• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ اور ڈیڑھ درجن سے زائد افراد کی شہادت نے کراچی میں کئی ماہ سے جاری آپریشن کی قلعی کھول دی ہے۔ شہر اور حساس مقامات کی سکیورٹی کو یقینی بنانے والے اداروں پولیس، رینجرز اور ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کی کارگزاری کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ملک کے دیگر حصوں میں منفی اثرات سے نمٹنے کی حکومتی حکمت ِ عملی کےجملہ نقائص کوطشت ِ ازبام کردیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یہ انکشاف کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی کامیابی کے امکانات چالیس فیصد سے زیادہ نہیں کیونکہ سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے بقول فوج تو محدود علاقے میں کامیاب آپریشن کی صلاحیت رکھتی ہے مگر اس کے پورے ملک بالخصوص لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگرشہروں میں منفی اثرات، طالبان کی جوابی کارروائیوں کا مقابلہ کرنا فوج کی ذمہ داری نہیںبلکہ یہ سول اداروں، حکومت، پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور انتظامیہ کا فرض ہے کہ جو اس کی بجاآوری کے لئے تیار و مستعد نہیں تو آپریشن کے حامیوں نے آسمان سرپر اٹھا لیا۔
عمران خان کو حساس قومی معلومات افشا اور قوم کا مورال تباہ کرنے کی سازش کا مرتکب قرار دیا گیا اور دہشت گردوں کا ساتھی مگر کسی نے ٹھنڈ ے دل سے سوچا نہ معقولیت سے غور کیا کہ ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ بارہ سال سے جاری جنگ کے نتائج و عواقب سے نمٹنے کے لئے ہمارے سول حکمرانوں اور اداروں نے کوئی تیاری کی نہ کارکردگی بہتر بنائی اورنہ امریکی امداد عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی روک تھام کے لئے مناسب انتظامات پر خرچ کی۔ اس برتے پر جنگ کو طول دینے اور ہر روز ایک نیا محاذ کھولنے کا جواز کیاہے؟ اور جنگ بندی کے وقفے میں مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے میں کیا حرج ہے؟ جب امریکہ اپنے ایک قیدی کے بدلے میں طالبان کے پانچ قیدی رہا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا تو ہم ضد اور ہٹ دھرمی سے کیا حاصل کریں گے؟
بارہ سالہ جنگ میں ہماری دانشمندی کاشاہکارمحض بیان بازی ہے جو نئی سکیورٹی پالیسی بنانے، سریع الحرکت فورس تشکیل دینے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے دور سے لے کر اب تک قوم کو سنائی دی۔ اسلام آباد کی سکیورٹی کے لئے عبدالرحمٰن ملک نے چین سے واک تھروگیٹ درآمد کرنے کا مژدہ سنایا، اربوں روپے کی ادائیگی ہوئی۔ یہ گیٹ وفاقی دارالحکومت پہنچ گئے مگر ناکارہ نکلے۔ ریلوے کے انجنوں کی طرح معذور۔ چودھری نثار علی خان ، نواز زرداری مفاہمتی پالیسی کے تحت اس میگا سکینڈل کے خلاف کارروائی کے لئے تیار نہ بے کارگیٹ لگانے کے قابل۔
طالبان سے مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہوا۔ جنگ بندی میں توسیع کی نوبت نہ آئی اور شمالی وزیرستان میں محدود فوجی کارروائی شروع ہوئی تو پاکستان کے دیگر علاقوں میں ممکنہ جوابی کارروائیوں کا سدباب او ر حفاظتی انتظامات بہتر سے بہتر بنانا وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی۔ دعوے بہت ہوئے، اجلاس بھی ہوتے رہے مگر عملاً کچھ ہوتا تو دہشت گرد یوں آسانی سے ایئرپور ٹ کی حدود میں داخل ہو کر پانچ چھ گھنٹے تک اودھم نہ مچاتے۔ ڈیڑھ درجن افرادکو جام شہادت نوش نہ کرنا پڑتا اور فوج کو کمک کے لئے بلانے کی نوبت نہ آتی جس کو صبح سے شام تک اپنی حدود میں رہنے اور نااہل و ناکام سویلین حکمرانوں اور اداروں کی بالادستی قبول کرنے کے مشورے ملتے ہیں اور کوسنے بھی۔
کراچی میں جہاں عرصہ دراز سے رینجرز اورپولیس کے علاوہ خفیہ ادارے ریڈالرٹ ہیںاور آپریشن جاری اگر حفاظتی انتظامات کا یہ عالم ہے تو دیگر شہروں کا حال بخوبی معلوم۔ اگر گزشتہ ایک سال کے دوران ہی وسائل کا رخ دہشت گردی کی روک تھام اور عوام کے جان و مال ، عزت و آبرو اور قومی تنصیبات و اثاثوںکی حفاظت کی طرف موڑا جاتا، آئی پی پیز کو پانچ سو ارب روپے دان کرنے کےبجائے یہ رقم یوتھ لون سکیم کے ایک سو ارب روپے کے ساتھ ملا کر کسی نئی سریع الحرکت فورس کے قیام، تربیت، جدید اسلحے کی فراہمی کے لئے مختص کی جاتی اور حکمران چند بڑے شہروں میں سڑکوں کے بنائو سنگھار، بلٹ ٹرین کے خیالی منصوبوں اور سیاسی دائو پیچ پر قومی وسائل، اپنی توانائیاں اور ریاست کا وقت ضائع کرنے کے بجائے صرف اور صرف دہشت گردی پر فوکس کرتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی مگر ان کے سر پر موٹروے، میٹرو بسوں، ٹرینوں اور عوام کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کا بھوت سوارہے۔
ترقی و خوشحالی کا وژن رکھنےوالے حکمرانوں کو موٹروے سے اتر کر چند کلومیٹر نہیں صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر بھوک، بیماری اور بیروزگاری کا شکار مدقوق چہرے دیکھنے کی فرصت ہے نہ ملیریا کی دوائی نہ ملنے کےشاکی عوام کی بات سننے کا شوق اور نہ بھوک کے باعث پستانوں میں دودھ نہ اترنے کی بنا پر شیرخوار بچوں کی گریہ و زاری سے پریشان ماں کے دکھ کا احساس۔ انہیں کیا معلوم کہ اس پرآسائش اور محفوظ سفری وسیلے کو وہ باپ کس نظرسے دیکھتا ہے جس کی نورِ نظرلخت جگر کو اغوا کرکے بدقماش موٹر وے کے راستے سرعت کے ساتھ علاقہ غیر لے گئے۔
ہماری بے حسی اور غفلت کا تو عالم یہ ہے کہ آسام میں فسادات ہوں یا افغانستان میں عبداللہ عبداللہ پرحملہ الزام پاکستان کے خفیہ اداروں پر لگتا ہے یا ان کی منظورِ نظر کالعدم تنظیموں پر مگر فاٹا اوربلوچستان میں دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں سے بھارتی اسلحہ برآمد ہو یاافغان کرنسی یا ’’را‘‘رام اور خاد سے رابطوں کے ثبوت ملیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے بھارتی ہتھیاروں سے لیس ہوں یا بھارت میں تربیت یافتہ ٹارگٹ کلر گرفتار ہوں ہمارے حکمران، دفترخارجہ کے ترجمان اور دیگر ذمہ دار بھارت اور افغانستان کا نام لینے سے یوں شرماتے ہیں جیسے کنواریاں اپنے منگیتر کا نام لینے سے جھجھکتی ہیں البتہ اپنے ہی خفیہ اداروں کے خلاف الزام تراشی پر بیگانوں کی ہاںمیں ہاں ملانے میں یہ ایک دوسرے سے سبقت لینے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔
خفیہ اداروں کی مستند اطلاعات، خطرات کی نشاندہی اور حالات کی سنگینی کے باوجود اگر پولیس، رینجرز اور ایئرپورٹ سکیورٹی فورس جیسے ادارے دہشت گردوں کا راستہ روکنے سے معذور ہیں اور فوج کو کمک کے لئے بلانے پر مجبور تو پھر دہشت گردی کی جنگ کو طول دینے اور مذاکرات کا راستہ چھوڑ کر فوجی آپریشن کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کی پالیسی پر نظرثانی میں مزید تاخیر حماقت بلکہ خودکشی ہے۔ اس ناقص کارگزاری کے باوجود سول اداروں کی بالادستی پر اصرار اور اپنی کارکردگی، اہلیت و صلاحیت بہتر بنانےکی بجائے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سرنگوں، پسپا اور کمزور کرنے کی مجنونانہ خواہش تباہ کن ہے۔
پولیس اور دیگر سول اداروں کو سفارش، دبائو اور بدعنوانی سے پاک کرنے اور انہیں عصری تقاضوں کے مطابق تربیت دینے کے علاوہ سول حکمرانوں کواپنا اندازفکر، ترجیحات اوراقتصادی ، معاشی، سماجی، سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کو امن و سکون ملے، جان و مال کا تحفظ اورقومی اثاثوں، حساس تنصیبات اور اہم مقامات کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ایک انتباہ ہے اور چاروں طرف سے امڈتے خطرات کا پیش خیمہ۔ حفاظتی انتظامات اور بلندبانگ دعوئوں کی قلعی تو بہر حال کھل ہی گئی ہے مگر کوئی سبق بھی ہم نے سیکھا؟
تازہ ترین