• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں علم اور بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی کا راج ہے ۔کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ اب علم بن چکا ہے۔ جیسے جیسے علم کی حدود میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کسی بھی ملک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل ، گیس اور معدنیات وغیرہ کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے ۔ جن ممالک نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان کی حقیقی دولت ان کی نوجوان نسل ہے، انہوں نے ان کے لئے تعلیم ، سائنس، انجینئرنگ اور جدت طرازی پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے او ر نتیجتاً وہ ممالک ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ سنگا پور کی مثال سمجھنے کے لائق ہے جس کی آبادی کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی (یعنی ٰ صرف 55لاکھ) ہے اور کوئی قدرتی وسائل بھی نہیں ہیں لیکن اسکی سالانہ برآمدات 518 ارب ڈالر ہیں جو کہ پورے پاکستان کی سالانہ برآمدات سے تقریباً 26گنازیادہ ہیں۔ جنوبی کوریا نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر بھر پور توجہ دی اور نتیجتاً 1960ء میں جامعات میں نو جوانوں کے لئے داخلوں کے مواقع 5% سے بڑھ کر 2015ء میں 80% ہو گئے اور جنوبی کوریا کی برآمدات جو 1960ء میں صرف 32ارب ڈالر تھیں 2015ء میں نہایت حیران کن طور پر بڑھ کر725ارب ڈالر سالانہ ہو گئیں( افسوس کہ پاکستان کی برآمدات 23 ارب ڈالرسالانہ ہی تک محدود رہیں)۔
آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کے چار بنیادی ستون علم ، ٹیکنالوجی ، جدت طرازی اور سب سے اہم ایک ایماندار، بصیرت انگیز اور تکنیکی اہلیت سے آراستہ قیادت ہے جو کہ ملک میں غر بت کے خاتمے او ترقی کے لئے اعلی تکنیکی بر آمدات کے اہم کردار کو سمجھتی ہو۔
پہلا ستون ، یعنی ٰ علم کو چار ذیلی ستونوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ معیاری اور لازمی بنیادی تعلیم، ثانوی تعلیم، تکنیکی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم جو کہ بین الا قوامی معیار سے ہم آہنگ ہو۔اس کے حصول کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین اور پیشہ ور افراد کو تعلیم اور تحقیق کے شعبے کی جانب بحیثیت اساتذہ اور محققین متوجہ کرنے پر زور دینا چاہئے۔ اس کے لئے ایک مرکزی عالمی معیار کے مطابق امتحانی نظام قائم کرنا ہوگا جس کی بنیاد پر لاکھوں ذہین طلبا کو غیر ملکی اعلیٰ ترین جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظیفے دینے ہوں گے ۔ آج بھاری تعداد میں چین اور بھارت کی نوجوان آبادی اعلی تعلیم حاصل کررہی ہے تاکہ مضبوط علمی معیشت کے قیام کی دوڑ میں سبقت حاصل کر سکے اس پالیسی کے نتیجے میں ان کے ملک میں 7-10% (GDP)سالانہ کی شرح سے ترقی ہو رہی ہے۔ چین اپنے ملک سے سالانہ لاکھوں ذہین طلباء کو اعلی تعلیم میں تربیت کے لئے بیرون ممالک بھیجتا ہے نتیجے میں مضبوط علمی معیشت کی بنیاد قائم ہوگئی ہے۔ تربیت کے لئے بھیجے گئے طلباء کے اعداد و شمار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2015ء میں چین نے کل 523,700طلباء اعلی تعلیم کے لئے بھیجے اور اسی سال 409,100 طلبا تعلیم مکمل کرکے چین واپس آگئے ۔ پاکستان کی آبادی تقریباً چین کی آبادی کی 1/7حصہ ہے۔ اگر ہم چین کی آبادی کی مناسبت سے قدم اٹھائیں تو ہمیں سالانہ 75,000 ذہین طلبابیرون ممالک اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجنے چاہئیں۔ لیکن درحقیقت ایچ ای سی کی انتہائی کو ششوں کے باوجود فنڈز کی کمی کے باعث ہم صرف 800 طلباء سالانہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیج رہے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ اس میں تبدیلی آسکتی ہے اگر ایچ ای سی کو 800 ارب روپے کی اضافی سالانہ گرانٹ دی جائے جو بالخصوص افرادی قوت کی ترقی کے لئے مختص ہو۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی ؟ اس کے لئے ہمیں پیٹرول کی قیمتوں کو پرانی سطح پر بحال کرنا ہوگا۔ یہ قدم قوم کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس پروگرام سے اعلی سطح کے تکنیکی ماہرین اورنرسوں کی تربیت کے لئے اعلیٰ معیار کے کالجوں کا قیام، صنعتی ماسٹرز ڈگری کی ان صنعتی شعبوں میں تربیت جن کی ہمیں ضرورت ہے، غیر ملکی جامعات میںپی ایچ ڈی سطح کی تربیت شامل کرنی ہوں گی۔ ہماری جامعات کا شمار اس وقت بین الا قوامی شمارے میں نچلی ترین سطح پر ہے۔ اگر ہم بین الا قوامی سطح پر مقابلے میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن دیگر ایشیائی ممالک کی طرح اعلی تعلیم کے شعبے میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ فرق کتنا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنگاپور کی قومی جامعہکا اس سال کا بجٹ 170ارب روپیہ ہے جبکہ ہماری بہترین جامعات کے بجٹ صرف 4 یا5 ارب روپیہ سالانہ ہے۔ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے توہمیں اپنے تعلیم کے بجٹ میں انقلابی تبدیلی لاناہو گی۔
دوسرا اہم ستون ٹیکنالوجی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میںاپنے آپ کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں ، کیا حکمت عملی ہے ترقی کے لئے اور کونسا راستہ اختیار کرنا ہے؟ اگلے بیس سالوں میں کیا ہم بحری جہازوں کی تعمیر میں عالمی مشاق ہوں گے یا دواسازی کے شعبے میں اپنا مقام بنالیںگے یا کمپیوٹر چپس کی تیاری میں عالمی لیڈر ہوجائیں گے؟ ایسے کونسے خاص مواقع ہیں جن پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے اس کے لئے ہمیں ایک راستہ چننا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ایک ’’ ٹیکنالوجی پیش بین‘‘ مسودہ پاکستان میں میر ی نگرانی میںتیار کیاگیا تھا اس کی تیاری کے عمل میں مختلف شعبوں سے متعلق صنعتی رہنماؤں، ماہرین اقتصادیات او ر مختلف تکنیکی ماہرین کی انتہائی مشاورت شامل کی گئی تھی اس سنگ میل کی تیاری کے لئے کابینہ نے یہ کام میرے سپرد کیا تھا اور بالآخر30اگست 2007ء میں یہ 320 صفحات مسودہ کابینہ میں منظور بھی کرلیا گیا تھالیکن اس پر ابھی تک کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ یہ دستاویز بعنوان
ــ’’ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر صنعتی نظریہ اور حکمت عملیکابینہ کے کاغذوں میں کہیں نیچے دبا پڑا ہے اس پر فوراً عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے اعلی تحقیقی مراکز کو منتخب مضامین میں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صنعت و زراعت کی ترقی کیلئے ضروری حل فراہم کئے جا سکیں ۔ اسکے علاوہ ہماری صنعتوں کو ضروری مہارت سے آراستہ پیشہ ور کارندوں کی بھی ضرورت ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ڈگری اور اور ڈپلومہ کے حامل اعلیٰ معیاری کالجوں ہی سے فراہم ہوسکتے ہیں۔ صنعتی پیداوار کو عالمی معیار کے عین مطابق بنانے کے لئے تربیتی پروگرا م اور ان پر عملدرآمد کا نظام تفویض کرنا ضرور ی ہے تاکہ جو مصنوعات بنا ئی جائیں وہ معیار میں اعلیٰ ترین ہوں۔ اس نظام کا نفاذ نہایت اہم ہے جس کی بدولت ہماری برآمدات بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جاسکیں گی۔
ترقی کے لئے تیسرا اہم ستون جدت طرازی ہے اس کی ترقی سے کاروبار کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے اور قوم تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لئے چار اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔1- ٹیکنالوجی پارکس کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں نئے خیالات اورمصنوعات عوامل کی صورت اختیار کر سکیں۔ 2 ۔نجی شعبہ ء تحقیق و ترقی کوفروغ دینے کے لئے حکومتی مراعات فراہم کی جائیں تاکہ تحقیق و ترقی بڑی حد تک نجی صنعتوں میں کی جائے تاکہ نئی مصنوعات تجارتی بنیادوں پرمناسب توجہ حاصل کرپائیں۔ 3 ۔برقیات، انجینئرنگ کے سامان اور کھیلوں کے سامان، کپڑا سازی وغیرہ کے صنعتی حلقےتیار کئے جائیں جوتمام ضروری سہولتوں سے آراستہ ہوں تا کہ ایک صنعتکار بلا تعطل 48گھنٹوں میں ایک نئی صنعت قائم کر سکے 4۔صنعتی تنازعات کو حل کرنے لئے انصاف تک تیز رسائی فراہم کی جائے اور ساتھ ہی نیاکاروبار شروع کرنے والوں کے لئے تمام متعلقہ سہولتیں دی جائیں تاکہ ایک کمپنی کو رجسٹر کرنے میں ہفتوں کے بجائے 24 گھنٹے لگیں ۔
ترقی کے لئے چوتھا سب سے اہم ستون ایک ایماندار، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور ٹیکنالوجی میں ماہر حکومت و قیادت ہے جسے یہ سمجھ ہو کہ ملک کو علم پر مبنی معیشت میں کیسے منتقل کیا جائے۔ چین کی کا بینہ میںاکثر اراکین نامور سائنسدان اور انجینئر ہیں ۔ کوریا میں وزیر تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی حیثیت نائب وزیر اعظم کی ہوتی ہے۔ آسٹریا میں وزیر سائنس وزیراقتصادی امور بھی ہوتا ہے اور اسکی بھی حیثیت نائب وزیر اعظم کی ہوتی ہے۔ ہمیںان مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو اللہ نے ذہین نوجوان آبادی سے نوازا ہے۔20 کروڑکی آبادی میں تقریباً دس کروڑ کی آبادی 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمیں انہیں صحیح شعبوں میں مناسب تعلیم دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کر سکے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اس کے لئے سیا سی عزم کی ضرورت ہے ۔ قوم کو عزم کرنا ہو گا کہ ہم بھوکے رہ لیں گے لیکن اپنی مجموعی ترقیاتی پیداوار (GDP) کا10% حصّہ تعلیم و تحقیق کے لئے مختص کریں گے۔ ملائیشیا 30 برس سے اپنے بجٹ کا 25% حصّہ تعلیم پر خرچ کر تا آرہاہے ہمیں بھی اس کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔
پاکستان کو اب جا گ جاناچاہئے۔ ملک سڑکیں تعمیر کرنے سے نہیں بنتے ہمیں اپنے اصل سرمائے ، یعنی اپنے ملک کے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرناہوگا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کواجاگر کرنا ہوگا اسکے لئے ہمیں وسیع پیمانے پر تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ اس نظریئے کواسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچایاجاسکتا ہے جب ایک صدارتی نظام جمہوریت کے تحت ایک مضبوط تکنیک مجاز حکومت ہو جو کہ آج کی دنیا میں علم پر مبنی معیشت کی اہمیت کو سمجھتی ہو جیساکہ قائد اعظم نے بھی اپنی ڈائری میں تحریر کیا تھا۔


.
تازہ ترین