• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دارا شکوہ لکھتا ہے کہ جب پہلی مرتبہ شاہ جہاں حضرت میاں میرؒ کے حجرہ میں حاضر ہوا تو چار آدمی ہمراہ تھے۔ جاتے ہی یہ ذکر ہوا کہ حضرت میاں میرؒ نے فرمایا کہ بادشاہوں کو لازم ہے کہ حال رعایاسےگر رعایا خوش اور ملک آباد ہے’’ تو خزانہ معمور اور سپاہ خوشنود‘‘
حضرت میاں میرؒ کی یہ بات ہمیں کیونکر یاد آئی ،تو دوستوں بات دراصل یہ ہے کہ ہم پچھلے ہفتے اسکردو میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی(جنگ گروپ) کے زیر اہتمام پاکستان میں آبادی کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار کے سلسلے میں گئے تو وہاں کے حالات اور عوام کی صورتحال دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ 67 برس ہوگئے ہیں ناردن ایریا کے لوگوں کے حالات نہیں بدلے۔ کتنے ہی حکمران آئے ، کتنے حکمرانوں نے اسکردو، گلگت اور بلتستان میں ترقیاتی کاموں کے دعوے اور وعدے کئے مگر آج تک وہاں پر سڑکیں وہی ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ آج بھی وہاں پر غربت ڈیرے جمائے ہوئے ہے۔ قدرتی حسن اور پھلوں سے مالا مال یہ علاقہ جہاں پر دنیا کی بہترین چیری، خوبانی اور دیگر پھل پیدا ہوتے ہیں۔ گلاب کا پھول تو اتنا بڑا ہے جیسے گوبھی کا پھول لیکن حسرت اور یاس زدہ چہرے جن کے چہروں سے ہمارے حکمرانوں نے خوشیاں چھین لی ہیں۔وہی حکمران ہیں جو ان علاقوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ انہی غریبوں کے ووٹ سے ممبران اسمبلی بنتے ہیں۔ خود امیر سے امیر تر اور یہاں کے لوگ غربت کے گھٹا ٹوپ اندھیرں میں اترتے چلے جارہے ہیں۔
گلگت بلتستان ، اسکردو اور انہی علاقوں سے کئی لوگ وزیر اعلیٰ ،گورنر اور ممبران اسمبلی اور سینٹ کے ممبر بنے مگر انہوں نے صرف اور صرف اپنی ترقی پر توجہ رکھی۔ آج بھی وہاں گلیاں ٹوٹی ہوئی اور عوام بدحال ہیں۔ کاش! اس علاقے کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ہوتے اور پھر لوگ دیکھتے کہ یہاں پر کس قدر تیزی کے ساتھ ترقی کا عمل جاری ہوتا ۔اسکردو کے علاقے میں ہوا کا دبائواتنا زیادہ ہے کہ آپ کے تصور نہیں کرسکتے اور اس ہوا کے ذریعے انرجی یعنی بجلی بذریعہ’’ ونڈمل‘‘ پیدا کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں 1888ء میں ونڈ پاور شروع ہوچکی تھی۔ہالینڈ، نیوزی لینڈ اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ہوا کی پن چکیوں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے بلکہ کئی ممالک میں ونڈ فارم بھی ہیں جہاں پر پورے پورے کھیتوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ایک پول پر بڑے بڑے پنکھے لگے ہوتے ہیں جو بجلی پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اسکردو کے قریب واقع SATPARADAMمیں حکومت نے اگرچہ سبز پانی کی اس جھیل پر ایک ڈیم بھی بنایا ہوا ہے جو کہ اسکردو میں ، پینے کا صاف پانی اور زرعی رقبے کو سیراب کررہا ہےحالانکہ یہاں پر بہت تیز ہوائیںہر وقت چلتی رہتی ہیں اور ان ہوائوں سے ونڈ مل کے ذریعے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہ علاقہ دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور اس کی جھیل کا سبز پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کاش! اس ملک کے حالات اچھے ہوتے تو ہم سیاحت سے کروڑوں ڈالرز سالانہ کما سکتے تھے مگر ہم نے ان 67 برسوں کے دوران آہستہ آہستہ اس ملک سے سیاح بھگا دئیے ہیں۔ لاہوریوں کو یاد ہوگا کہ کبھی لاہور میں انٹرنیشنل ہوٹل کے باہر غیر ملکی سیاحوں کی ڈبل ڈیکر بسیں کھڑی ہوتی تھیں اور سیاح بڑے شوق سے لاہور اور پاکستان کے دیگر علاقوں کی سیر کو آتے تھے۔ آج بھارت صرف سیاحت سے کروڑوں ڈالرز سالانہ کمارہا ہے، ہمارے پاس دنیا کے خوبصورت ترین علاقے ہیں مگر ہم نے یہاں پر ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ کوئی آنے کو تیار ہی نہیں۔ جنرل مشرف نے اس ملک کو ایسی نہ ختم ہونے والی دہشت گردی میں دھکیل دیا ہے کہ اب تک 55 ہزار افراد اس دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں ابھی پتہ نہیں کتنے ہزار افراد اس کی نذر ہونے ہیں۔
اسکردو جیسے خوبصورت علاقے کے لئے راولپنڈی ائیرپورٹ سے روزانہ دو فلائٹیں جاتی ہیں اور یہ فلائٹ 55 منٹ کی ہے، موسم خراب ہوجائے تو بعض دفعہ چار چار روز تک کوئی فلائٹ نہ آتی ہے نہ جاتی ہے جبکہ بذریعہ سڑک آج بھی 18سے 24گھنٹے لگتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کتنی حکومتیں آئیں ہر کسی نے پاکستان کے ناردن ایریا کو ترقی دینے کی بات کی مگر عملاً کچھ بھی نہیں کیا ،آج بھی یہ علاقے بڑے پسماندہ ہیں۔ ٹرانسپورٹ ،سوئی گیس اور علاج معالجے کی بہترین سہولیات سے یہ علاقہ محروم ہے اوراگران کا نام لیا جائے تو وہ برا مان جاتے ہیں۔ان کو اس علاقے میں بہتر ین سہولتیں حاصل ہیں، ان کے ہیلی کاپٹرز ہر وقت ان کو ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے ہوا میں رہتے ہیں۔ اس علاقے میں کوئی جدید ہسپتال نہیں، یہاں کے وزیر اعلیٰ میدی شاہ کو صرف اپنی کرسی سے دلچسپی ہے، لوگوں سے بالکل نہیں۔ اس علاقے میں ونڈ کے ذریعے اتنی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے کہ نا صرف اسکردو اور گلگت بلتستان کے علاقے بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کو بھی بجلی مہیا ہوسکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کون کرے گا یہ سب کچھ اور کیوں کرے گا؟ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ اس علاقے کی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس اور فوری اقدامات کرے ۔ ہم وہاں پر کچھ لوگوں سے ملے تو انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو چند ماہ کے لئے ہمیں دے سکتے ہیں ہم نےکہا کہ اگر آئین میں ایسی کوئی گنجائش ہوتی کہ کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ادھار چند ماہ کے لئے دوسرے صوبے کو دیا جاسکتا تو یقینا شہباز شریف خود ہی اس علاقے کی ترقی اور عوام کی خدمت کے لئے آجاتے۔
جو لوگ سڑک کے ذریعے اسکردو جاتے ہیں اتنے طویل راستے میں نہ کوئی طبی سہولت ہےاور نہ مناسب ہوٹل اور حادثات کی صورت میں فوری طبی امداد کے لئے زخمیوں کو بہت دور لے جانا پڑتا ہے اور وہاں اکثر بسیں کھائیوں میں گرجاتی ہیں ۔سڑک کے کنارے اور خطرناک موڑ پر دیوار نہیں ہے ۔ اسکردو ائیر پورٹ سیکورٹی کے لحاظ سےانتہائی غیر محفوظ ہے۔ صرف دوتین سیکورٹی کے لوگ ہیں۔ کراچی ائیر پورٹ پر پہلے ہی حملہ ہوچکا ہے ،اب پتہ نہیں اور کس کس کی باری ہے۔
آپ کو اسکردو ،گلگت بلتستان کی ایک اور دلچسپ بات بتائیں۔ حال ہی میں NIPSجو کہ وفاقی حکومت کا ادارہ ہےجس نے اپنے سربراہ ای ڈی عبدالباسط خان کی سربراہی میں پورے ملک کا ایک سروے کیا ہے جس میں صحت، تعلیم، تشدد اور دیگر چیزیں شامل ہیں آپ کو سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوگی کہ اسکردو، گلگت بلتستان میں شادی شدہ عورتوں پر تشدد کی شرح صرف 20 فیصد ،پنجاب میں39 فیصد، سندھ میں 23 فیصد، بلوچستان میں 50 فیصد ا ور کے پی کے میں 57 فیصد اور اسلام آباد جیسے ترقی یافتہ شہر میں 39 فیصدہے۔ پندرہ برس تک کی لڑکیوں پر تشدد کی شرح اسکردو، گلگت بلتستان میں صرف 12 فیصد، اسلام آباد میں 32 فیصد، بلوچستان میں 43 فیصد، کے پی کے 57 فیصد، سندھ میں25 فیصد اور پنجاب میں 20 فیصد ہے ۔
گلگت بلتستان سے صرف 212 کلو میٹر پر دنیا کا بلند ترین پولو کا میدان شندور ہے جہاں پر آج بھی پولو اصل روایتی انداز میں کھیلی جاتی ہے۔ پولو ایک بلتی لفظ ہے جس کے معنی گیند کے ہیں یہ انتہائی پر خطر راستہ ہے اور سطح سمندر سے 12500فٹ بلند ہے جہاں پر آکسیجن کی کم مقدار ہوتی ہے کاش اس علاقے کی حکومت یہاں پر کوئی ترقیاتی کام کرسکے ۔ انگریز حکومت کے میجر ایولن ایچ کوب نے 1936 میں یہاں پر پولو کا ٹورنامنٹ شروع کردیا تھا۔ میجر ایولن کی سوچ کے مطابق دنیا کا یہ بلند ترین میدان چاند کے قریب ہے لہٰذا چاندنی راتوں کو یہاں پر پول کھیلی جاسکتی ہے۔
تازہ ترین