کراچی گرائمر اسکول کی طرز پر طالبات کے لئے مظفر گڑھ جیسے شہر میں مفت تعلیم فراہم کرنے والا اسکول اس شہر کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
2010-11ء کے سیلاب کے بعد جب وزیر اعلیٰ کے ہمراہ اس علاقے میں آنے کا اتفاق ہوا تھا مگر تین سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد جدید مظفر گڑھ بدلا بدلا سا معلوم ہورہا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کے لئے روانہ ہوئے تو شاید ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد گرمی کے آگے ہمت ہار بیٹھے تھے۔ خواجہ سلمان رفیق، رانامشہور، چیف سیکریٹری نوید اکرم، شعیب بن عزیز، سہیل وڑائچ، عامر کریم اور وزیر اعلیٰ کے پی ایس او علی سمیت تمام افراد کے چہرے سے گرمی کی شدت کے اثرات نمایاں تھے اور اسی وجہ سے وزیر اعلیٰ بھی ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو گئے۔ڈیرہ غازی خان اترنے سے قبل میاں صاحب کہنے لگے کہ شدید گرمی میں شاید اس دورے سے آپ پریشان ہوئے ہیں۔ جس پر میں نے عرض کیا کہ 65سال کی اس عمر میں آپ کی ہی ہمت ہے کہ انرجی لیول کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا جو بلاشبہ داد کا مستحق ہے۔بار بار خیریت دریافت کرنے والے پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز اطہر علی خان سے شدید گرمی کا تذکرہ کیا تو کہنے لگے کہ میاں صاحب میں کام کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ابھی دو روز بعد جناب وزیر اعلیٰ نے اس گرمی میں روہی کے بادشاہ بہاولپور کا دورہ بھی کرنا ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں میڈیکل کالج کے افتتاح کے بعد ہونے والی انتظامیہ اور ارکان اسمبلی کی بریفنگ میں حیران کن طور پر تمام سیاسی حریف جن میں ڈاکٹر حافظ عبدالکریم، سردار اویس لغاری، سید عبدالعلیم شاہ سمیت تمام مخالف وزیر اعلیٰ کی قیادت میں یکجا نظر آئے۔ تونسہ کے لئے دانش اسکول، صحت افزا مقام فورٹ منرو کے لئے دو رویہ سڑک، چئیرلفٹ جیسے اربوں روپے کے منصوبوں کی منظوری سے اس علاقے کے لوگوں میں بلاشبہ احساس محرومی کم ہوگا۔ ڈیرہ غازی خان سے واپسی پر جب وزیر اعلیٰ کو دریائے سندھ کے کٹاؤ کی وجہ سے تباہ کاریوں کا فضائی دورہ کرایا گیا تو میرے دل میں ایک ہوک سے اٹھی کہ کاش ہم بھی اس عظیم الشان دریا پرسڈنی ہاربر اور دریائے ہڈسن نیویارک کی طرز کے پل تعمیر کریں۔جس پر مجھے پنجاب کے وہ سکریٹری مواصلات بھی یاد آگئے جنہوں نے جدید پل تعمیر کرنے کا مشورہ دیا تھا جس سے لوگوں کو دریا عبور کرکے چاچڑاں شریف کے لئے کشمور اور کوٹ سبزل کی طرف سے نہیں آنا پڑے گا۔مجھے وزیراعلیٰ میں جوانوں جیسی پھرتی اور نہ تھکنے والی شخصیت نظر آتی ہے جو ان تھک انداز میں اپنے اہداف کے حصول میں سرگرداں ہے۔جس پر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ڈاکٹر توقیر شاہ اور ان کی ٹیم کے افراد پر رشک آتا ہے جو بلاشبہ داد کے مستحق ہیں کہ ڈاکٹر توقیر شاہ خود بھی وزیراعلیٰ کے وژن کی تکمیل میں رات دن مگن رہتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے سامنے ہمت نہیں ہارتے۔حالانکہ بہت سے قریبی دوست ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ سے وابستہ ہیں اور اہم عہدوں پر براجمان ہیں مگر نوکری صرف 8گھنٹے کرتے ہیں۔ دیگر سول افسران کو بھی ملک و قوم کی خدمت اور بہتری کے لئے ڈاکٹر شاہ سے سبق سیکھنا چاہئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے حالیہ اقدام دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے پاکستان کی طرح جنوبی پنجاب بھی ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور ہو گا۔ اگرحکومت نے اس علاقے کے لوگوں کا احساس محرومی دور کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو ملتان میں ایک منی سول سیکریٹریٹ بھی ضرور قائم کریں تاکہ روجھان مزاری کے گریڈ9کے ملازم کو انکوائری کے لئے لاہور نہ آنا پڑے۔تینوں ڈویژنوں میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کی بدحالی، اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غیر حاضری اور بہتری کے لئے معاملات کاذاتی طور پر جائزہ لیں ۔تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ خطہ جس سے میرعرب کو جس نسیم کی خوشبو آئی وہ شرمندہ تعبیر ہوگی۔
تازہ ترین