غیرمنقولہ جائیداد و املاک کی قیمتوں کے تعین کے سلسلے میں حکومت، پراپرٹی ڈیلروں، بلڈرز، ایف پی سی سی آئی اور ایف بی آر کے مابین باہمی مشاورت، افہام تفہیم اور دوطرفہ رضا مندی سے جومعاہدہ طے پایا ہے، صدر مملکت نے اسے قانونی اور دستاویزی شکل دینے کیلئے اتوار کوایک ا ٓرڈی ننس جاری کردیا ہے جو فوری طور پر پورے ملک میں نافذ العمل ہو گا۔ انکم ٹیکس کے دوسرے ترمیمی آرڈی ننس کے نام سے چار ماہ کیلئے جاری ہونے والا قانون مالیاتی بل کی صورت میں سینٹ اورقومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا۔ سینٹ اس پر 14روز میں اپنی سفارشات تیار کر کے قومی اسمبلی کو بھجوائے گی جو نئے قانون کی حتمی منظوری دے گی۔ آرڈی ننس کے تحت شہدا کے لواحقین کو ملنے والے پلاٹوں کی پہلی بار فروخت پر ودہولڈنگ یا کیپٹل گین ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سول سروس آف پاکستان کے زمرے میں آنے والے افسروں، سمندر پار پاکستانیوں اور آرمڈ فورسز کے افسروں سے جو اوریجنل الاٹی ہوں گے، پہلی بار سرکاری پلاٹوں کی فروخت پر نصف کیپٹیل گین ٹیکس لیا جائیگا۔ پراپرٹی ڈیلروں اور ایف پی سی سی آئی کی ٹیم کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت پراپرٹی ایویلیو ایشن اب سٹیٹ بینک کی بجائے ایف بی آر کے دائرہ کار میں آجائے گی۔ ایف بی آر سالانہ بنیادوں پر 21بڑے شہروں کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی وقتاً فوقتاً غیر منقولہ پراپرٹی کے ریٹ مقرر کر سکے گا۔ صدارتی آرڈی ننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سال سے زیادہ عرصہ میں خریدی ہوئی پراپرٹی پر کیپٹل گین ٹیکس نہیں لگے گا۔ نیز 40 لاکھ روپے تک پراپرٹی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ ہو گی، تاہم ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں (فائلرز) کے مقابلے میں نان فائلرز سے دو گنا ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پاٹا میں کسٹمز ایکٹ ختم کردیا گیا ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ اب تک پراپرٹی کے کاروبار سے حکومت کو صرف 8 ارب روپے ملتے تھے نئے اقدام سے 70ارب روپے سالانہ کی آمدنی متوقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے قانون سے پراپرٹی ٹیکس کے نظام میں شفافیت آئے گی اور حکومت بلڈرز کے انفرادی مسائل حل کرنے میں بھی معاونت کرے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس اصلاحات کے تحت ملک میں پہلی بار اتنی بڑی سطح پر پورا ٹیکس دینے والے پراپرٹی ڈیلرز، بلڈرز، ڈیویلپرز اور دوسرے کاروباری طبقے کو افہام و تفہیم سے رائج الوقت ٹیکس نظام کے دائرے میں لایا گیا ہے جو ملک کی تعمیر و ترقی کے نقطہ نظر سے ایک خوش آئند اقدام ہے ٹیکس نظام میں یہ تبدیلی تمام فریقوں کے اتفاق رائے سے عمل میں آئی ہے۔ اس کے ثمرات قومی خزانے کے علاوہ آئندہ نسلوں کو بھی ملیں گے، توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ نئے قانون کے بعد پاکستانی سرمایہ ملک سے باہر جانے کی بجائے باہر سے سرمایہ واپس وطن آنا شروع ہو جائے گا۔ مالیاتی ماہرین نے پراپرٹی کی قیمتوں کے تعین کے سمجھوتے کو موجودہ حکومت کی ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے تاہم اس کا نفاذ وفاقی ٹیکسوں تک محدود ہے۔ پراپرٹی ٹیکس سمیت جو ٹیکس صوبوں کے اختیار میں آتے ہیں ان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وفاقی حکومت کو صوبوں سے بھی پراپرٹی ایویلیوایشن ریٹس پر بات کرنا ہو گی۔ جو رئیل اسٹیٹ سے اپنا ٹیکس کم لینے کے مجاز ہوں گے۔ اس کے علاوہ قیمتوں کے تعین میں یکساں طریق کار اختیارکرنا ہوگا تاکہ کسی سے ناانصافی نہ ہو۔ ٹیکسوں کے بغیر کسی بھی ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ حکومت ا س سلسلے میں ترکی کا ماڈل اپنانا چاہتی ہے جس کے تحت مجموعی ملکی ترقی کی شرح میں ٹیکسوں کا حصہ 10فیصد سے بڑھا کر 26فیصد کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کا عمل ایک عرصہ سے جاری ہے پراپرٹی ٹیکس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ صدارتی آرڈی ننس کا فوری نفاذ اس لئے بھی ضروری تھا کہ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے جاری مذاکرات کی وجہ سے پراپرٹی کے کاروبار پر منفی اثر پڑ رہا تھا اور قومی اسمبلی سے منظوری لینے میں مزید عرصہ لگ جا تا۔ توقع ہے کہ قومی اسمبلی اس قانون میں مزید بہتری لائے گی ۔