• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین واپڈا محترم جناب ظفر محمود نے کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ایک طویل قسط وار مقالہ لکھا جو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوا۔ نواب یوسف تالپور کا یہ کالم اس کے جواب میں شائع کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اور شخص بھی اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہے تو جنگ کے ادارتی صفحات حاضر ہیں۔ (ادارہ)
واپڈا کے چیئرمین ظفر محمود نے31مئی سے کئی لگاتارکالم روزنامہ جنگ میں کالاباغ ڈیم کے حق میںلکھاگیا۔ انھوں نے اس کے خودساختہ فائدے تو بتائے لیکن اس کے نقصانات کیا ہیں ا س بارے میں ان کا قلم خاموش ہے۔ ظفر محمود صاحب نے دنیا کے بیشتر ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی فریق خلاف ورزی کرے گاتو ضامن ان کے درمیان اختلافات ختم کراتے ہوئے معاملات کو طے کرائیں گے لیکن یہاںمعاملات ملکوں کے درمیان نہیںبلکہ تین صوبوں کا ایک صوبے کے درمیان معاملہ ہے جو ماضی میں بھی چشمہ جہلم لنک کینال اور تھل کینال کے معاملے میں بد عہدی کر چکا ہے اور بھٹو صاحب کے دور میں ہونے والایہ تحریری معاہدہ جس پر ُاس وقت کے گورنر سندھ ممتاز بھٹو اور گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے دستخط کئے تھے وہ بھی بدعہدی اور بد دیانتی کا شکار ہوگیا کیونکہ اس معاہدے میں طے ہواتھا کہ جب سیلا ب آئے گا اس وقت اسے کھولا جائے گا لیکن اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے عام دنوں میں استعمال کیا جارہاہے ۔وفاق جو اس میں ضامن تھا وہ خامو ش تماشائی بنا رہا اس لئے آج ہم اس ڈیم کے حوالے سے اس کے تمام پہلوئوں پر غور کریں گے کہ یہ ڈیم ہے کیا اس پر کتنے اخراجات آئیں گے ملک کو اس کا فائدہ ہوگا یا نقصان۔
یہ منصوبہ اصل میں ہے کیا اور اس کے پس پشت کیا مقاصد ہیں اس کا تفصیلی جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔
1960 میں جنرل ایوب خان کے دو ر میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا معاہدہ کیا گیا اس کے تحت پنجاب کے تین دریا راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دے دیئے تھے اور یہ طے ہوا تھا کہ اس پر ڈیم پاکستان کی رضامندی سے بنائےجائیں گے جبکہ جہلم اور چناب کیلئے یہ طے ہوا تھاکہ یہ پاکستان کے پاس رہیں گے۔ ان دریائوں کا سودا کرنے والوں کے خلاف ظفر محمودصاحب کی زبان خشک ہے۔ اصل میں تو ان معاملات کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ان تمام افراد پر مقدمات چلائے جائیں جو اس شرمناک معاہدے میں ملوث ہیں بالکل اسی طرح جس طرح سید جماعت علی شاہ بھارت سے پا نی کے معاملے میں سودے بازی کر کے ملک سے فرار ہو گئے ہیں ۔میں یہاں یہ بات بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ 1991 میںنواز شریف کی صدارت میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے چاروں صوبوں میں باہمی اتفاق سے معاہدہ ہوا تھا اور جسے پہلا متفقہ ایوارڈ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر سندھ نے کچھ تحفظات کے ساتھ دستخط کئے تھے، معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ سب سے آخری حصے (ٹیل) کو سب سے پہلے پانی دیا جائے گاکیونکہ اگر سمندر میں روزانہ 10ہزار کیوسک پانی نہیں چھوڑا گیا تو سمندر پھیل جائے گا اور کئی زرخیز علاقے کھا جائے گا لیکن اس معاہدے پر عمل نہیں کیاگیا جس کی وجہ سے دو ڈسٹرکٹ ٹھٹھہ اور بدین کی زرعی زمین تباہی کا شکارہے یہ علاقے گنے کی کاشت کیلئے مشہور تھے اب وہاں سیم اورتھور(کلر) آگیاہے اسی طرح دوسرے زرعی علاقے بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیںظفر محمود صاحب کو چاہئے کہ پہلے ٹیل میں پانی چھوڑنے کویقینی بنائیں تاکہ سمندر میںمطلوبہ مقدار میں پانی پہنچ سکے اور سندھ کو مکمل تباہی سے بچایا جاسکے۔
کالاباغ ڈیم کیلئے کہا جاتا ہے کہ اس سے بجلی پیدا کی جائے گی، در حقیقت یہ ایک پروپیگنڈہ ہے ڈیم کی پیداواری صلاحیت صرف 15 سو میگا واٹ ہے جبکہ اس کے متبادل دریا ئے کابل، دریائے سوات، دریائے چترال، دریائے گومل پر ڈیم بنا کر اس سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواکے پاس اس وقت بھی 150 کے لگ بھگ منصوبے تیار ہیں جس میں 110 منصوبوں کی PC-1 (پی سی ون) کی اسٹڈی بھی مکمل ہے اگر وفاقی حکومت فنڈ مہیا کردے تو 2 سال کے اندر 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ ملک کو صرف 18سو سے لے کر 2ہزار میگاواٹ تک بجلی کی مزید ضرورت ہے۔ آج کے جدید دور میں بجلی پیدا کرنے کیلئے ڈیم بنانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے صرف بہتے ہوئے پانی پر ہائیڈرو پاور پلانٹ کی مدد سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، کینیڈا اور امریکہ کے درمیان نیاگرا فال اس کی بہترین مثال ہے جہاں ہائیڈرو پاور پلانٹ کے ذریعے کینیڈا اور امریکہ کے بیشتر علاقوں کو بجلی مہیا کی جا رہی ہے ا س کے باوجود اس منصوبے پر کیوں زور دیا جارہا ہے اس کے پیچھے کسی سازش کی بو آرہی ہے۔
کالاباغ ڈیم بنانے کیلئے کہا جاتا ہے کہ اس سے بجلی کے ساتھ پانی کا ذخیرہ کیا جائے گا جو سراسر جھوٹ ہے۔ قدرتی محل و وقوع کے حوالے سے 40 سے 50 بارانی ڈیم بن سکتے ہیں جو کہ کروڑوں کیوسک فٹ پانی ذخیرہ کرسکتے ہیں اور ان پر لاگت بھی بہت کم آئے گی۔ اس کے علاوہ اگر مزید بجلی اور پانی پیدا کرنے کی ضرورت ہو تو کے پی میں کچھ مقام پر ڈیم بنانے پر غور کیا جاسکتا ہے جو کہ قدرتی ہے اور تین اطراف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور صرف ایک جگہ پر بند بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاں جتنی دیوار اونچی کرتے جائیں گے اتنا ہی پانی کا ذخیرہ ہوتا جائے گا۔ کالاباغ ڈیم میں جو پانی ذخیرہ کیا جائے گا اس کی مقدار 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھاشا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ 7.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ہوگا یعنی 1.5ملین ایکڑ فٹ پانی زیادہ ذخیرہ ہوگا۔ اسی طرح بھاشا ڈیم کی بجلی کی پیداواری صلاحیت بھی کالاباغ ڈیم کے مقابلے میں کئی گنازیادہ ہے۔ تعمیر پر اخراجات بھی بہت زیادہ آئیں گے۔ کالاباغ ڈیم بنانے پر 7.6 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی جبکہ بھاشا ڈیم بنانے پر 4بلین ڈالر لاگت آئے گی یعنی 3.6 بلین ڈالر خرچہ کم آئے گا۔ان تمام اعداد و شمار کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہے کہ کالاباغ ڈیم بننا چاہئے تو اسے تعصب اور انفرادی فائدے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کیونکہ کالاباغ ڈیم سے سندھ کو پانی نہیں ملے گااور راستے میں ہی ختم ہو جائے گاکیونکہ ابھی سے ہی نہریں بننا شروع ہو گئی ہیں اس لئے پانی ٹیل تک نہیں پہنچ سکے گا۔کالاباغ ڈیم بنانے سے سندھ کے ساتھ خیبر پختونخوا کے 5زرخیز اضلاع پشاور، نوشہرہ، مردان، صوابی اور چارسدہ سیم اور تھور کا شکار ہو کر بنجر ہوجائیں گے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پاکستان کا 80 فیصد سے زیادہ تمباکو پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح دریائے سندھ جس کے کنارے سندھ آباد ہے صدیوں سے یہ دریا پورے صوبے سندھ کی زمینوں کو سیراب کررہا ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین چاول کاشت کیا جاتا ہے۔ آم،گنا،کپاس اور کھجور دنیا بھر میں مشہور ہیں بہترین انواع و اقسام کی سبزیاں اور گندم پیدا ہوتی ہے لیکن اس عمل سے صوبہ اور ملک ان قیمتی اجناس سے محروم ہوجائیں گے ماضی کی طرح دریائے سندھ میں پانی کی مقدار دن بدن کم ہوتی جارہی ہے ، رہی سہی کسر کالاباغ ڈیم بنا کر پوری کردی جائے گی۔ اسی لئے اس خطرناک منصوبے کو سندھ کے عوام ہرگز قبول نہیں کریںگے یہ منصوبہ دراصل سندھ کو بنجر کرنے کی سازش ہے لیکن سازشی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ ضمانت دیتے ہیں کہ اس سے پانی نہیں روکا جائے گا۔ یہ منصوبہ کالاباغ پر ہی کیوں بنایا جارہا ہے۔ ایک ایسا دریا جس سے چاروں صوبے مستفید ہورہے ہیں۔ اس کا لیور پنجاب میں کیوں بنایا جارہا ہے اس پر تمام محب وطن ہونے کے دعوے داروں کو ضرور سوچنا چاہئے ۔ اب کہا جارہا ہے کہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ڈیم کی چوکیداری پر معمور کیا جائے گا یہ بھی صرف خوابوں کی باتیں ہیں کیاحقیقت میں ایسا ممکن ہے۔ ماضی میں شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے دورمیں ہونے والا چشمہ جہلم لنک کنال کا تنازعہ اس کی بہترین مثال ہے ۔ چشمہ جہلم لنک کنال پر سندھ کو کتنا پانی ملے گا اس کے ناپ کے لئے سندھ سے جو افسر مقرر کئے جاتے ہیں جب وہ نا پ کا کام شروع کرتے ہیں کہ سندھ کو کتنا پانی دیا جائے اور دوسری جگہوں کو کتنا پانی دیا جائے گا ان کووہا ںپر جوتے مار کر بھگا دیا جاتا ہے جس کے ثبوت ہمارے پا س موجود ہیں ،یہی وجہ کہ سندھ سے اب کوئی افسر وہاں جانے کے لئے تیار نہیں ہے اگر زبردستی اس کاتبادلہ کیا جائے تو بادل نہ خواستہ وہاں جانے پر مجبور ہوتاہے لیکن کام وہ صحیح نہیں کرپا تا البتہ رپورٹ میں یہ سب کچھ لکھ دیتا ہے ۔ شروع میں تو اس معاہدے پر عمل کیا گیا بعد میں اس کی خلا ف ورزی شروع ہوئی اورپنجاب سیلاب کے دنوں کے بجائے عام دنوں میں پانی لے رہا ہے کیونکہ اس کا لیور پنجاب میں ہے جو اپنی مرضی سے اسے کھول اور بند کر دیتا ہے جس پر شدید تنازع پیدا ہوا اور اس وقت کے ارسا کے چیئرمین اور سندھ کے ممبر نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے باوجود بھی یہ کہا جارہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی چوکیداری دوسرے صوبوں کو دے دی جائے گی جو سنگین مذاق ہے اس وقت ہماری ایک بات کی جگہ چاربات مان لی جائے گی لیکن ڈیم بننے کے بعد اس کے برخلاف ہوگا جیسا کہ ماضی میں چشمہ جہلم لنک کنال کے منصوبے میں تحریری معاہدے کے باوجود خلاف ورزی کی جارہی ہے۔


.
تازہ ترین