• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے طالبان کا ہدف مسافر طیارے تھے ، شہری ہوا بازی کا نظام یا امریکیوں کا قائم کردہ ٹیکنیکل کمانڈ اینڈ کنٹرول آپریشنز سنٹر ؟وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ایسا کوئی آپریشنز سنٹر ایئرپورٹ پر تھا بھی یا نہیں ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، امریکہ یا سابقہ حکمران ٹولہ جس نے مبینہ طور پر یہ سنٹر قائم کرنے کی اجازت دی۔ ایک بات طے ہے یہ سری لنکن ٹیم پر حملے کی طرح ہمہ جہت، ہمہ پہلو کارروائی تھی۔ عالمی ایئر لائنز، سرمایہ کاروں اور بین الاقوامی اداروں کی آمدورفت کو روکنے کا کامیاب حربہ ۔
ہمارے ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر دوست گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان کے دور کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شب کمشنر سکھر کو گورنر ہائوس سے فون موصول ہوا پوچھا گیا کہ فلاں ضلع کا ڈپٹی کمشنر اس وقت کہاں ہے ؟ ذرا معلوم کرو کمشنر نے اپنے ماتحت کے ذریعے معلومات لے کر بتایا کہ وہ دور دراز قصبہ میں روٹین انسپکشن پر ہے ٹیلی فونک رابطہ ممکن نہیں ؟ گورنر خود فون پر آئے، کمشنر کو جھاڑا کہ ڈی سی سکھر کی فلاح تقریب میں موجود لطف اندوز ہو رہا ہے چنانچہ دونوں معطل اور صبح گورنر ہائوس حاضر ہوں ۔
نواب کالا باغ اپنے صوبے پر عقابی نظر رکھتے، طول وعرض میں خدمات انجام دینے والے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی سرگرمیوں سے باخبر رہتے اور انہیں صبح وشام اپنی چابکدستی، بیدار مغزی اور باخبری کا احساس دلاتے جس کی وجہ سے وہ چوبیس گھنٹے اپنے فرائض کی بجا آوری میں مشغول رہتے اور عوام کے امن و سکون، جان ومال عزت وآبرو کے تحفظ کو یقینی بناتے ۔ تبھی لوگ آج تک اس سخت گیر، جابر اور کسی حد تک بے رحم حکمران کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں حکمرانی کا مگر ایک نیا اور نادر روزگار ماڈل متعارف کرایا جا رہا ہے ۔وزیر اعظم پر دو روز لاہور میں گزارنا فرض ہے ۔وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ شام سات بجے کے بعد کسی کا فون نہیں سنتے ، حادثے کی رات بھی انہوں نے وزیر اعظم کا فون نہیں سنا چنانچہ انہوں نے آرمی چیف سے بات کی ۔ پرانے زمانے میں اہم وزراء، حکومتی عہدیداروں اور صدر یا وزیر اعظم کے مابین ایک میکرو فون یا ہاٹ لائن رابطے کی سہولت ہوتی تھی مگر اب شائد بی ایم ڈبلیو گاڑیوں اور سراغ رساں کتوں کی خریداری کے اخراجات بڑھ جانے کے سبب یہ عیاشی ختم ہو گئی ہے اور موبائل فون رابطےمیں کارآمد سمجھے جاتے ہیں ۔
وزیر داخلہ کا اصرار ہے کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ اور حکومت سندھ کو ایڈوائزری جاری کی کہ ا یئر پورٹ اور دیگر حساس مقامات خطرے میں ہیں مگر کسی نے توجہ نہیں دی گویا وزارت داخلہ اور وفاق کی بس اتنی ہی ذمہ داری تھی۔ وزیر اعلیٰ نے بھی یہ ’’الرٹ‘‘ مختلف اداروں کو جاری کرکے لمبی تان لی ہو گی ویسے بھی روزانہ بیسیوں الرٹ جاری ہوں تو ردی کی ٹوکری ان کا مقدر بنتی ہے ۔شیر آیا، شیر آیا کی کہانی اس بنا پر مقبول ہے کہ جب شیر آ جائے تو کوئی یقین کرتا ہے نہ کسی کو ہوش آتی ہے۔
دہشت گردوں میں سے کوئی زندہ بچا نہ گرفتار ہوا اس لئے وفاقی وزیروں اور ان کے ہمنوائوں پر یقین کر لینا چاہئے کہ دہشت گرد اپنے مقاصد میں ناکام رہے اور اے ایس ایف کے نوجوانوں کی جرات مندی و دلیری کے باعث ہم بڑے حادثے سے بچ گئے مگر کیا اتنا بڑا واقعہ کسی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا متقاضی نہیں تاکہ اس سانحے کے دوران جس جس نے کوتاہی ، کمزوری، غفلت، نالائقی، نااہلی اور سہل پسندی کا مظاہرہ کیا اس کا سراغ ملے، اندر سے جو ملوث تھا اس کا پتہ چلے اور شمالی وزیرستان سے کراچی اور پھر ایئرپورٹ تک پہنچنے میں مدد اور چشم پوشی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا آسان ہو مگر تاحال خاموشی ہے شائد ہر ایک کو پردہ پوشی اور صفائی کے لئے کہانیاں گھڑنے کا موقع دیا جا رہا ہے جوہمارا وطیرہ ہے۔
بائیس افراد کو توچلو حملہ آوروں کا نشانہ بنے، اپنے فرائض کی بجا آوری میں شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئے مگر کولڈ سٹوریج میں پناہ لینے والے جو زندہ سلامت نوجوان، جیتے جاگتے انسان سول ایسوسی ایشن، آپریشن کے ذمہ داروں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے تدبیری، کوتاہ بینی، غفلت اور بے حسی و سنگدلی کے سبب کئی گھنٹے تک زندہ رہنے کی امید میں ریسیکو کا انتظار کرتے رہے، اپنے پیاروں کو فون پر اپنی حالت زار کے بارے میں بتاتے رہے اور ان کے لواحقین صبح سے شام تک شور مچاتے، دہائیاں دیتے، شاہراہ فیصل پر بیٹھ کر فریادیں کرتے رہے ان کا خون کس کے سر ہے ۔ ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے ؟
آگ کی تپش میں بھی زندہ رہنے کی جدوجہد کرنے والے ان سات افراد کی آواز ڈاکٹر عشرت العباد اور قائم علی شاہ تک پہنچی نہ شجاعت عظیم اور ان کے ماتحتوں کے کانوں تک اور نہ وفاقی وزیر داخلہ، وزیر اعظم اور کسی دوسرے حکمران کو مختلف چینلز پر چلنے والے ’’ٹکرز‘‘ سے پتہ چلا حالانکہ یہ دوپہر کو چلنا شروع ہو گئے تھے ۔ تین بجےدوپہر تک کم از کم فیضان نامی ایک شخص زندہ مدد کی اپیل کر رہا تھا لیکن مرکز اور صوبے کے حکمران سب اچھا کی گردان میں مصروف ان کم نصیبوںسے غافل رہے۔
جب مختلف ٹی وی چینلز پر میرا تھان ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا تو وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم تک سب کو ہوش آ گئی ۔ہر ایک کا جذبہ انسانی ہمدردی بیدار ہوا، دھڑا دھڑ احکامات اور بیانات جاری ہونے لگے ۔ مشینری بھی آ گئی ، دیواریں بھی ٹوٹ گئیں اور کئی گھنٹے تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ر ہنے کے بعد کوئلہ بن جانے والوں کی لاشیں بھی برآمد ہوئیں مگر گستاخی معاف یہ عوام کو بیوقوف بنانے، لواحقین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور حکمرانوں کی طرف سے اپنے انسان دوست، ہمدرد اور میڈیا کا بلاتاخیر نوٹس لینے والے تشخص کو برقرار رکھنے کا ڈھکوسلہ تھا ورنہ یہ کام بارہ چودہ گھنٹے قبل موقع پر موجود سرکاری اہلکاروں اور حکومتی سرکاروں کی اطلاع پر ہوتا جیسا کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے گورنر کو اپنے اہلکاروں کی سرگرمیوں کی اطلاع ملا کرتی تھی بروقت بلکہ قبل از وقت۔
یہ محض کوتاہی اور بشری کمزوری نہیں قتل عمد ہے اور ہر وہ شخص اور ادارہ اس قتل عمد کا ذمہ دار و مرتکب جس نے ایئر پورٹ اور اس سے متصل تمام علاقوں، چپے چپے کی مکمل تلاشی، آگ کی ہر چنگاری کو بجھانے اور اس علاقے میں کام کرنے والے افراد کو بحفاظت اپنے گھروں تک پہنچانے اور جان بحق ہونے والوں کا سراخ لگانے کے بجائے جلد بازی اور افراتفری میں آپریشن کو روکا، فائر بریگیڈز کو رخصت کیا انسانوں کے بجائے موقع پر موجود سازو سامان کو بچانے پر توجہ دی اور داد لینے کے لئے فلائٹ آپریشنز کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ ان قاتلوں نے دہشت گردوں سے بچ جانے والے سات خاندانوں کے کفیل جیتے جاگتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
اگر خدانخواستہ کسی وی آئی پی کا کوئی جانور یا سامان اس سٹور میں موجود ہوتا تو سب سے پہلے یہاں آگ بجھائی جاتی پھر کوئی دوسرا کام ہوتا مگر سات غریبوں کی جان کی کس کو فکر؟
میرے منہ میں خاک، اب عادت کے مطابق ہر ایئر پورٹ کی سکیورٹی سخت ہے دیگر عمارتوں اور مقامات کے ارد گرد پہرہ لگا دیا گیا ہے اور غالباً شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ بھی ہوا ہے مگر اوجڑی کیمپ سے مہران بیس سانحہ اور جی ایچ کیو سے پشاور ایئر پورٹ دہشت گردی تک یہ چار دن کی بھاگ دوڑ ہے ناکے، جامہ تلاشی اور پوچھ گچھ ،پھر معمولات پرانی طرز پر بحال ہو ںگے اور دہشت گردوں کے نئے واقعہ تک ہم چین کی بانسری بجائیں گے ۔
نواب امیر محمد خان جیسا کوئی جابر اور ڈکٹیٹر کا مسلط کردہ حکمران ہوتا تو ان دنوں پارلیمینٹ کے اندر اور باہر بیان بازی کرنے والے بیشتر لوگوں کی خیر نہ تھی دھان بچہ کو لہو نہ پلواتے تو چھٹی ضرور کرا دیتے مگر یہ جمہوری دور ہے اور جمہوریت بہترین انتقام، سات بے گناہوں کے لواحقین سے کوئی پوچھے یہ بدترین فرسودہ ناکارہ، سنگدلانہ سسٹم مزید کتنا عرصہ چلنا چاہئے ؟ جس میں جزا و سزا کا کوئی انتظام ہے اور نہ خود احتسابی کی شریفانہ عادت، چرب زبانی،فریب کاری اور خودستائی سکہ رائج الوقت ہے اور بس ۔
تازہ ترین