پشاور (ارشد عزیز ملک) پاکستان تحریک انصاف کے اندر یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ جب پارٹی کے پاس خیبر پختونخوا اسمبلی میں مطلوبہ سینیٹرز کی تعداد حاصل ہے تو پانچویں نشست کیوں چھوڑی؟ سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ اندرونی اختلافات کا شاخشانہ ہے یا اپوزیشن کو سہولت فراہم کی گئی ہے؟
کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 92 ارکان موجود ہیں ایک سینیٹر کے لیے 19 ووٹ درکار تو تحریک انصاف نے صرف 4 امیدوار کیوں نامزد کیے؟ جبکہ پانچویں جنرل نشست بھی باآسانی جیتی جا سکتی تھی؟ صوبے میں یہ کون سا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟
اسی بنا پر پارٹی کے اندر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور پارٹی کے ناراض اراکین نے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا ہے جس کے باعث تحریک انصاف کو سینیٹ الیکشن میں اپنی ایک اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
اس حوالے سے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج اتوار کو سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے گروپ بنائے جائیں گے اور ہر گروپ میں موجود ایم پی ایز سینیٹر کے انتخاب کے لیے پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح میں ووٹ دیں گے، تحریک انصاف کے ارکان اپنے امیدواروں کو اور اپوزیشن اپنے امیدواروں کو ووٹ دے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ناراض ارکان کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے اب ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ پارٹی کرے گی۔
دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنا پینل بنائیں گے اور حکومت اپنا پینل بنائے گی، اگر پی ٹی آئی کے امیدوار دستبردار نہ ہوئے تو اس کا سارا نقصان حکومت یعنی تحریک انصاف کو ہوگا، اپوزیشن کی نشستیں پانچ ہی رہیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم معاہدے کے تحت اپنے اضافی امیدواروں کو دستبردار کروا دیں گے چونکہ ہمارا حکومت کے ساتھ معاہدہ ہے تو ہم اس پر مکمل عمل کریں گے اور سینیٹ کی نشست کے لیے کوئی اضافی امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔
ڈاکٹر عباد نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب رہی اور پانچ نشستوں کو یقینی بنایا گیا جن میں تین جنرل نشستیں، ایک خواتین کی اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست شامل ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 4 سینیٹرز کے لیے تحریک انصاف کو 76 ووٹ درکار ہیں جس کے بعد پارٹی کے پاس 18 ووٹ بچ جاتے ہیں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ 18 ووٹ ڈالے جاتے تو ترجیحی ووٹوں کی تقسیم کے باعث پانچواں امیدوار بھی کامیاب ہو سکتا تھا کیونکہ دیگر جماعتوں کے امیدوار اپنی دوسری اور تیسری ترجیح میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ دیتے۔
اس صورت میں تحریک انصاف کو ایک اضافی جنرل نشست مل سکتی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ نشست کیوں چھوڑی گئی؟ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
پہلی یہ کہ اپوزیشن کو سہولت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ اس کا ایک اور امیدوار سینیٹ میں پہنچ سکے۔ یہ نشست پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما طلحہ محمود کے حصے میں جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جو جنرل نشست پر کامیابی کے لیے ووٹوں کے محتاج ہیں۔
دوسری وجہ تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات اور گروپ بندی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور کو خدشہ ہے کہ اگر انتخاب میں مقابلہ ہوا تو پارٹی کے بعض ارکان منحرف ہو سکتے ہیں، اس لیے بلامقابلہ انتخاب پر زور دیا جا رہا ہے اور اپوزیشن کو ایک جنرل نشست دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں، 35 اراکین آزاد ہیں جن پر کوئی فلورکراسنگ کی شق عائد نہیں ہوتے۔
اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس خیبر پختونخوا اسمبلی میں 53 ارکان ہیں تو اگر وہ 2 امیدوار کھڑے کرتے ہیں تو ہر ایک کو تقریباً 19 ووٹ ملتے ہیں جو 2 نشستوں کے لیے کافی ہیں لیکن تیسری نشست کے لیے ان کے پاس صرف 15 ووٹ بچتے ہیں جو مطلوبہ 19 ووٹ سے کم ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما طلحہ محمود جو اپوزیشن کے تیسرے امیدوار ہیں، ان کے لیے کامیابی ہارس ٹریڈنگ کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
اپوزیشن کی پہلی ترجیح جے یو آئی کے عبدالحق، دوسری ترجیح نیاز محمد ہیں جب کہ طلحہ محمود تیسرے نمبر پر ہیں تو جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بلامقابلہ سینیٹ انتخابات پر معاہدہ طے پا گیا ہے اس لیے طلحہ محمود کے لیے جیتنا آسان ہو گیا ہے کیونکہ انہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا تعاون حاصل ہو گا۔
اگر تحریک انصاف پانچویں نشست پر امیدوار کھڑا کرتی تو طلحہ محمود کے لیے جیتنا انتہائی مشکل ہو جاتا اور انہیں سخت محنت کرنا پڑتی۔
ذرائع کے مطابق طلحہ محمود نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو رام کر لیا ہے اسی بنا پر حکومت ان کے مقابلے میں اپنا پانچواں امیدوار میدان میں لانے سے گریز کر رہی ہے۔
یہ فیصلہ سیاسی حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس پر مزید بحث کا امکان ہے۔