• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16 جولائی کو منفی شہرت کی بلندیوں کو چھو جانے والی سوشل میڈیا اسٹار فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو اسکے ماں جائے وسیم نےنام نہاد غیرت کی بلی چڑھا کر مبینہ طور پر قتل کردیا۔اس کےقتل کی خبر پل بھر میں سات سمندر پار پہنچ گئی۔بھارتی میڈیا سے لیکر امریکی میڈیا ہر کسی نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی اور غیرت کےنام پر قتل ہونے کے واقعات کو بھی خوب اچھالتے ہوئے پاکستان کو ایک بار پھربنیادپرست معاشرہ قرار دیا۔ قندیل کی شہرت اور موت اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی؟ کیا شہرت کے حصول کیلئے اسکااختیار کردہ راستہ درست تھا؟کیا وہ راستہ اخلاقیات کے کسی ایک اصول پربھی پورا اترتا ہے؟کیا الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا یا سوشل میڈیا کو اسکی موت کاذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟حقیقت میں اسکی موت کا ذمہ دارکون ہے ؟اس سے پہلے کہ کسی نتیجے پر پہنچیں ذرا اسکے ماضی قریب پر ایک نظرڈالتے ہیں۔2013میںجیسے ہی اس نے جیوٹی وی کے پروگرام پاکستان آئیڈل کے آڈیشن میں ناکامی کی ویڈیوپہلی مرتبہ اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کی تو قندیل بلوچ لوگوں کی نظروں میں آگئی ۔ بعدازاںسوشل میڈیا پر اسکی بولڈ تصاویر ویڈیوز اور مکالمے پھر توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔پہلے پہل تو وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی توجہ حاصل نہ کرپائی لیکن معاشرتی اقدار سے بغاوت کرنے کی بنا پرسوشل میڈیا پر اس کا موازنہ امریکی اسٹار کم کارڈیشان سے کیا جانے لگا۔سلمان خان،شاہ رخ خان اور عمران خان کے نام معنی خیز ویڈیو پیغامات نے اسے سوشل میڈیا اسٹار بنا دیا۔بات یہیں تک نہیں رکی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس نے شاہد آفریدی کےنام اپنی قابل اعتراض ویڈیو کا ٹیزر پوسٹ کیا تووہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ۔اس نے تحریر کیا تھا کہ اگر پاکستان انڈیا سےمیچ جیت گیا تو مکمل ویڈیو پوسٹ کرے گی لیکن خوش قسمتی سے پاکستان میچ ہار گیااور ہم اس ویڈیو کو دیکھنے سے بچ گئے۔ٹیزر ریلیز ہونے کے بعد اس کا موازنہ بھارتی بولڈ اسٹارز پونم پانڈے،راکھی ساونت اورسنی لیونی کے ساتھ کیا جانے لگا۔چیئرنگ کراس لاہور جلسہ اور زمان پارک جاکرعمران خان سے ملنے کی کوششیں تو ناکام ہوئیں لیکن وہ ٹی وی چینلوں کے مصالحہ دار مونٹاج کا لازمی جزو بن گئی۔مفتی عبدالقوی کے ساتھ بنائی گئی ویڈیواور اسکے بعد ہونے والی بحث اسے عالمی میڈیا کی نظروں میں لے آئی ۔ وکی پیڈیا پر قندیل اس کی تمام معلومات بھی پوسٹ کر دی گئیں۔ 15جولائی تک ہمارےدوغلے معاشرے کے دوہرے معیارات رکھنے والے جوانوں، شرفاء اور بوڑھوں سب کی بدولت قندیل بلوچ کا شمار ان دس پاکستانی شخصیات میں کیا گیا جنھیںگوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیا گیا۔ لاہور کراچی اور اسلام آباد وہ جہاں جاتی ٹی وی چینل اور پرنٹ میڈیا اس کا پیچھا کرتے پائے گئے۔ناقدین کی تعداد کے ساتھ ساتھ فیس بک اور ٹوئٹر پر اسکے فالورز کی تعدادمیں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا چلا گیا ۔اس کے بعد تو کیا پرنٹ اور کیا الیکٹرانک میڈیا ہر طرف فوزیہ قندیل بن کر دمکنے لگی۔پچھلے چند ماہ سے وہ بارہ مصالحوں سے بنی ایسی مزیدار چاٹ کا روپ اختیار کرچکی تھی جسے معاوضہ دیکر ہر ٹی وی چینل اپنے رن ڈائون یا سیاسی نیوز پیکیج یا ایک گھنٹہ کے پروگرام میں شامل کرنا ریٹنگ میں اضافہ کا باعث گردانتا تھا۔دو معمولی درجے کے ٹی وی چینلوں نے قندیل کو سامنے بٹھا کر نہ صرف اسے مطعون کیا بلکہ قابل اعتراض گفتگو نشر کرنے پر پیمرا کی طرف سے انھیںجرمانہ بھی کیا گیا۔ موت سے چند روز قبل ایک چینل نے تو اس کے ساتھ ایک پورا پروگرام کرکے اسے حقیقی سلیبرٹی کے روپ میں پیش کر ڈالا۔16جولائی کو ترکی میںفوجی بغاوت بظاہر سب سے بڑی یعنی ٹاپ اسٹوری تھی لیکن حیران کن طور پر سب ٹی وی چینلوں پر سب سے پہلے قندیل بلوچ کے قتل کی خبر نشر کی گئی اور بعد ازاں آج تک اس کے قتل سے جڑی جزئیات اہم خبر کے طور پر نشر اور شائع کی جارہی ہیں۔قندیل کی موت پر غیرت کےنام پر قتل کے حمایتیوںکی ظفر موج نے نہ ختم ہونے والی تنقید کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔فوزیہ کی زندگی دو حصوں پر مشتمل تھی۔ شادی تک محدود رہنے والابائیس سالہ پہلا حصہ ہے جبکہ طلاق کے بعد شروع ہونےوالےدوسرے حصہ کی عمر صرف چار سال رہی ۔تسلیم کہ بظاہر ان چار سالوں میں اس نے خوب من مانی کی۔ قوم کی بیٹیوں کیلئے کوئی قابل فخر و قابل تقلید مثال نہیں چھوڑی ۔لیکن اسکی زندگی کے پہلے حصہ میں ہونے والی زیادتیوں،بے انصافیوںکا ذمہ دارکون ہے؟کیوں اس کی مدد نہیں کی گئی تھی؟اگر اس کی شادیاں ناکام ہوگئی تھیں تو اس کے گھر کو بسانے کیلئے غیرت مند بھائیوں نے کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا؟کیا وہ ایسی ہی پیدا ہوئی تھی؟ خوابوں کی تکمیل کیلئے بس ہوسٹس اور بعد ازاں ایکٹریس بننے کا فیصلہ کیا تھا تو اسکے چھ بھائیوں کی غیرت کہاں مر گئی تھی؟ جب قندیل نے نیا گھر بنایا تھا تو بھائیوں نے اس میں رہنے سے انکار کیوں نہیں کیا تھا؟اس سے وصول شدہ رقم سے گلچھڑے کیوں اڑائے تھے؟ان تمام عذرات سے یہ نہ مطلب لیا جائے کہ حصول امارت و شہرت کیلئے وہ جو کچھ کررہی تھی وہ درست تھا۔اسکے باپ نے کہا میری سچی اور بہادر بچی کو قتل کرکے وسیم نےظلم عظیم کمایا ہے۔پگڑیاں اچھالنےاور قندیل کے ساتھ پروگرام کرنےوالے اب غیرت کے نام پر اسی کے قتل کے خلاف قانون سازی کے موضوع کو زیر بحث لارہے ہیں۔سوال تو یہ بھی ہے کہ پیمرا ٹی وی چینلز کو پابند کیوں نہیں کرتا کہ وہ سنسنی اور ہیجان انگیزی پر مبنی مواد کو نشر نہ کریں اور کسی بھی لڑکی کو بھی قندیل بلوچ بننے میں مدد فراہم نہ کریں۔ایک تقریب میں قندیل بلوچ نے بتایا تھا میرے ان باکس میں بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے راز ہیںوہ کتنے حاجی و پاکباز واقع ہوئے ہیںمیں ہی جانتی ہوں۔فوزیہ کو قندیل بنانے والے اور قندیلوں کو بجھانے والےتمام وسیم جان لیں کہ قرآنی حکم کے مطابق وہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب خدائی میں مبتلا رہیں گے۔ باقی رہا معاملہ دیگر فتوے باز لوگوں کا قندیل کو جہنمی قرار دیتے دیتے کہیں وہ خود کی جنت دوزخ نہ بنالیں۔


.
تازہ ترین