• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں آپ نے لندن سے تین پاکستانی انقلابی سیاسی قائدین کی وہ پریس کانفرنس ملاحظہ کی ہوگی جس میں بابائے انقلاب مسندصدارت پر اور دو انقلابی برادران ان کے دائیںاور بائیں براجمان تھے۔ صدر انقلاب نے انقلاب کی ضرورت اورافادیت بڑے بھرپور انداز سے بیان کی اور اعلان فرمایا کہ وہ اس سال برسات سے قبل پاکستان تشریف لائیں گے اور بارشی سیلاب کی جگہ انقلابی سیلاب لائیں گے۔ اُن کے دائیں جانب بیٹھے انقلابی برادر نے انقلاب کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک مختلف قسم کا انقلاب ہوگا جو کسی کے خلاف نہ ہوگا ۔ ان کے منہ سے یہ بات نکلی ہی تھی کہ صدرِ انقلاب نے کہا کہ نہیں یہ انقلاب ظلم کے خلاف ہوگا جس کی انقلابی برادر نے تائید کی اور اس کے بعد انقلابی قاعدے کی گردان شروع ہوگئی۔ جو کچھ صدر انقلاب کہتے رہے برادرانقلاب نہایت سعادت مندی سے اس کو دہراتے رہے۔
قارئین کرام! ان انقلابی سیاسی قائدین کے سیاسی پس منظر سے قطع نظر ان کا آخری عمر میں انقلاب کی طرف رجوع ہونا میرے نزدیک خوش آئند ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے تین میں سے دو فوجی انقلابوں کو خاصا قریب سے دیکھاہے۔ بدقسمتی سے پہلاانقلاب ان کے ہاتھ سے بچ نکلا کیونکہ اُس وقت یہ حضرات شاید سیاسی سن بلوغت کو نہیں پہنچے تھے۔ ہمیں ان کے انقلاب کی دعوت کو اپنی جھولی میں لینے سے پہلے ’’بھائی انقلاب‘‘ کی تاریخ پر ضرور نظر ڈالنی چاہیے۔ جب سے ہم بحیثیت پاکستان اس دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے سب سے پہلا انقلاب چین میں رونما ہوا، جہاں اُس وقت سے اب تک سب کے سب جمہوریت سے محروم مگر چَین سے ہیں۔ چھوٹے موٹے انقلابوں سے بچتے ہوئے نظر 1979؁ء کے ایرانی انقلاب پر جا رکتی ہے جہاں اُس وقت سے لیکر اب تک ایک مخصوص مسلک کی مذہبی حکومت قائم ودائم ہے۔ تقریباً اُسی دوران افغانستان میں بھی انقلاب آیا جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ موجودہ صدی کے اہم ترین انقلاب ARAB SPRING(عربی چشمہ) کے نام سے مختلف ممالک میں پھُوٹا جس کے نتیجے میں ہزاروں سر پھوٹے اور لاکھوں جانیں زیر زمین دفن ہوئیں۔ابتدائی انقلابی چشمہ جنوری2011؁ء میں TUNISIA میں رونما ہوا جس کے نتیجے میں صدر بن علی نے سعودی عرب فرار ہوکر اپنی جان بچائی۔ بجا طور پر ایک طویل آمریت کے بعد پارلیمانی انتخابات ہوئے جس میںمذہبی جماعت نے لادینی جماعتوں کا سہارا لے کر مخلوط حکومت بنائی جوآج تک غیر مستحکم ہے۔ اسی سال ایک ماہ بعد یہی کچھ مصر میں ہوا۔ حسنی مبارک کی چھٹی ہوئی جمہورنے جمہوری انداز میں مرسی کو صدر منتخب کیا ۔ خوب خوشیاں منائیں مگر ابھی جشن جاری ہی تھا کہ مرسی کی بھی چھٹی ہوئی ۔ اس کے بعدمصری عوام ضمنی انقلاب سے دوچار ہوئے اور اب سابقہ آرمی چیف بھاری اکثریت سے نئے صدرمنتخب ہو چکے ہیں۔ یہ تو کچھ ایسے ہی ہوا جیسے خدا نخواستہ ہمارے جنرل کیانی اپنی توسیع شدہ مدت ملازمت کے آخری ایام میں صدر منتخب ہونے کا ارادہ کرتے اور پھر منتخب بھی ہوجاتے ! قبلہ حسنی مبارک کی معزولی کے صرف چار روز بعد لیبیا میں انقلاب برپا ہوا اور ابھی تک انقلابی نقاہت و غنودگی سے نکلنے کی کوشش میں ہے۔ چوتھا چشمہ یمن میں علی عبداللہ کے خلاف ظہورپذیر ہوا جس کے نتیجے میں فوج دو سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہوئی اور القاعدہ نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ابھی تک یہ عمل جاری ہے۔ خیر آجکل شام زیر انقلاب ہے اور دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے۔قارئین کرام! ہمارے انقلابی قائدین کے حالیہ بیانات سے تو یوں لگ رہا ہے کہ شام کی صبح کے بعد شاید ہماری صبح بھی طلوع ہونے والی ہے؟ شوروواویلا تو ایسا ہی ہے مگر مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ انقلاب کو لایا نہیں جاتا وہ خود سے آجاتا ہے اور جب آجاتا ہے تو پھر رہی سہی ساکھ کی راکھ ہی رہ جاتی ہے۔ اگر ہم سب خلوص نیت سے اپنے دلوں کو ٹٹولیں تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ہمیں انقلاب سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت ہے جس کا دارومدار مخلص ، بے لوث اور دیانتدار قائدین پر ہے۔ اگر ہم خدانخواستہ یہ بنیادی باتیں بھی نہ کر پائے اور ہمارے حکمراں اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ مذکورہ بالا انقلاب طویل آمریت اور بادشاہت کا شاخسانہ تھے تو یہ ان کی بھول ہوگی کیونکہ ہمارا طرز حکمرانی اور عوام کی ترجمانی کسی طرح بھی مغلیہ بادشاہوں سے کم نہیں ہے۔ انہیں اگر ملک کو انقلاب کی تباہی سے بچانا ہے تو صدق دل سے از خود ایسی دوررس اصلاحات رائج کریںکہ لوگوں کو خوامخواہ سڑکوں پر آنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ ویسے بھی یہ زحمت کسی بھی صورت ان کیلئے باعث رحمت نہ ہوگی۔ ہمیں ہر حال میں جمہوریت پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے لیکن حقیقی جمہوریت پر جو کہ جمہوری سوچ اور جمہوری اقدار سے مالا مال ہو۔ میں اپنی ساری عمر کی پیدائشی حب الوطنی کو دائو پر لگاتے ہوئے ہندوستان کی مثال دینا چاہوں گا جہاں ایک ماہ جاری رہنے والے حالیہ انتخابات میں 81کروڑ سے زائد ووٹرز تھے مگر کہیں سے بھی کسی قسم کی دھاندلی کا شور نہیں اٹھا۔باوجود کہ ان کے ہاں کوئی ’’نگران حکومت ‘‘ تک نہیں تھی ۔اس کے بر عکس ہمارے ملک میں صرف ایک دن میں ہونے والے انتخابات میں 8کروڑ 45لاکھ ووٹرز میں سے 55% ٹرن آئوٹ رہااور دھاندلی کی جگہ دھاندلوں کا واویلا ہے۔ کیا یہ صورت حال شرمناک نہیں ؟ آپ چاہیں تو ہندوستان کے نو منتخب وزیر اعظم کو جتنا برا بھلا کہہ لیں مگر انہوں نے آتے ہی چند احکامات صادر فرمائے۔ مثلاً کوئی بھی سیاسی اور حکومتی اہلکار اپنے عزیزواقارب کی کسی طرح کی معاونت اور سرپرستی نہیں کریگا(یہی کچھ ملائشیا کے مہاتیرمحمد نے بھی کیا تھا) اور مخیر حضرات کا ملک سے باہر رکھا ہوا پیسہ ملکی سرمایہ کاری میںاستعمال کیا جائے گا۔ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ظاہر ہے کیسے کریں جب ہمارے ہاں موروثی سیاست ہی تو رائج ہے جس میں آدھے سے زیادہ حکومتی عہدے قریبی رشتہ داروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ جہاں تک بیرون ملک دولت رکھنے کا سوال ہے تو زیادہ تر ایسے مخیر حضرات ہی حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں جن کا پیسہ ملک سے باہر ہے تو وہ اپنا ہی باہر رکھا ہواپیسہ واپس کیوں لائیں؟ آخر میں میری اپنے قائدین سے مودٔبانہ گذارش ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اس سے پہلے کہ کوئی چلا ہوا کارتوس واقعی چل نکلے۔ آپ کی اصلاحات کا منتظر.......آپ ضمیر
تازہ ترین