• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے میر منشی جناب ڈار نے ایک اور میزانیہ (بجٹ) قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ۔ اگر یہ میزانیہ نہ بھی پیش کیا جاتا تو کچھ فرق نہ پڑتا۔ اب قومی میزانیہ عرف عام میں بجٹ قابل اعتبار نہیں رہا۔ معاشرہ میں کسی کو یقین نہیں کہ حکومت کے اس منصوبے اور وعدے پر ان حالات میں کون اعتبار کرے۔ پاکستان کی سرکار کی منصوبہ بندی عوام کو پریشان کرتی ہے کہ وہ عوام کے معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ حالیہ بجٹ میں تعلیم، صحت ، دفاع کے سلسلہ میں رقوم قابل اعتبار نہیں لگتی۔ مملکیت کے غیر ضروری اخراجات میں اضافہ قابل تشویش ہی نہیں قابل ذکر بھی ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات عوام کو بحیثیت اور صبر کا سبق دے نہیں سکتے ایسے میں کون سوچے گا کہ جناب میر منشی کی حسابی علمیت خاطر خواہ نتائج دے سکے گی۔ میر منشی کی حکمت اور مروت کے کارن ڈالر کی قیمت کچھ عرصہ سے ایک ہی جگہ ضرور رک گئی ہے مگر اس کے نتیجہ میں عوام کو تو رعایت ملتی نظر نہیں آ رہی ۔اس صورتحال میں عوام بے بس اور لاچار ہیں پھر یہ بھی نہیں معلوم کب اور کس وقت ایک نیا ضمنی میزانیہ آ سکتا ہے ۔ شریف سرکار کو ایک سال ہو گیا ہے پہلے میزانیہ کے وقت وہ تازہ تازہ وارد ہوئے تھے اور سابقہ زرداری سرکار نے نوکر شاہی کی مدد سے میزانیہ ترتیب دیا ہوا تھا سو مجبوری کے عالم میں اس کو لاگو کر دیا گیا ۔انتخابات سے قبل جو وعدے اور جو باتیں عوام سے بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب اب ناقابل عمل لگتی ہیں ٹیکس کے معاملہ میں ایک بڑا ادارہ ایف بی آر کا ہے جس کے دعوے بہت مگر عمل کی صورت نظر نہیں آتی ۔کمزور اور غریب لوگوں سے ہر چیز پر ٹیکس لیا جاتا ہے دوسری طرف اشرافیہ اس سزا سے اپنی قوت کی وجہ سے بچی ہوئی ہے سب سے بڑا ناقابل اعتبار ادارہ ایف بی آر (FBR)کا لگتا ہے ۔
اس حالیہ میزانیہ کی منظوری میں شریف سرکار کو خاص مشکل نہیں ہو گی کیونکہ بابو لوگوں نے میر منشی صاحب بہادر کے مزاج اور تیور کو مدنظر رکھ کر یہ میزانیہ بنایا ہے ۔ جب اپنوں پر اتنا اعتبار ہو تو ایسے میں عوام کو کون خاطر میں لاتا ہے ۔
شریف سرکار اب تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکتی ہے ۔ دہشت گردی کی جنگ میں اس کا نقطہ نظر فوج سے مختلف سا نظر آتا ہے ۔ اندرون ملک دہشت گردی نے ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے ۔ بیرون ملک دشمنوں سے تو فوج لڑ سکتی ہے مگر اندرون ملک جو خلفشار ہے سیاسی اور سماجی بدنظمی ہے۔اس کے لئے فوج مشاورت کر سکتی ہے ورنہ اس کے کردار پر سب سے پہلے اشرافیہ ہی انگلی اٹھاتی ہے۔ ملکی دفاع اور ملکی معیشت ان میں گہرا تعلق ہے اور اس کے لئے اعتبار اور اختیار میں توازن بھی ضروری ہے اور یہ اعتبار صرف نظام عدل ہی فراہم کر سکتا ہے ۔ چند دن پہلے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کے پاس گیا ہوا تھا وہ تازہ تازہ ادب شناشی کے سحر میں آئے تھے پولیس سروس سے پہلے وہ افواج پاکستان میں تھے قسمت نے یاوری کی۔ پرجوش اور وقت شناس ہیں قسمت نے موقع دیا ملکی سرحدوں سے اندرون ملک فتنوںکو ختم کرنے کا موقع ملا ۔ سو پولیس قبیلہ میں شامل ہوگئے دوران گفتگو جنرل مشرف سابق صدر کا ذکر ہوا۔ موصوف تو گویا بدک سے گئے سیاست پر اور سیاست دانوں پر خوب برسے اور جنرل کے ہر فعل کا جواز اور جواب ان کے پاس تھا ۔مجھے ان کی یہ ادا اچھی لگی میں نے کہا حضور مقدمہ عدالت کے سامنے ہے ہم کسی کے گناہ اور ثواب کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے وہ عدالتوں کے بارے میں بھی مخدوش رائے رکھتے تھے۔ بات سے بات نکلی تو عدلیہ کے ایک سابق سربراہ کا ذکر بھی ہوا ۔ جس پر موصوف ذرا دیر کو شانت ہوئے۔
میں نے کہا آج سب لوگ عدلیہ کے ایک سابق سربراہ کے فیصلوں پر تنقید اور ان کی ذات پر بداعتمادی دکھا رہے ہیں جب کہ انہوں نے عدلیہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل بنا دیا ہے ۔ انصاف اور قانون کی پاسداری کے لئے ان کے جذبے اور عمل میں فرق نظر نہیں آتا ۔ کونسا ایسا عظیم شخص گزرا ہے جو قابل اعتبار رہا ہو۔ ہم سب لوگ بدنیتی کی بیماری کا شکار ہیں اور اس بیماری کا لطف بھی بہت ہے اور جواز میں ایسے جملے استعمال کئے جاتے ہیں کہ انصاف کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ عموماً کہا جاتا ہے یار تمہاری نیت میں فتور ہے ۔ ہماری سمت درست نہیں وغیرہ وغیرہ، جواب آتا ہے آپ میری بات سمجھ نہیں رہے نیت پر شک کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے بات عدلیہ ایک سابق سربراہ کی ہو رہی تھی ۔
ہمارے پولیس افسر دوست بتا رہے تھے کہ پولیس کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے پاکستان کے مرکزی شہر اسلام آباد میں نوکری شروع کی اور کچھ ایسے لوگوں کو پکڑا جو غیر قانونی دھندوں میں مصروف تھے ۔ ثبوت کے ساتھ ان پر ہاتھ ڈالا گیا پہلے تو اپنے اعلیٰ افسران کی طرف سے عدم تعاون ملا اور معلوم ہوا کہ سب لوگ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔ مگر انہوں نے بھی ثابت قدمی کا ثبوت دیا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو غیر فعال کر دیا گیا اور معاملہ اعلیٰ عدلیہ کی نظر میں آ گیا ان کو بلایا گیا یہ تیاری کے ساتھ گئے پہلے پہل تو چیف جسٹس کا رویہ خاصا پریشان کن تھا مگر جب انہوں نے اپنا مقدمہ پیش کیا تو صورتحال بدل گئی دوسری طرف کار سرکار کے ہمدرد لوگوں نے ان کا تبادلہ بلوچستان کردیا۔ اور جب چیف جسٹس کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے اس معاملہ پر سابق آصف زرداری سرکار کی جواب طلبی کی۔ ان کا بلوچستان جانا موخر ہوا اور ان کو یقین آیا کہ قانون انصاف پسند ہوتا ہے اور ان کی رائے بھی اس بارے میں بدلی مگر سابق صدر جنرل مشرف کے حوالے سے وہ اپنی سابقہ رائے پر ہی مصر نظر آئے ۔
بات حالیہ بجٹ سے شروع ہوئی ہمارے مہربان اور جنگ میں لکھاری ساتھی سابق جنرل احتشام ایک زمانہ میں جنرل مشرف کے ساتھ رہے اور کچھ سیاسی معاملات میں شریک راز بھی رہے مگر بعد میں ذاتی اختلاف کی بنا پر بنا ترقی کے سبکدوش کر دیئے گئے ۔ان کے والد گرامی قدر سید ضمیر جعفری ہمارے ادبی محسن ہیں وہ اس جبر کے دور میں کیا خوب لکھتے تھے (ر) جنرل احتشام کے لئے اب اس راہ پر چلنا مشکل ہے یہ میری رائے ہے ہمارے دوست احتشام کے لئے متفق ہونا ضروری نہیں اس زمانہ میں سید ضمیر جعفری نے ایک قطعہ لکھا جو میرے دماغ میں اب تک محفوظ ہے ۔ اور جس کا زمانہ اب تک نہیں بدلا ۔
ہر وزیر دانہ ہے
ہر مشیر دام ہے
یہ نظام خام ہے
زندگی حلال ہے
آدمی حرام ہے
سو اس میزانیہ کے بعد ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کس پر اعتبار کریں کہ جہنم کے بعد مسلمانوں کو جنت ہی ملے گی۔
تازہ ترین